نئی پارلیمنٹ کیسی ہوگی؟


اگر اکتوبر 2023 میں ملک میں عام انتخابات ہوئے تو اس سے ایک نئی پارلیمان وجود میں آئے گی جو پانچ سال کے عرصے کے لیے ہوگی۔ یہ پارلیمان کیسی ہوگی؟ ’کیسی‘ سے آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ وہ روبوٹس پر مشتمل ہوگی۔ مشتمل تو وہ پارلیمان بظاہر میرے آپ کے جیسے سانس لیتے انسانوں پر ہی ہوگی۔ ’کیسی‘ کا سوال میں نے کیوں اٹھایا یہ بات آپ پر جلد واضح ہو جائے گی۔

لیکن ٹھہریے۔ پارلیمنٹ کی ہیئت ترکیبی کا بڑا گہرا تعلق ہماری سیاسی جماعتوں کی ساخت سے ہے۔ تو آئیے پہلے ذرا سیاسی جماعتوں کی ممکنہ ساخت پر بات کر لیتے ہیں۔ ملک میں اس وقت تین بڑی اور درجنوں چھوٹی سیاسی جماعتیں ہیں۔ لیکن فی الحال یہ نظر آ رہا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت یعنی مسلم لیگ قاف بڑی ہو رہی ہے۔ بڑی جماعتوں میں سے ایک یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور بڑی ہو رہی ہے اور ایک بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف بہت چھوٹی ہو جائے گی۔

جنوبی پنجاب کی سیاست میں ایک اور پارٹی کا اضافہ ہو رہا ہے جس کی قیادت جہانگیر خان ترین کریں گے۔ کراچی کا منظر نامہ ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔ غالباً ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اس کے بڑے حصہ دار ہوں گے۔ اس تقسیم کے اثرات صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہروں پر بھی پڑیں گے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کا رول بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ تادم تحریر دوسری مذہبی جماعتوں بالخصوص تحریک لبیک پاکستان کا اگلے الیکشن میں کیا کردار ہو گا مجھ پر واضح نہیں۔

اگلے انتخابات میں یہ سیاسی جماعتیں تین ممکنہ طریقے سے حصہ لے سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سب جماعتیں اپنی اپنی پارٹی کے جھنڈے تلے ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر انتخابات میں مقابلہ کریں اور اسمبلی میں پہنچیں۔ دوم، ان میں سے چند جماعتیں آپس میں انتخابی اتحاد قائم کریں اور اس اتحاد میں شامل نہ ہونے والی جماعتوں سے انتخابات میں مقابلہ کریں۔ اور سوم ان میں سے چند جماعتیں بجائے اتحاد بنانے کے آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں۔ موجودہ منظر نامے میں دوسرے اور تیسرے طریقے کا امکان زیادہ نظر آتا ہے۔

بہرحال انتخابی معرکے کا طریقہ جو بھی ہو جو بات کسی حد تک حتمی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی مرکز میں واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے گی اور مرکزی حکومت 2018 کی طرح ایک اتحادی حکومت ہوگی۔ تقریباً یہی صورتحال پنجاب اور کے پی کے کے بارے میں کسی حد تک وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔ بلوچستان میں آخری مرتبہ کب یک جماعتی حکومت بنی تھی کم از کم حافظے کے زور پر میں یہ بتانے سے قاصر ہوں۔ رہ گیا سندھ تو وہاں ابھی تک پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کوئی سنجیدہ سیاسی پارٹی نہیں ہے جو اس کے اقتدار کے لیے کسی ممکنہ حقیقی خطرے کا باعث ہو۔ ویسے ہمارے قومی سیاسی منظر نامے میں ’حقیقی‘ کے سابقے کے ساتھ اب ایم کیو ایم کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی متوقع ہیں گو کہ ان کا حجم ایم کیو ایم کی حقیقی شاخ جتنا بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔

تو صاحبو اگر میرا تجزیہ درست ثابت ہوتا ہے تو سوائے صوبہ سندھ کے ہر جگہ ایک اتحادی حکومت ہوگی۔ ہمارے ہاں سیاسی اتحاد بناتے ہوئے چند تراکیب کا سہارا لیا جاتا ہے جیسے نظریاتی بنیاد یا ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد یا عوام کے مسائل کے حل وغیرہ، لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دراصل یہ اتحاد نہایت گہرے گروہی مفادات کے حصول کے لیے بنائے جاتے ہیں اور اس کے لیے اقتدار کا زینہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر آپ یہاں تک مجھ سے متفق ہیں تو آئیے پارلیمنٹ کے اندر چلتے ہیں۔ اگر چاروں صوبوں اور وفاق میں اقتدار کی بندر بانٹ بحسن و خوبی انجام پا گئی تو ان اسمبلیوں میں ایک حکومتی اتحاد ہو گا اور ایک اپوزیشن کہ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کا اہتمام کرنا ضروری ہے ورنہ جمہوریت کا حسن گہنا جاتا ہے۔ لیکن اپوزیشن اپنا کردار دھواں دار تقریروں اور علامتی بائیکاٹ تک محدود رکھے گی کیونکہ ہر پارٹی اقتدار کے اس خربوزے کی ایک آدھ قاش میں اپنا حصہ رکھتی ہوگی۔

اتحاد سازی کے بعد ان اتحادوں کو برقرار رکھنا ایک جوئے شیر لانے کے برابر ہو گا۔ ہمارے فرہادوں کو جنہیں ہم وزیراعظم اور وزیراعلی کے ناموں سے پکارتے ہیں اس کام کے لئے بہت پاپڑ بیلنا پڑیں گے۔ ان پاپڑوں کے بیلنے کے لئے جو بھی اجزائے ترکیبی درکار ہوں گے وہ قومی خزانے سے مہیا کیے جائیں گے۔ فرہادوں کے وقت اور توانائیوں کا ایک کثیر حصہ بھی اس کام پر صرف ہو گا۔ پچھلے پندرہ سال کے تجربے کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات کسی حد تک وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وزیراعظم صاحب اپنے پانچ سال مکمل نہ کرسکیں گے۔ البتہ پارلیمنٹ اپنی مقررہ میعاد تک باقی رہے گی۔ رہا یہ سوال کہ حکومتی پارٹی پورے پانچ سال تک برسراقتدار رہے گی یا نہیں تو جواب نہ میں ہے کہ یہ حکومت ہی اتحادیوں کی ہوگی اور اتحادی ہیں اسے ختم کریں گے۔

چلیے یہاں رکتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ یہ پارلیمنٹ کیسی ہونی چاہیے۔ صاحبو اس کا جواب تو بہت واضح ہے کہ اس میں ایک پارٹی کی واضح اکثریت ہو تاکہ وہ اتحادیوں کے نخرے اٹھائے بغیر حکومت کر سکے۔ اپوزیشن کا کردار حکومت کو راہ راست پر رکھنا ہو نہ کہ اسے حکومت سے باہر نکالنے کے لئے سعی مسلسل کرنے والے کسی گروہ کا۔ اگر ایسا ہو گیا تو شاید ہم اگلے پانچ سالوں میں اس خطے میں بسنے والے کچھ افراد کا بھلا کر سکیں۔

سب کا بھلا تو ابھی امکانات کے دائرے سے باہر ہے۔ آپ بھی میری سادگی پہ ہنستے ہوں گے۔ آپ کا ہنسنا بنتا ہے۔ خواہشیں اگر گھوڑے ہوتیں تو مجھ جیسے بھکاری اس پر سواری کرتے۔ پہلے ہی میرے ایک دوست سمجھتے ہیں کہ میں اپنی تحریروں میں فلسفہ بگھارتا ہوں۔ کیا کروں ایک عمر رجائیت کی کیفیت میں گزاری ہے۔ حالات سے مایوس ہوتا ہوں لیکن رجائیت ایک عادت کی طرح عود کر آتی ہے۔ چلئے چھوڑیے اس کو بھی۔

جان کی امان پاؤں تو ایک آخری بات بھی کہہ دوں۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک کے تاحال سب سے مقبول سیاسی رہنما عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کا اس پارلیمان میں کیا کردار ہو گا۔ بدقسمتی سے ہمارے یہ مقبول عام رہنما، جو ہماری نوجوان نسل کے دلوں میں ہمیشہ ایک ہیرو کی طرح رہے ہیں، پارلیمان کی طاقت میں یقین نہیں رکھتے۔ وہ صدارتی نظام یا یک جماعتی جمہوریت کو اس ملک کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ اگر ہم چند لمحوں کے لئے یہ تسلیم بھی کر لیں کہ عمران خان صاحب ایک صدارتی یا یک جماعتی نظام حکومت میں اپنی صلاحیتوں اور مقبولیت کے بل بوتے پر ملک کے تمام مسائل حل کر لیں گے تب بھی کیا یہ سوال بہت اہم نہیں ہو گا کہ ان کے بعد ہم ان جیسا ہیرو کہاں سے لائیں گے؟

اس سے پہلے کہ آپ میرے تجزیے سے اختلاف کریں اس کی بنیاد تو سنتے جائیے۔ آج سیاسی اختلاف کی بنا پر پورا پاکستان بالعموم اور پنجاب کی حد تک تمام لوگ دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ کو پٹواری اور دوسرے کو یوتھیا کہا جاتا ہے۔ ہم انڈین فلم دیکھتے ہوئے تو ہندوستان سے اپنی 75 سالہ دشمنی کو اڑھائی گھنٹوں کے لئے بھول جاتے ہیں لیکن ہمارے پٹواری اور یوتھیا بھائی اپنی آپس کی دشمنی اڑھائی منٹ کے لئے بھی بھولنے کو تیار نہیں۔

اب تو ہم ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں بھی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر شریک ہوتے ہیں۔ دوسرے، ملک کی معیشت کی دگر گوں حالت کی بنا پر مالی وسائل بہت کم رہ گئے ہیں۔ اگر ایک سیاسی پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے گی تو اسے اپنے ووٹرز کا خیال رکھنا پڑے گا۔ لیکن ملکی وسائل کی انتہائی کمی ابھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اسے عوام کی تعلیم یا صحت جیسے فضول کاموں پر خرچ کیا جائے۔

لہذا دوستو خاطر جمع رکھیے۔ اس مفلوک الحال اور منقسم قوم کی قسمت میں ایک منقسم پارلیمان ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments