سرخ لائن عبور کرنے پر معافی نہیں ملا کرتی


تحریک انصاف بنیادی طور پر بھان متی کا وہ کنبہ تھا جس کو کہیں کی اینٹ اور کہیں کے روڑے اکٹھے کر کے بنایا گیا تھا۔ تبدیلی لانا مقصود تھی لہذا پولٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے دباؤ دے کر ، لالچ دے کر ، ماضی کی مبینہ کرپشن کی فائلیں کھول کر سیاسی ریس کے گھوڑوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ آج کل جس طرح روز تحریک انصاف سے لاتعلقی کے اعلانات سننے کو مل رہے ہیں یہی کچھ 2018 کے عام انتخابات سے قبل دیگر جماعتوں کے ساتھ ہوا۔

کئی دہائیوں سے پارٹی میں موجود لوگوں کے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کر لیا۔ اس وقت کپتان کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی جبکہ کپتان کے کھلاڑی تو سڑکوں پر دھمالیں ڈال رہے تھے ہر گرنے والی وکٹ پر ایسا شور اٹھتا کہ کان پڑی آواز سنائی نا دیتی تھی۔ کاش کپتان اس وقت سوچ لیتے کہ دینے والے نے جس دن واپس لے لیا تو کیا ہو گا

سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی نے جب وزارت عظمی سے استعفیٰ دیا تو ان سے پوچھا گیا کہ استعفیٰ کیا دیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جو لے کر آتے ہیں وہ گھر بھی بھیج دیتے ہیں۔ کپتان اس بات کو شاید بھول گئے انہوں نے سمجھ لیا کہ لانے والے لے تو آئے ہیں اب واپسی اپنی مرضی سے ہوگی اور یوں کپتان نے خود کو ناقابل تسخیر سمجھ لیا۔ یہی وہ غلطی ہوتی ہے جو عام طور پر سیاست دان کرتے ہیں۔ اور یہی غلطی کپتان نے بھی کرلی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ جس رفتار سے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اسی رفتار سے ان کی واپسی ہو رہی ہے شاید واپسی کی رفتار کچھ زیادہ ہی تیز لگ رہی ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما جمشید چیمہ اور ان کی زوجہ مسرت جمشید چیمہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جہاں 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ شرپسندوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے وہیں پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ کپتان نے اپنے دور اقتدار میں اور اس کے بعد جو سیاسی بیانیہ ترتیب دیا اس کے نتیجے میں 9 مئی کا سانحہ ہوا۔ بالکل درست نشاندہی کی ہے انہوں نے اور کوئی شک نہیں کہ کپتان نے وزارت عظمیٰ کے چھن جانے کے بعد جو بیانیہ ترتیب دیا اور جس شدت کے ساتھ اس کا پرچار کیا یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے کھلاڑیوں نے سیاسی جدوجہد کی بجائے ریاست ہی فتح کرنے کی ٹھان لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی سلامتی کے اداروں پر دشمنوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔

کہتے ہیں کہ نیم حکیم خطرہ جاں اور نیم ملاں خطرہ ایماں ہوتا ہے ایسے ہی نیم انقلابی خطرہ ریاست ہوتا ہے۔ ایسے ہی نیم انقلابی نے محض اپنی گرفتاری کو ختم کرانے کے لیے ریاست کو خطرے میں ڈال دیا۔ ناتجربہ کار اور ناپختہ ذہنوں کو نفرت سے بھر دیا بجائے اس کے کہ اپنے ورکرز کی سیاسی تربیت کی جاتی ان کو ایک ایسی احمقانہ جدوجہد کے لیے تیار کیا جس میں یا تو ریاست کا نقصان ہوتا یا پھر ان ورکرز کا اور لیڈر کو سیاست کرنے کے لیے چند لاشیں میسر ہو جاتیں۔ نالائقی کی بھی حد ہوتی ہے اگر 9 مئی کو کوئی ایسی چیز ہوجاتی جس سے دشمن کو کوئی موقع مل جاتا تو پھر کیا ہوتا۔ کیا کپتان نے سوچا ہے کہ ریڈ لائن ان کی ذات نہیں بلکہ اس ریاست اور اس ملک کی بقا ہماری ریڈ لائن ہے اور اس کو کبھی کراس نہیں کرنا ہے۔

فی الوقت کا سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ تحریک انصاف جس طرح تعمیر ہوئی تھی اسی طرح سے مسمار ہو رہی ہے۔ آئے روز اس جماعت کے اراکین پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ کپتان کی ضد، انا اور غیر سیاسی رویے نے ان کی پارٹی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اور یہ سلسلہ ابھی کچھ دیر اور بھی چلے گا اس طرح پارٹی کا مستقبل نوشتہ دیوار ہے سوال یہ ہے کہ کپتان کا کیا ہو گا۔ کیا کپتان کو فیس سیونگ مل جائے گی کیا کپتان کو کوئی محفوظ راستہ مل جائے گا۔ کپتان مزید کتنی دیر مزاحمت کرے گا اور کیسے کرے گا کیا اس کے ورکر اب اس کی کال پر باہر نکلیں گے۔ کیا تحریک انصاف پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگے گی یا اس کو سیاست کرنے دی جائے گی۔

یقینی بات ہے کہ کہیں نا کہیں ان سوالوں کے جواب بھی تلاش کیے جا رہے ہوں گے یا پھر جواب تلاش کر لیے گئے ہوں گے اور اب ایک طریقہ کار کے تحت ان جوابات کے طرف سفر طے کیا جا رہا ہے۔ جو بھی ہے یہ کسی صورت بھی تحریک انصاف کے فائدے میں نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کپتان کا سیاسی رویہ اب کیسا ہو گا۔ کیا کپتان ماضی کی طرح کا سیاسی رویہ اپنائے گا یا پھر اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک معتدل انداز میں سیاسی دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کرے گا۔

اگر کپتان مستقبل کی سیاست کو بہتر انداز سے کرنے کا ارادہ کر لے اور اب تک کی کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھ لے اور پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے اپنا سیاسی سفر شروع کرے تو مستقبل میں کہیں نا کہیں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے مگر یہ بہتری مستقبل قریب میں ہرگز ممکن نہیں ہے اس کے لیے کافی وقت کے لیے انتظار کرنا پڑے گا

ویسے بھی جلدی کس بات کی ہے ابھی تو ابتدائے عشق ہے ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی ہے اگر سیاست کرنی ہے تو بہت کچھ سہنا اور برداشت کرنا پڑے گا پھر اپنی اصلاح کرنی پڑے گی اپنے ورکروں کی سیاسی تربیت کرنی پڑے گی اپنے آپ کو قابل قبول بنانا ہے تو اپنے ماضی سے لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑے گا جو غلطیاں کی ہیں ان کی معافی پوری قوم اور ریاستی اداروں سے مانگنی پڑے گی تب کہیں شاید کوئی بہتری کی صورت نکل آئے وگرنہ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کپتان کی جماعت نے شعوری طور پر وہ سرخ لائن عبور کرنے کی غلطی کر لی ہے جس کے بعد عام طور پر معافی نہیں ملا کرتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments