نو مئی کو جو کچھ نہیں ہوا


ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک رخ وہ جو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں اور دوسرا رخ جو عموماً اگر، مگر، فرض کرو، وغیرہ کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔ یہ وہ رخ ہوتا ہے جو عام طور پر بے حد تاریک اور امکانات سے بھرپور ہو سکتا ہے مگر ہم اس کو بھول کر حال میں موجود واقعات کے مضمرات پر ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ انسان مزاجاً حال میں ہی جیتا اور مرتا ہے

اگرچہ احباب نو مئی کو جو کچھ ہوا اس کو پاکستان کا نائن الیون کہہ کر اس کی شدت، حدت، سنگینی اور مضمرات پر نوحہ کناں ہیں مگر میں ایک مختلف زاویہ سے سوچ کر اسی حادثے سے نہ صرف اطمینان محسوس کر رہا ہوں بلکہ خدا کا شکر گزار بھی ہوں کہ ہمیں وہ بہت کچھ زیربحث نہیں لانا پڑا جو 9 مئی کو نہیں ہوا۔ پریشان اس سوچ پر بہرحال ہو جاتا ہوں کہ اگر وہ ہو گیا ہوتا تو کیا آج ہم یہی موضوعات ڈسکس کر رہے ہوتے جو آج زیر بحث ہیں؟ کیا ہم ہو چکے واقعات کی حدت و شدت کو نہ ہونے والے واقعات کے سامنے بھی ایسا ہی محسوس کرتے یا موازنہ کرنے پر خود کو آسودہ محسوس کرتے؟ کیا لاہور سپرنگ، پنجاب سپرنگ یا پاکستان سپرنگ جیسی اصطلاحات کا استعمال میں نہ آنا خوش کن خیال نہیں ہے؟

وہ جو کچھ نہیں ہوا اس کے طور پر ایک امکان پہ بات کرتے ہیں کہ جو کچھ فوجی تنصیبات اور کورکمانڈر اور جی ایچ کیو پر حملوں کی صورت میں ہوا اس کا فوجی ردعمل (جو کہ عموماً بندوق سے ہی ہوتا ہے ) آیا ہوتا اور اس کے نتیجے میں خدانخواستہ چند لاشیں گر جاتیں اور ساتھ ہی یہ عمل اور ردعمل ایک شہر تک محدود نہ ہونے کی بنا پر ملک بھر میں ہو رہا ہوتا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج کا دن کیسا ہوتا؟ آج کے دن ہم کیا بحث کر رہے ہوتے یا کرنے کے قابل بھی ہوتے؟

اگر یہ تصور آسان نہیں تو صرف لال مسجد کا آپریشن دیکھیں اور اس کے عشروں پر محیط ردعمل اور اس کے وطن عزیز پر اثرات دیکھیں تو بے ساختہ یہی منہ سے نکلتا ہے کہ

لمحوں نے خطا کی تھی
صدیوں نے سزا پائی

اگر آپ نے لاہور کینال روڈ پر نہر میں پڑی ہوئی سوختہ پولیس وین کو دیکھا ہو اور پولیس والوں کے ساتھ ہوئے سلوک کو دیکھ کر اگر بہت افسردہ ہوئے ہوں تو اس کا ذرا 9 مئی والے واقعات سے موازنہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا اس کے مقابلے میں جو نو مئی کو ہوا۔

خدا کا شکر ہے کہ اس روز صرف ایکشن ہوا اور کوئی ری ایکشن نہیں ہوا کیونکہ جب ایکشن قانونی حدود سے بالا ہو تو فوری ری ایکشن کو قانونی حدود کے اندر رکھنا ممکن نہیں رہتا اور ردعمل خود بخود پیدا شدہ حالات کے ہی تابع ہو جاتا ہے۔ اب جب کہ قدرت نے ریاست پاکستان کو کڑی آزمائش کے لمحات میں بھی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے محفوظ رکھا ہے تو اب بھی ریاست کو یہ دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ اب اس کا ردعمل ریشنل ہو اور کسی صورت قانونی حدود سے تجاوز نہ کرے کیوں کہ ردعمل بھی اگر قانون سے متجاوز ہو تو مزید ردعمل پیدا کرتا ہے جس کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ قانون کا بلا امتیاز اطلاق ہی ایسی جائے امن مہیا کر سکتا ہے جہاں ردعمل کی نفسیات کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا اور مثبت معاشرت پھلتی پھولتی ہے۔

بلاشبہ پاکستان اور خصوصاً پنجاب کی تاریخ میں یہ شاید یہ پہلا اس نوعیت کا سنگین واقعہ ہے۔ جہاں اس واقعات کے محرکات کو سمجھنے اور ان سے بچنے کے لئے واضح حکمت عملی اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے وہیں ریاست کو پنجاب سپرنگ، لاہور سپرنگ یا اس جیسی دیگر اصطلاحات جیسے حالات سے محفوظ رہنے پر یوم تشکر بھی ادا کرنا چاہیے۔ جہاں ان واقعات کے سدباب کے لئے نفسیاتی اور سماجی سطح پر شدید ہیمرنگ کرنے کے ساتھ ساتھ قانون کے اطلاق کو اس انتہائی ضروری حد تک ہی استعمال کرنا چاہیے جہاں اس سے ریاستی انتقام کا تاثر نہ ابھرے۔ گمراہ کیے گئے بچوں پر قانون کا اطلاق کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ریاست کو ماں کے مثل کہا گیا ہے جو شفقت کے ساتھ اپنے بچوں کی اصلاح کے امکان کو کسی بھی صورت میں رد نہیں کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments