جوتے کی کمپنی اور آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر


حال ہی میں ایک فلم نمائش کے لئے پیش کی گئی جو دنیا کی ایک مشہور جوتے بنانے والی کمپنی نائیکی Nike کے گرد گھومتی ہے اور سچے واقعات پر مبنی ہے۔ 1984 میں اس کمپنی کے باسکٹ بال کے جوتے بنانے والا ڈپارٹمنٹ تقریباً دیوالیہ ہو چکا تھا کیوں کہ لوگ ایڈیڈاس adidas کے جوتے پہنتے تھے اور نائیکی کو کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ نائیکی کے اس باسکٹ بال ڈپارٹمنٹ میں ایک سونی وکارو Sonny Vaccaro نام کا ملازم تھا جو مارکیٹنگ میں کام کرتا تھا اور جس کا کام ایک ایسے کھلاڑی کی تلاش تھی جو نائیکی کے جوتوں کو پھر سے مشہور کر دے۔ یہ دن بھر باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کی فوٹیج دیکھتا اور ہر کھلاڑی کو ریجیکٹ کر دیتا۔

ایک میٹنگ میں جہاں کمپنی کا مالک اور باسکٹ بال ڈپارٹمنٹ کا نائب صدر موجود تھا، کسی نے رائے پیش کی کہ کیوں نہ چارلس بارکلے یا حکیم اولا جوان جیسے دوسرے مشہور کھلاڑیوں کو نائیکی برانڈ کے لئے چنا جائے۔ سونی وکارو نے کہا کہ یہ کھلاڑی پہلے ہی ایڈیڈاس کو جوائن کر چکے ہیں۔ کچھ اور نام بھی لئے گئے لیکن سونی وکارو نے سب پر اعتراض اٹھا دیے۔ سونی وکارو نے پھر اپنا ایک نام پیش کیا جس پر سب ہنسنے لگے اور وہ نام تھا ’مائیکل جارڈن کا۔

نائیکی کمپنی کے مالک کی ہنسنے کی وجہ یہ تھی کہ مائیکل جارڈن ایک تو نیا نیا آیا تھا اور دوسرے وہ مہنگا بہت تھا۔ تیسرے مائیکل جارڈن نائیکی جیسے غیر معروف اور ہلکی کوالٹی کے جوتوں سے منسلک نہیں ہونا چاہتا تھا۔ سونی وکارو نے کمپنی کے مالک سے پوچھا، ہمارا بجٹ کیا ہے؟ جواب ملا، ڈھائی لاکھ ڈالر تین کھلاڑیوں کے لئے۔ سونی وکارو نے کہا کہ تین کی بجائے ہم سارے پیسے مائیکل جارڈن کو دے دیتے ہیں۔ ایڈیڈاس بھی مائیکل جارڈن کو سال کے ڈھائی لاکھ ڈالر ہی دے رہے ہیں۔ کمپنی کے مالک نے انکار کر دیا کہ میں سارے پیسے صرف مائیکل جارڈن پر لگا کر جوا نہیں کھیل سکتا۔ سونی وکارو نے نائیکی کے مالک کو بہت سمجھایا کہ میں نے مائیکل جارڈن کو کھیلتے ہوئے دیکھا ہے، اسے یقین ہے کہ مائیکل ایک عظیم کھلاڑی ثابت ہو گا۔

نائیکی باسکٹ بال مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کے نائب صدر نے بھی سونی وکارو کو سمجھایا کہ یہ خودکشی ہے۔ ہم سارے پیسے ایک کھلاڑی پر نہیں لگا سکتے۔ اگر اس سال باسکٹ بال کے جوتے نہیں بکے تو یہ پورا ڈپارٹمنٹ ہی بند ہو جائے گا اور تمام لوگوں کی نوکریاں چلی جائیں گی۔ میں بذات خود طلاق سے گزر رہا ہوں اور میری ایک چھوٹی بیٹی ہے جس سے ملنے میں ہر اتوار کو جاتا ہوں۔ وہ ہر اتوار کو میرا انتظار کرتی ہے کیونکہ میں اس کے لئے ایک نیا جوتا لے کر جاتا ہوں۔

اگر یہ ڈپارٹمنٹ بند ہو گیا تو میں اپنی بیٹی کے لئے ہر ہفتے نیا جوتا کیسے خریدوں گا۔ سونی وکارو کی آنکھیں بھیگ گئی لیکن اس نے نائب صدر کو یقین دلایا کہ رسک تو ہے لیکن مائیکل جارڈن ہی وہ کھلاڑی ہے جو ہمیں بچا سکتا ہے۔ کمپنی کے نائب صدر اور مالک نے حامی بھر لی لیکن اب بجٹ ملنے کے بعد سونی وکارو کا اگلا مشکل مرحلہ مائیکل جارڈن کو ایڈیڈاس سے نائیکی کی طرف منتقل کرنا تھا۔ مائیکل جارڈن نے ابھی کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے لیکن اس کا رجحان ایڈیڈاس ہی کی طرف تھا۔

سونی وکارو نے جارڈن کے ایجنٹ سے رابطہ کیا جس نے سونی وکارو کو بری طرح جھڑک دیا کہ میرا کلائنٹ کبھی بھی نائیکی جیسے ناقص معیار والی جوتے کی کمپنی سے معاہدہ نہیں کرے گا لیکن سونی وکارو کو یقین تھا کہ مائیکل جارڈن دنیا کا سب سے بہترین کھلاڑی بنے گا اور وہ ہی نائیکی کمپنی کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔ ایجنٹ سے صاف جواب ملنے کے بعد سونی وکارو نے ہمت نہیں ہاری اور اس نے مائیکل جارڈن کے کالج کے زمانے کے کوچ سے رابطہ کیا کہ کسی طرح وہ مائیکل جارڈن سے کہے کہ صرف ایک دفعہ ہم سے میٹنگ کر لے۔ کوچ نے سونی وکارو کو بتایا کہ وہ کوشش کرے گا لیکن کیوں نہیں تم جارڈن کی ماں سے ملتے۔ جارڈن اپنے والدین کی بات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

اگلے دن سب سونی وکارو کو آفس میں ڈھونڈ رہے تھے لیکن سونی وکارو جہاز کا ٹکٹ لے کر نارتھ کیرولائنا روانہ ہو چکا تھا جہاں مائیکل جارڈن کی رہائش تھی اور جہاں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ وہاں کیا بات چیت ہوئی، اس کے لیے آپ کو پوری فلم دیکھنی پڑے گی۔ فلم اس کے بعد مزید اتار چڑھاؤ کے مراحل طے کرتی ہے۔ آخر میں جارڈن کی ماں اس شرط پر معاہدہ کرتی ہے کہ جارڈن برانڈ کے جتنے جوتے فروخت ہوں گے، اس کا کچھ حصہ مائیکل جارڈن کو ملے گا۔

یہ بات سن کر سب حیران رہ گئے۔ آج تک کاروبار کی دنیا میں کسی کھلاڑی کو ایسا پیکیج نہیں ملا تھا۔ سونی وکارو مایوس ہو گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ کمپنی کا مالک کبھی ایسا معاہدہ نہیں کرے گا لیکن جب کمپنی کے مالک نے سونی وکارو سے پوچھا کہ کیا واقعی تم مائیکل جارڈن پر اتنا یقین رکھتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ میری پوری زندگی باسکٹ بال دیکھتے گزری ہے، میں نے آج تک اٹھارہ سال کا ایسا لڑکا نہیں دیکھا۔ مائیکل کا انداز بہت ہی خوبصورت ہے۔

کمپنی کے مالک نے کہا کہ کالج باسکٹ بال اور NBA میں بہت فرق ہے۔ کیا یہ لڑکا NBA میں بھی پرفارم کر پائے گا۔ سونی وکارو نے جواب دیا کہ مجھے اس لڑکے پر پورا بھروسا ہے۔ کمپنی کے مالک نے جواب دیا تو ٹھیک ہے، ہمیں مائیکل جارڈن کی یہ آفر قبول ہے لیکن اگر جوتے نہیں بکے تو ہمیں یہ ڈپارٹمنٹ ایک سال کے اندر ہی بند کرنا پڑے گا۔

بالآخر معاہدہ طے پا گیا۔ مائیکل جارڈن برانڈ لانچ کیا گیا۔ 1984 میں اس برانڈ نے 162 ملین ڈالر کا کاروبار کیا۔ آج نائیکی چار بلین ڈالر سال کے صرف ائر جارڈن برانڈ کے جوتے بیچتا ہے۔ مائیکل جارڈن کو ہر سال اس سے 150 ملین ڈالر سال کی گھر بیٹھے آمدنی ہوتی ہے۔ سونی وکارو کا یقین صحیح ثابت ہوا اور مائیکل جارڈن دنیائے باسکٹ بال کا سب سے عظیم کھلاڑی قرار پایا۔

اس فلم کو پاکستان کے ہر ادارے اور ہر سیاستدان کو دکھانی چاہیے۔ اگر ہمارے ہر ادارے کے سربراہ سونی وکارو جیسے بن جائے تو ہمیں آئی ایم ایف کے ایک بلین ڈالر کے لئے در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں جس کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ جب کمپنی کے مالک نے کہا کہ اگر اس، سال جوتے نہیں بکے تو ہمیں یہ پورا ڈپارٹمنٹ بند کرنا پڑے گا۔ نائیکی آج ہر سال چار بلین ڈالر کے صرف مائیکل جارڈن برانڈ کے جوتے بیچتا ہے۔ یہ سونی وکارو جیسے لوگ ہمارے ملک میں پیدا کیوں نہیں ہوتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments