کیا کائنات کی تسخیر ممکن ہے؟


2004 میں ایک دن اپنے دفتر میں کام کرتے ہوئے مجھے فون آیا۔ دوسرے سرے پر بولنے والے شخص ایڈگر مچل تھے۔ اب یہ نام شاید زیادہ تر لوگوں کو مانوس نہ ہو لیکن فروری 1971 میں ایک ہفتے کے دوران یہ نام دنیا بھر میں سرخیوں میں رہا۔ وہ اپالو 14 کے قمری ماڈیول کے پائلٹ تھے اور چاند کی سطح پر چلنے والے بارہ افراد میں سے ایک۔ اپنی بعد کی زندگی میں، وہ طویل خلائی سفر میں دلچسپی لینے لگے، اور اسی کے بارے میں وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے۔ گہرے یا طویل خلائی سفر سے، ہمارا مطلب نظام شمسی سے باہر، یعنی سب سے دور سیارے، پلوٹو، سے بھی اگے کا سفر ہے۔

مچل کوانٹم آپٹکس پر ایک مشہور کتاب کے مصنف کے طور پر میرے نام سے واقف تھے اور مجھے توانائی کے کوانٹم ذرائع سے متعلق مسائل کا ماہر سمجھتے تھے۔ ان کا سوال یہ تھا کہ کیا کوانٹم میکینکس خلائی سفر میں، جہاں توانائی کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے، مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟

خلائی سفر قدیم زمانے سے ایک خواب ہے، ۔ جب بھی ہم رات کو آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، چاند، ستارے اور سیارے ہماری فوری توجہ حاصل کرتے ہیں، اور ہم سوچتے ہیں کہ کیا ہم کبھی ان کو قریب سے دیکھ پائیں گے۔ ہماری دلچسپی نہ صرف نامعلوم سرحدوں کو فتح کرنے کی خواہش سے پیدا ہوتی ہے بلکہ ہمارے سیاروں کے نظام کے اندر اور باہر کی دنیا کی نوعیت کے بارے میں ہمارے تجسس سے بھی ہوتی ہے۔

دلچسپی کا ایک اہم سبب یہ سوال ہے کہ آیا نظام شمسی سے بہت دور کہیں کوئی اور سیارہ ہے، جہاں زمین کی طرح زندگی موجود ہے؟ کسی دوسرے سیارے پر ذہین زندگی کی دریافت یقینی طور پر ایک انقلابی دریافت ہوگی۔ اس سے اس بڑی کائنات میں ہماری ناقابل تصور تنہائی کو توڑنے میں مدد ملے گی۔

جولائی 1969 میں جب پہلا انسان چاند پر اترا تو اسے انسانی عقل، عزائم اور جذبے کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد چاند پر سفر کے نتیجے میں کل بارہ آدمی چاند کی سطح پر پہنچے۔ انھوں نے چاند کی سطح پر کچھ تجربات کیے، اور مٹی کے نمونے اکٹھے کیے، اور پھر بحفاظت زمین پر واپس آ گئے۔ لیکن کچھ عرصے بعد انسان بردار خلائی سفر کو اس کی بے پناہ لاگت اور خطرات کی وجہ سے ترک کر دیا گیا، ہمارے سیاروں کے نظام کو تلاش کرنے کے لیے بغیر پائلٹ کے خلائی جہاز بھیجے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ قریب ترین سیاروں میں سے ایک، مریخ، پر اترے ہیں۔

لیکن گہرے خلائی سفر یعنی نظام شمسی سے اگے کا سفر ابھی ایک خواب ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ ہم کائنات کو کس حد تک دریافت کر سکتے ہیں؟ کہاں تک جا سکتے ہیں؟ اس پر بنیادی پابندی اس پابندی سے آتی ہے کہ کوئی چیز کتنی تیزی سے حرکت کر سکتی ہے۔ طبیعیات کے قوانین ایک اوپری حد رکھتے ہیں۔ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں چل سکتی جو 186,000 میل فی سیکنڈ کے برابر ہے۔ اچھی طرح سے ڈیزائن کی گئی خلائی مشین روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے بظاہر بہت زیادہ فاصلہ طے کر سکے گی، لیکن کائنات میں بکھرے ستاروں کے درمیانی فاصلوں کے مقابلے میں یہ بہت چھوٹا فاصلہ ہو گا۔ قریب ترین ستاروں تک کائناتی فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ ایک خلائی جہاز کو وہاں تک روشنی کی رفتار سے پہنچنے میں کئی سال لگیں گے۔

کائناتی فاصلے روایتی اکائیوں، میل یا کلومیٹر کے لحاظ سے نہیں بلکہ نوری سالوں کے لحاظ سے بتائے جاتے ہیں۔ ایک نوری سال کا فاصلہ وہ فاصلہ ہے جو ایک سال میں 186,000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتی روشنی طے کرتی ہے۔ میل کے لحاظ سے یہ 186,000 سے ایک سال میں سیکنڈ کی تعداد سے ضرب دے کر معلوم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تقریباً 6 ٹریلین میل بنتا ہے۔ قریب ترین ستارہ، پروکسیما سینٹاری، 4 نوری سال سے زیادہ دور ہے اور ایسا قریب ترین ستارہ جس کے گرد سورج کی طرح اپنے سیاروں کے نظام ہو، یہ ہم سے 10 نوری سال سے زیادہ دور ہے۔ یہ ناقابل یقین حد تک طویل فاصلے ہیں۔

اگر کبھی اتنے طویل فاصلوں کا سفر کرنے کا سوچا، تو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ خلائی سفر کے لیے توانائی کے ذرائع کی ایک بڑی مقدار درکار ہوگی۔ جب تک خلائی جہاز مستقل رفتار کے ساتھ اور ایک ہی سمت میں چلتا ہے، توانائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن سمت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا اسپیس شپ پر کوئی بھی آلات، مثلاً کیمرے، کو چلانے کے لیے بیٹری یا توانائی کے کسی اور ذریعہ کی ضرورت ہوگی۔ توانائی کی ایک شکل جو سورج یا کسی اور ستارے کے قریب دستیاب ہو سکتی ہے، وہ شمسی توانائی ہے۔ لیکن ایک بار جب خلائی جہاز نظام شمسی سے باہر ہو گا، تو یہ ذریعہ دستیاب نہیں ہو گا۔ یہ دور، بہت دور، خلائی سفر کے خواب کی تعبیر اور نظام شمسی سے باہر ذہین زندگی کی تلاش میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

شمسی توانائی کے ذرائع سے بہت دور، خلا ہے، جہاں توانائی کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔ کیا ایسے خلا میں سفر ممکن ہے؟ اگر نہیں، تو کائنات کو تلاش کرنے کا ہمارا خواب ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ اب 2023 میں ہماری یہی سوچ ہے۔ لیکن 2523 میں کیا ہو گا؟ کیا ہماری آنے والی نسلیں دور ستاروں اور سیاروں تک پہنچنے کا کوئی طریقہ ایجاد کریں گی؟ بہر حال، ایک بات تو یاد رکھنی چاہیے کہ 500 سال پہلے یعنی 1523 میں کوئی بھی ہوائی سفر اور چاند پر سفر کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس طور ہم تصور کر سکتے ہیں کہ 500 سال بعد کیا کچھ ممکن ہو گا۔

طبیعیات کے قوانین اس مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ہماری قیاس آرائیاں صرف ان قوانین پر مبنی ہو سکتی ہیں جو ہم آج سمجھتے ہیں۔ تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ صدیوں کے دوران ان قوانین کو زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور جسے آج ناممکن سمجھا جاتا ہے وہ قوانین فطرت کی نئی اور بہتر تفہیم سے ممکن نظر آئے۔

کوانٹم میکینکس کی آمد سے پہلے، ویکیوم کو ایسا خلا سمجھا جاتا تھا جہاں کوئی روشنی موجود نہیں، کچھ بھی حرکت نہیں، اور کوئی توانائی موجود نہیں۔ ویکیوم کی کوانٹم مکینیکل تصویر ڈرامائی طور پر مختلف نکلی۔ عجیب بات یہ ہے کہ خلا میں فطرت کے تمام رنگ، مرئی اور پوشیدہ، اتار چڑھاؤ کی شدت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور خلا میں توانائی کی کل مقدار لامحدود ہوتی ہے۔ یہ انکشاف چونکا دینے والا اور دماغ کو ہلا دینے والا ہے۔ خلا جس کے بارے میں ہم سوچتے تھے کہ روشنی اور مادہ سے بالکل خالی ہے، درحقیقت لامحدود توانائی رکھتی ہے۔

خلا کی اس غیر معمولی نوعیت کا ایک انتہائی حیرت انگیز نتیجہ یہ ہے کہ اگر ہم دو دھاتی پلیٹوں کو خلا میں رکھیں جن پر کوئی بیرونی قوت موجود نہ ہو تو پلیٹوں کے مابین ایک قوت ہو گی جو ان کو ایک دوسرے کے قریب لا سکے گی۔ ویکیوم انرجی کے نتیجے میں پلیٹوں کے درمیان اس پرکشش قوت کو پھر ممکنہ طور پر مفید کام کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پلیٹوں کے درمیان قوت کا پراسرار ذریعہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب انتہائی حیرت انگیز ہے۔

سب سے پہلے یہ کہ کوانٹم میکینکس کے قوانین کے مطابق دو پلیٹوں کے درمیان توانائی کی لامحدود مقدار موجود ہے، یہ پلیٹوں کے باہر موجود لامحدود توانائی سے چھوٹی ہے۔ ایک لامحدود مقدار دوسری لامحدود مقدار سے کیسے چھوٹی ہو سکتی ہے؟ معمہ یہیں نہیں رکتا۔ سب سے قابل ذکر نتیجہ یہ ہے کہ دو لامحدود مقداروں کے درمیان فرق ایک سادہ محدود عدد ہے۔ یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے لیکن یہ سچ ہے۔ ایڈگر مچل کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو میں، میں نے انھیں یہی سمجھایا تھا۔

خلا کے بارے میں یہ نظریات ہماری امیدوں کو بڑھاتے ہیں کیونکہ اس طور تو پوری کائنات میں لامحدود توانائی کا سمندر ہے۔ ہم کائنات میں کسی بھی جگہ، اس توانائی کو خلائی جہاز کو چلانے اور ہر طرح کے آلات کو چلانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ یوں مسئلہ حل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

تاہم، فطرت ہمیں مفت میں چیزیں حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ہر چیز کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ فزکس کے قوانین کے مطابق ایک مستقل (perpetual) مشین بنانا ناممکن ہے۔ خلائی توانائی کے سمندر میں سفر کرنے والے خلائی جہاز کی صورتحال گرم پانی کے سمندر میں سفر کرنے والے بحری جہاز کی طرح ہے۔ سمندر کے پانی میں گرمی کی توانائی بھی تقریباً لامحدود ہوتی ہے۔ لیکن جہاز اکیلے اس توانائی پر نہیں چل سکتا۔ تھرموڈینامکس کے قوانین توانائی کے بیرونی ذرائع کے بغیر سمندر کے پانی سے توانائی نکالنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔

تھرموڈینامکس کے قوانین حیرت انگیز طور پر پائیدار ثابت ہوئے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اضافیت اور کوانٹم میکینکس کے انقلابی نظریات کی آمد سے انیسویں صدی کی طبیعات کے نظریات کی بنیادیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں۔ تاہم، حیرت انگیز طور پر تھرموڈینامکس کے قوانین اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ تھرموڈینامکس کا دوسرا قانون لامحدود توانائی کے اس سمندر سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ ہے جسے ہم ویکیوم کہتے ہیں۔

اس بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے 2003 میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ چند انتہائی مخصوص حالات میں توانائی کے سمندر سے بیرونی ذرائع کے بغیر کسی مشین کو چلانا ممکن ہونا چاہیے۔ اس طرح پہلی دفعہ کوئی ایسی تجویز سامنے آئی کہ دو سو سال پرانے تھرموڈینامکس کے قوانین کو توڑا جا سکے۔ ہمارے اس ریسرچ پیپر کو کافی پذیرائی ملی۔ لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں کہ کیا یہ نظریہ کائنات کی تسخیر میں مددگار ثابت ہو سکے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہماری آنے والی نسلیں تھرموڈینامکس کے قوانین کے گرد کوئی راستہ تلاش کریں گی اور گہرے خلائی سفر کے لیے خلا سے توانائی نکالنے کی اسکیم دریافت کرسکیں گی؟

ڈاکٹر سہیل زبیری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سہیل زبیری

ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس  کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔

suhail-zubairy has 61 posts and counting.See all posts by suhail-zubairy

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments