غیر سیاسی مکالمے


غلاف ذکری

”بھائی غلاف ذکری التاخیری دینا“

”یہ انگریزی فارمیسی ہے“ سیلز میں نے دکان کی بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”ہم حکیمی دوائیں نہیں بیچتے“

”ارے بھائی کنڈوم مانگ رہا ہوں delayed condom“ میں نے جل کر کہا
”تو یوں کہیں نہ“ وہ ہنسا ”ویسے یہ آئٹم شارٹ ہے آج کل“
”کیوں بھائی اب اس کا ٹوڑا کیوں مچ گیا؟“
”یہ لگژری آئٹم ہے آج کل امپورٹ پر پابندی ہے“
”عجیب منطق ہے ایک طرف بچے پیدا نہ کرنے کا مطالبہ اور دوسری طرف ایسے انسینٹیو کا خاتمہ“

”ہاہاہا! بس کچھ ایسا ہی ہے مگر آپ کے مسئلے کا حل ہے میرے پاس، یہ لو“ اس نے کاؤنٹر کے نیچے سے گولیوں کا ایک پیکٹ نکالا

”یہ کیا ہے؟“ میں نے ڈبے پر تحریر پڑھنی شروع کی
”اسے آدھے گھنٹے پہلے لینا پھر پرفارمنس چیک کرنا اپنے غلاف تاخیری شاخیری کو بھول جائیں گے“
”نہیں نہیں یہ نہیں چاہیے“ میں نے پیکٹ واپس کر دیا
”ارے صاحب کوئی سائڈ ایفیکٹ نہیں سو فیصد گارنٹی دیتا ہوں“

”یہ بات نہیں میں نے وضاحت دی“ یہ خون کی شریانیں کھولنے والی دوا ہے ”اگر میں اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کروں گا تو پھر خون کی شریانیں کھولنے والا کام کون سی دوا کرے گی؟“

”یہ آپ کا مسئلہ تو نہیں“
”جو چیز جس مقصد کے لیے بنی ہے وہ اگر کوئی دوسرا کام کرے گی تو اس کا کام کون کرے گا؟“
”اس سوچ کے ساتھ آپ اس ملک میں نہیں چل سکتے“
”کس سوچ کے ساتھ؟“

”یہی کہ جو چیز جس مقصد کے لیے بنی ہے اسے بس وہی کام کرنا چاہیے۔ ایسی باتیں کریں گے تو ایک دن اپنے غلاف تاخیری کی طرح مارکیٹ سے غائب کر دیے جائیں گے۔“

جرنیلی سڑک

”یہ کون سی جگہ ہے؟“ میں نے پشاور میں گائڈ سے دریافت کیا۔
”سر یہ تاریخی جرنیلی سڑک ہے۔“
”اوہ جرنیلی سڑک“ میں متاثر ہو گیا
”جی سر کبھی یہ یہاں سے بنگال تک جاتی تھی۔“
”اور اب کہاں تک جاتی ہے؟“
”جاتی تو اب بھی بیرون ملک ہے مگر اب اس کا رخ مشرق سے مغرب کی طرف پھر گیا ہے“
تزیویراتی گہرائی

”ہم دنیا کی وہ خوش نصیب قوم ہیں جس کے پاس ایک نہیں دو تزیویراتی گہرائیاں موجود ہیں“ پروفیسر صاحب نے لیکچر شروع کرتے ہوئے کہا، ”ایک مغرب میں اور دوسری مشرق میں، مغرب والی گہرائی ہم نے 1970 کی دہائی میں کھودنا شروع کی اور اگلے بیس برسوں میں دنیا کی سب بڑی تزیویراتی گہرائی تخلیق کردی۔ اس گہرائی کے دفاعی کے ساتھ ساتھ معاشی فائدے بھی تھے، وسطی ایشیا کے ساتھ زمینی رابطہ بحال ہو جانے کی وجہ سے یہ ساری منڈیاں ہمارے ایکسپورٹر کے لیے کھل گئیں۔“

”لیکن سر“ حاضرین میں سے ایک مذفوق سا نوجوان بولا ”ملک میں تو صنعتیں بند پڑیں ہیں ہم وہاں کیا ایکسپورٹ کر رہے ہیں؟“

پروفیسر صاحب نے نوجوان کو خشمگیں نگاہوں سے گھورا اور بات جاری رکھی

”سن دو ہزار کے بعد ہمیں عالمی طاقتوں کے دباؤ پر اس گہرائی کو بھرنا پڑا مگر ہم نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ صرف اوپر اوپر مٹی سے ہی بھرا اور اندر سرنگوں کا جال بچھا ڈالا چنانچہ دو ہزار اکیس میں جب مٹی کھینچی تو گہرائی اسی طرح موجود تھی smart، very smart indeed“

”مشرقی گہرائی بھی ہم نے اسی کی دہائی میں کھودنا شروع کی مگر کچھ سالوں بعد ہی اس پر کام رک گیا۔ مگر بظاہر۔ اندرون خانہ کام جاری رہا اور پھر کرتار پور کاریڈور کے ساتھ اس گہرائی کا افتتاح ہو گیا، مغربی گہرائی کی طرح اس کے بھی دو مقاصد ہیں، یہ دفاعی کے ساتھ ساتھ سفارتی اہداف بھی حاصل کرے گی“

”وہ کیسے۔“ ایک تیز طرار صحافی نے سوال داغا

”آپ جانتے ہیں کہ سکھ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں یہ اب ہر جگہ ہمارے ان آفیشل سفیر بنیں گے، آپ جانتے ہیں ملک کے اندر تو ہم نے ایک شرپسند جماعت کی سرکوبی کردی مگر اورسیز پاکستانیوں میں اس کی اچھی خاصی حمایت موجود ہے یہ بیرون ملک مظاہرے کر کے ملک کو بدنام کر رہے ہیں۔ سکھ اب ان ملکوں میں ان شرپسندوں کا مقابلہ کریں گے بلکہ میری تجویز تو یہ ہے کہ وہ سکھ جن کے بزرگ سنتالیس کے فسادات کے بعد یہاں سے چلے گئے تھے انہیں پاکستان کی شہریت دے دی جائے تاکہ وہ ہمارے شہری کے طور پر ریاست کی حمایت میں مظاہرے کر سکیں“

”مگر ان گہرائیوں کا بنیادی مقصد تو دفاعی تھا۔“ تیز طرار صحافی بولا ”کچھ اس پر بھی روشنی ڈالیں“

”کیوں نہیں صاحب۔ بہت سادہ سی بات ہے جب ہم پر مشرق سے حملہ ہو گا تو ہم مغربی گہرائی میں مورچہ زن ہو کر مقابلہ کریں گے اور جب مغرب سے حملہ ہو گا تو مشرقی گہرائی مورچہ زن ہو کر مقابلہ کریں گے“

”واہ جناب کیا اوریجنل تھاٹ ہے بالکل آؤٹ آف باکس سلوشن۔“ حاضرین میں سے ایک صاحب نے تعریفوں کے پل باندھ دیے

”لیکن سر“ مدقوق نوجوان نے ہاتھ اٹھایا ”اگر مشرق اور مغرب دونوں جان سے حملہ ہو گیا تو پھر ہم کیا کریں گے؟“

”نوجوان نے بڑا اہم سوال کیا ہے“ پروفیسر صاحب مسکرائے ”اس کا جواب جیو پولیٹکس نہیں بلکہ جیوگرافی سے ملے گا“

وہ حاضرین کی جانب فاتحانہ شان سے گھومے اور پراعتماد انداز میں گویا ہوئے

”جیسا کہ سب جانتے ہیں شمال میں پہاڑ ہیں جہاں کوئی گہرائی کھودی نہیں جا سکتی البتہ جنوب میں خوش قسمتی سے قدرتی گہرائی موجود ہے حملے کی صورت میں ہم وہاں جا سکتے ہیں۔“

سلام

”ہیلو“
”السلام و علیکم“
”وعلیکم السلام“
”السلام و علیکم“
”بھائی کہا نا وعلیکم السلام“
”سر یہ دوسرا سلام آپ کے لیے نہیں ہے“
”تو پھر کس کے لیے ہے؟“
”ان کے لیے۔“
”کن کے لیے؟“
”دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے لیے“

شاعر اور سیاستدان

”یہ سوشل میڈیا بھی عجیب تماشا ہے۔ اب یہی دیکھ لو اتنے بڑے شاعر کی اولادیں کس طرح امداد کی اپیل کر رہے ہیں“

”ارے یہ وہی عوامی شاعر ہیں نہ جنہوں نے بستر مرگ پر بھی حکومتی امداد کا چیک قبول نہیں کیا تھا پھر اب ان کے بچے کیوں؟“

”شاید شاعر اور سیاستدان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ شاعر جن خیالات اور آدرشوں کا پرچار کرتے ہیں انہیں بیچ کر پیسے کمانے کا ہنر اپنے بچوں کو نہیں سکھا پاتے اور سیاستدان یہ کر گزرتے ہیں۔“

”اسی لیے عوامی شاعر کے بچے امداد مانگتے ہیں اور عوامی لیڈر کا نواسہ اس کے قاتلوں کی سفارتکاری کرتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).