پاکستان میں کرپشن کلچر کا آغاز


وطن عزیز میں موجود کرپشن کلچر کے آغاز اور فروغ کے ڈانڈے ماضی قریب کے 4 بڑے واقعات میں سے ملتے ہیں۔ 1857 ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انڈین معاشرہ انگریزی راج کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم ہو گیا۔ انگریزوں نے اپنے حامیوں کو مختلف طریقوں سے نوازا جن میں جاگیروں کی شکل میں زرعی اراضی کی بندر بانٹ سے لے کر اعلیٰ سرکاری عہدوں اور کاروباری مواقعوں، سرکاری ٹھیکوں کی صورت میں اپنے وفاداروں کو معاشی و سماجی سطحوں پر مضبوط کیا۔ اس طرح کی سماجی تقسیم ہندوستان کے ہر گھر یا ہر خاندان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نتیجتاً ایک ہی فیملی کے کچھ لوگ امیر ہو گئے اور باقی ماندہ غریب رہ گئے۔

اگلا بڑا واقع ہندوستان کی تقسیم یا آزادی کی صورت 1947 ء کو وقوع پذیر ہوا۔ لاکھوں خاندانوں کی ہجرت اور لاکھوں عوام کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر لوٹ مار اور متروک املاک و کاروبار پر قبضہ گیری کا بازار بھی گرم ہوا۔ نتیجہ کے طور پر پھر کچھ لوگ یا خاندان امیر ہو گئے اور باقی غریب رہ گئے۔

خطہ عرب میں تیل کی دولت کی وجہ سے پاکستان اور انڈیا سے لاکھوں لوگوں نے مال کمانے کے لیے 1970 ء کی دہائی میں عرب ممالک کا رخ کیا۔ معاشرتی طور پر ایک سماج ایک دفعہ پھر امیر اور غریب ہو جانے میں تقسیم ہوا۔ مثال کے طور پر جن گھرانوں سے ایک دو لوگ بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو گئے وہ امیر ہو گئے اور پیچھے رہ جانے والے غریب رہ گئے۔

1960 ء کی دہائی سرد جنگ کے عروج کی دہائی ہے۔ امریکہ اور سویت یونین اپنے اپنے بلاکوں کو وسیع اور مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ امریکہ اور اتحادیوں نے ایک چال کے طور پر عالمی مالیاتی اداروں کو استعمال کر کے بیشمار ممالک کی حکومتوں کو بے پناہ قرضے اور امداد دے کر خرید لیا اور ان کے ممالک کو اپنے بلاک میں شامل کر لیا۔ اس طرح کی ریاستوں کے بڑے بڑے عہدیدار ان قرضوں اور امداد سے مستفید ہوئے اور انہوں نے چھوٹے اہلکاروں کو خوش کرنے کے لیے انہیں رشوت ستانی کی کھلی چھوٹ دے دی۔ آج چھوٹے راشی قسم کے سرکاری ملازمین کے معاملات بھی کروڑوں میں ہیں۔ ماضی کی طرح اس موقع پر بھی اسی طرح کا نتیجہ دیکھنے میں آیا کہ اگر ایک بھائی جو سرکاری ملازم تھا امیر ہو گیا اور دوسرا جو کسی وجہ سے سرکاری ملازمت حاصل نہ کر سکا وہ غریب رہ گیا۔

ان مذکورہ واقعات نے کچھ معاشرتی رویوں اور قباحتوں کو جنم دیا جن میں امیر لوگوں نے اپنی امارت کو قائم رکھنے کے لیے مزید کرپشن اور غریب عوام نے امیر بننے کے لیے نت نئے راستوں کی تلاش شروع کر دی، راتوں رات امیر بننے کی شدید خواہشات دل و دماغ پر حاوی ہو گئیں، راستے کی رکاوٹ بننے والی تمام اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ یک دم امیر بننے کے لیے امیر یا طاقت ور افراد یا گروہوں کی چمچ گیری یا حاشیہ برداری کو وتیرہ زندگی بنایا گیا، بیرون ملک جانے اور سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا جانے لگا۔

ہر قسم کی غیر اخلاقی اور غیر قانونی منافع بخش سرگرمیوں کو ”کاروبار“ کا درجہ دے دیا گیا۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، چور بازاری، ٹیکس چوری، بجلی و گیس چوری وغیرہ بھی امیر ہونے کے فارمولے ٹھہرے۔ اس طرح کی 75 سالہ مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی اشرافیہ تو ایک طرف رہ گئی ملک کا عام آدمی یا غریب آدمی بھی راتوں رات امیر ہونے کی دوڑ میں شامل ہو گیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ایک پنکچر لگانے والا اپنے محدود کاروبار سے ہی کروڑ پتی ہونا چاہتا ہے۔ حد تو یہ ہے دانشور طبقہ جس کا کرپشن سے کوئی تعلق نہ بھی ہو وہ بھی کرپشن کو جائز سمجھتا ہے۔

اس امیر بننے والی دوڑ کے ملک اور معاشرہ پر اثرات کچھ اس طرح سے مرتب ہوئے ہیں، آج پاکستانی پاسپورٹ کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔ برآمدات کے معیار میں بتدریج کمی سے عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ میں کمی کے ساتھ ہی آج ملک زر مبادلہ کی شدید کمی کا شکار ہے۔ ریاستی و سیاسی مشینری بالعموم کرپشن زدہ ہونے کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے و امیر مما لک پاکستان کو قرضہ دینے سے گریزاں ہیں۔ اس وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری تو دور کی بات ملک میں عام سیاح بھی آنے کو تیار نہیں۔

روز افزوں مہنگائی صنعت کا مقام حاصل کر چکی مثال کے طور پر افراط زر کے نتیجے کے طور پر اگر کسی چیز کی قیمت میں 2 روپے کا اضافہ بنتا ہو لیکن قیمتوں پر حکومتی کنٹرول نہ ہونے سبب یا ملی بھگت سے 10 یا 20 روپے کا اضافہ کر کے نہ صرف مہنگائی کا بوجھ دوسروں پر منتقل کر دیا جاتا ہے بلکہ اپنے منافع کی شرح میں بھی اضافہ کر لیا جاتا ہے۔ اگر حکومت کسی اشیاء صرف پر ٹیکس لگا دے یا ٹیکس میں اضافہ کر دے تو ٹیکس چوروں کی مزید چاندی ہو جاتی ہے۔

عوام سے ٹیکس وصول تو ہو جائے گا لیکن سرکاری خزانے میں نہیں پہنچے گا۔ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس وغیرہ جتنی مہنگی ہو گی ان کی چوری بھی اس حساب سے بڑھ جائے گی۔ سرد جنگ کے زمانے میں امیر تر ہونے والے خاندان یا افراد اب حالیہ روس یوکرائن جنگ اور مستقبل میں ممکنہ امریکہ چین سرد جنگ کے تناظر میں ایک با پھر ”لوشے“ لگانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

اخلاقیات، مذہب، آئین، قوانین، عالمی قوانین، سوشل سائنسز، عام دنیا داری حتیٰ کہ سرمایہ داری کے بھی کسی معیار سے کرپشن کو جائز قرار یا تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان شاید دنیا کا شاید واحد بدقسمت ملک ہے جہاں کرپشن کا زہر اس قدر رگوں میں اتر چکا کہ کرپشن کے مسئلہ پر کوئی سنجیدہ فکری بحث، گفتگو، تحریر و تقریر یا تحریک کم از کم راقم کے ناقص علم میں نہیں ہے۔ مالی کرپشن سے زیادہ خطرناک فکری کرپشن ہے اور وہ بھی پاکستان میں عام اور نہایت سستی ہے مگر فی الوقت یہ موضوع نہیں ہے اس لیے اس پر طبع آزمائی پھر کبھی سہی۔

ملکی سیاست میں میاں نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) نے پہلی دفعہ کرپشن کو باقاعدہ سیاسی ایشو بنا کر سیاست کو بہتر اساس مہیا کرنے کی کوشش کی اور کرپشن کی سرکوبی کے لیے ایک ریاستی ادارہ بھی بنا دیا۔ مگر بات سیاسی اور ذاتی انتقام سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بعد میں جنرل پرویز مشرف نے اس ادارے کو صرف اپنی سیاست یا حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔

عمران خان اینڈ کمپنی نے کرپشن کے خاتمے کو اپنی سیاست کا محور و مرکز اور مشن بنا کر اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ چنانچہ 25 سال گلی گلی قریہ قریہ عوام کو تبلیغ کی گئی کہ عوام تحریک انصاف کو ووٹ دیں تا کہ ان کی حکومت بنے اور کرپشن کا قلع قمع ہو سکے۔ آخر کار تجربات و حوادث کی شکل میں مشتاق نگاہوں کی سنی گئی۔ اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں خان صاحب کوئی ایک چور بھی نہ پکڑ سکے بلکہ۔ جو معاملہ کبھی 20 یا 25 ہزار کی رشوت میں طے ہو جاتا تھا اس دور حکومت میں بات لاکھوں میں پہنچ گئی۔

اگر ملک میں معاملہ چند کرپٹ عناصر کا ہو تو حکومتی یا ریاستی مشینری کارآمد ہو سکتی ہے مگر جہاں آوے کا آوا ہی بگڑ جائے تو وہاں ہر اینٹی کرپشن کی سیاسی و ریاستی کوشش سے صرف کرپشن کے ریٹس ہی بڑھ پائیں گے۔

کرپشن معاشرہ کی ایک غیر اخلاقی اور غیر منطقی قدر یا روایت ہے جس نے ہر حال میں ختم ہونا ہے۔ ماضی میں بچیوں کو زندہ دفن کرنا، بچوں کی قربانی اور ستی وغیرہ جیسی رسم و روایات معاشرہ سے ختم ہو کر اب صرف ماضی کے قصے کہانیوں میں دفن ہیں۔

پاکستان میں حکومتی اور ریاستی سطح پر انسداد بد عنوانی کی چند کوششیں ناکام ضرور ہوئی ہیں اور ہمیں کسی کی نیت پر شک کرنے کا کوئی حق حاصل نہ ہے انہیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ اس ضمن میں عوام کا بھی ایک بڑا کردار بنتا ہے۔ فرض کر لیں کہ ملک کی آدھی آبادی کرپشن کے حق میں ہے یا اسے کرپشن اچھی لگتی ہے یا وہ سمجھ رہی ہے کہ کرپشن کے بغیر دنیا یا زندگی ختم ہو جائے گی باقی کی آدھی آبادی جس کا کرپشن سے کچھ لینا دینا نہیں اس با اصول اور باضمیر آبادی کی تعداد بھی کروڑوں میں بنتی ہے۔ یہ باضمیر آبادی اگر آج طے کر لے کہ ملک کو کرپشن سے پاک کرنا ہے تو یہ عین ممکن ہے۔

چند سال پہلے ماہ رمضان کی بات ہے جب پھلوں وغیرہ کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ چند نوجوانوں نے ہمت کر کے سوشل میڈیا پر پھلوں کی خریداری اور استعمال سے بائیکاٹ کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ چند ہی دنوں میں نہایت مثبت نتیجہ سامنے آ گیا یعنی پھلوں کی قیمتیں ٹھکانے پر آ گئیں۔

کرپشن کے ساتھ عوامی مزاحمت کے شاید ایک سو ایک طریقے گنوائے جا سکتے ہوں۔ سیاسی و سماجی تبدیلی کے طالب علم کے طور پر ہم صرف ایک بات یا عمل کو تجویز کریں گے۔ راتوں رات امیر بننے کی خواہش ترک کے اپنے گردونواح علاقہ و محلہ مکین، احباب، عزیزو اقارب وغیرہ میں موجود کرپٹ عناصر کا مکمل سیاسی، سماجی اور معاشی بائیکاٹ دوسرے الفاظ میں ان کا مکمل حقہ پانی بند کر کے ان کی جگہ پر باضمیر افراد سے سماجی تعلقات استوار کیے جائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ہمارا ادنیٰ دعویٰ ہے اس طرح کی دو یا تین سال کی مشق سے وطن عزیز کرپشن کی لعنت سے مکمل طور پر پاک ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments