واقعہ 9 مئی اور پارٹی گئی!


پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نا ایسا سنا نا دیکھا گیا کہ ایک شخص کو توڑنے کے چکر میں پارٹی تو پارٹی کیا ملک ہی توڑ دیا۔ ارے بھئی ایسا بھی کیا ڈر ایک شخص سے کہ اس کے پیچھے ملک کا آئین و قانون، اس کی بقا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

مارچ 2022 سے شروع ہونے والا آئینی بحران روز بروز زور پکڑتا گیا۔ ایک شخص کی سیاست ختم کرتے کرتے ملک کو ہی ختم کر دیا۔ اس وقت پاکستان میں سب سے اہم صرف اور صرف ایک سیاسی جماعت کا خاتمہ یا پھر اس کے سربراہ کی سیاسی موت ہے۔ اگر اس سے بھی دل نہیں بھرا تو اسے ذاتی طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھی کوششیں جاری ہیں۔

پہلے تحریک عدم اعتماد سے اسے اقتدار سے ہٹایا اور لوگوں کے دلوں میں راج کروایا۔ اس کے بعد جب انہوں نے جبری برطرفی پر احتجاج کیے تو اس میں بھی کارکنان اور شرکا پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی۔ اور پھر کرتے کرتے یہ تشدد اور بہیمانہ سلوک اتنا عام ہو گیا کہ ان کے ہر احتجاج کو پرتشدد واقعات میں بدل دیا گیا۔ اسی میں 25 مئی 2022 اور اس کے بعد 9 مئی 2023 جیسے واقعات شامل ہیں، جس میں سینکڑوں افراد بری طرح زخمی ہوئے اور کئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

عوام کو اتنا پر تشدد، نفرت انگیز بنا دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی ملک میں آگ لگانے لگ گئے۔ جن کی قربانیوں سے یہ ملک حاصل کیا انہیں کی یادگاروں کو جلا دیا، ملکی اثاثوں کو نقصان پہنچایا، اپنے ہاتھوں سے اپنی تاریخ کو تاریک کر دیا، اس میں جو معلوم افراد شامل ہیں ہی نامعلوم افراد کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، اس واقع کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان سب افراد کو جو اس جرم کے مرتکب ہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ اس جرم میں پکڑے ملزمان کو آپ اپنی ایک پریس کانفرنس اور پرچی کے عوض چھوڑ دیں اور تمام الزامات سے بری کر دیں لیکن وہی شخص اگر اس پریشر کانفرنس سے انکار کردے تو اس کے لیے گھیرا مزید تنگ کر دیا جائے اور اس پر ظلم اور زیادتیوں کے پہاڑ توڑے دیے جائیں۔ اور اسی طرح ایک ایک کر کے آپ سب جبری طور پر پارٹی سے علیحدگی اختیار نہیں کروا سکتے، انصاف کا یہ دوہرا معیار کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔

ارے بھئی پارٹی سے سیاسی اختلاف تھا تو سیاست سے اسے جواب دیتے، جو آئینی اور قانونی طریقہ کار ہے اس سے لڑتے، یہ کیا وہی تاریخ پر تاریخ دہرائی گئی، جو غلطیاں پہلے کی گئیں وہی اب بھی دہرائیں، لوگوں کو گھروں سے اٹھایا گیا، پھر چاہیے ان کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو، مرد ہو یا خواتین ہوں، کسی میں کوئی تفریق نہیں کی بس جو جو اس پارٹی کا حامی تھا ایک ایک کر کے نامعلوم افراد میں شامل ہوتا چلا گیا۔ کتنے ہی اس تحریک میں اپنی جان تک گنوا بیٹھے، کتنے ہی گھر اجڑ گئے۔

لیکن ہم ایک باشعور قوم ہونے کی بجائے لاشعور قوم بنتے گئے، اور کسی غلط فہمی میں رہے کہ شاید اس قوم میں شعور آ گیا ہے۔ اگرچہ قوم میں شعور آتا گیا تو ادارے لاشعور ہو گئے، ہمارے محافظ ہمارے دشمن بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے، پولیس، عدلیہ سب کے سب بے بس اور لاچار نظر آئے ایک مضبوط ارادے نے سب کو اپنے نیچے چیونٹی کی طرح روند کر رکھ دیا۔ ایک مچھلی نے پورا تالاب گندا کر دیا۔ لیکن نہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہمیں کوئی حق نہیں زبان کھولنے کا ورنہ ہمیشہ کے لئے خاموش کروا دیے جائیں گے۔

جب یہ ملک آزاد کروایا تھا کیا تب جو آئین پاکستان کے نام پر ایک کتاب لکھی تھی اس پر موجود 273 آرٹیکلز کا کیا کچھ لینا دینا تھا ہم سے یہ ہماری ریاست سے؟ اگر تھا تو اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ ہم تو یہاں آئین اور قانون کو بھی اپنے مطلب کے لیے توڑ موڑ کے استعمال کرتے ہیں۔ اداروں نے پاکستان کو ایک اکیڈمی بنا دیا ہے بس، جہاں ہر کچھ عرصے بعد شارٹ کورسز کے نام پر ایک کے بعد ایک سیاسی جماعت کو ہم پر مسلط کر کے آزمایا جاتا ہے۔ اور جب کوئی نہیں چلتا تو ایک نئی جماعت بنا لی جاتی ہے اور جماعت بھی صرف برائے نام نئی ہوتی ہے اس میں وہی کرپٹ اور دوسری جماعتوں سے نکلے ہوئے اعلیٰ پائے کے سوکالڈ سیاستدان ہوتے ہیں۔

اور ہماری قوم اپنے اپنے رول ماڈل کے پیچھے سب کچھ بھول بھال کر ان سب کو پھر آزمانے کو تیار ہوجاتی ہے۔ ارے بھئی نہیں سنبھلتا اور چلتا یہ ملک تو جن سے لیا تھا انہیں واپس کردو، نہیں تو جس کا جو کام ہے خدارا انہیں وہ کرنے دو، ہر کام میں اپنی ٹانگ اڑانا ضروری نہیں۔ جس کا کام اسی کو ساجھے

آخر اور کب تک کھیلیں گے اپنے ملک کے ساتھ؟ کس کس کو آزمائیں گے؟ پہلے مہنگائی کا غم کھایا جاتا تھا غریب سے اس کے جینے کا حق چھین لیا، جس نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اس سے خاموش کروا کے اس سے بولنے کا حق چھین لیا، جس نے اپنا آئینی حق استعمال کرنے کی کوشش کی تو اس سے بھی آپ نے جبری علیحدگیاں کروا کر ان سے بھی ان کا وہ حق چھین لیا۔ پیچھے کیا رہ گیا؟ اس ملک میں تو ہر طرف جنگل کا قانون رائج ہے باقی سب بس کٹ پتلیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

بند کریں یہ سب جبری ذہنی اور جسمانی تشدد، آزاد ملک کو آزاد ہی رہنے دیں، اپنی ذاتی اور اقتدار کی جنگ میں اسے سولی نا چڑھائیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے، ہمیں مل کر اس کا فیصلہ کرنے دیں، ہمارے لیے کیا صحیح کیا غلط اس کا فیصلہ ہم پر چھوڑ دیں، آپ کا جو کام ہیں آپ وہ دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments