کیا آپ کسی سیاسی یا نفسیاتی بحران کا شکار ہیں؟


ایک دن آپ کی آنکھ کھلتی ہے تو آپ کو عمارت کی ایک اینٹ ہلتی دکھائی دیتی ہے۔
آپ اسے نظر انداز کرتے ہیں۔
چند دنوں کے بعد دوسری اینٹ بھی ہلتی دکھائی دیتی ہے۔
آپ اسے بھی نظرانداز کرتے ہیں۔

چند ہفتوں کے بعد تیسری اینٹ قدرے زور سے ہلتی دکھائی دیتی ہے لیکن آپ اپنی زندگی کی مصروفیات میں اتنے محو ہوتے ہیں کہ اس اینٹ کے ہلنے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ آپ کا خیال ہے کہ وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔

آپ زندگی کی سرگوشی کو اہمیت نہیں دیتے کیونکہ آپ زندگی کی سرگوشیوں کے رازوں سے ناواقف ہیں۔
چند مہینوں کے بعد چوتھی اینٹ زور زور سے ہلتی ہے اور پھر ہلتی ہی چلی جاتی ہے۔ سرگوشی بڑھتے بڑھتے چیخ بننے لگتی ہے۔

اب آپ کو سمجھ نہیں آتا کہ اس چیخ سے کیسے نبٹا جائے۔ اس ہلتی ہوئی دیوار کو کیسے سنبھالا جائے۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی نگاہوں کے سامنے وہ دیوار دھڑام سے گر جاتی ہے زمیں بوس ہو جاتی ہے اور اس کا سارا ملبہ آپ کے چاروں طرف بکھر جاتا ہے اور آپ بھی بکھر جاتے ہیں ایک بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آپ کے خواب اور آپ کے آدرش بھی زمیں بوس ہو جاتے ہیں اور آپ مایوسی و نا امیدی کے گہرے کھڈے میں گرنے لگتے ہیں۔

آپ کا یہ بحران جذباتی بھی ہو سکتا ہے سماجی بھی
مذہبی بھی ہو سکتا ہے سیاسی بھی
آپ کئی برسوں سے کسی خاص طرز زندگی یا کسی خاص عقیدے کو دل سے لگائے زندہ تھے۔
آپ کئی دہائیوں سے کسی خاص مذہبی یا سیاسی شخصیت پر اندھا ایمان لائے ہوئے تھے۔

آپ اپنے آدرش اور اپنی پسندیدہ شخصیت پر اتنا مضبوط ایمان لائے ہوئے تھے کہ جب آپ کے وہ دوست جو اس شخصیت کو دور سے معروضی انداز سے دیکھ کر کوئی اعتراض کرتے تھے تو آپ اعتراض کرنے والوں کو دل ہی دل میں خود غرض ’کند ذہن‘ کم عقل یا متعصب سمجھتے تھے۔ آپ ان کی رائے کو در خور اعتنا نہ سمجھتے تھے۔ آپ ان سے الجھتے اور لڑتے تھے۔ آپ ان کے اعتراضات کو بالکل کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ آپ ان کے دلائل کو شدت سے رد کرتے تھے۔

دھیرے دھیرے آپ نے اپنے کئی دوستوں کو دور دھکیل دیا۔ اختلاف رائے بڑھتے بڑھتے دشمنی میں ڈھل گیا۔

ایک ہی گھر میں دو بھائیوں۔ دو بہنوں۔ ماں بیٹی اور باپ بیٹے میں دشمنی اتنی بڑھی کہ خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ محبت نے نفرت کی صورت اختیار کر لی۔ گھر میں خاموشی نے ڈیرے ڈال لیے۔

رفاقتیں رقابتوں میں ڈھل گئیں۔ لوگ اپنے عزیزوں ’اپنے پیاروں اور اپنے رشتہ داروں سے کسی محفل میں ملتے تو منہ پھیر کر آگے بڑھ جاتے۔
میاں بیوی میں اختلاف اتنے بڑھے کہ محبت بھرے بستر پر کیکٹس اگ آئے۔
دھیرے دھیرے وہ وقت بھی آیا کہ آپ کی مثالیت پسندی حقیقت پسندی سے ٹکرانے لگی۔

زندگی نے سرگوشی کی کہ آپ کی خیالی جنت میں مسائل خود رو پودوں کی طرح بڑھ رہے ہیں لیکن آپ نے انہیں نظر انداز کیا۔

زندگی نے پھر سرگوشی کی اور آپ نے پھر اسے نظرانداز کیا۔
سرگوشی بڑھنے لگی اور دھیرے دھیرے چیخ میں ڈھلنے لگی
دیوار کی ایک اینٹ ہلی
پھر دوسری اینٹ ہلی
پھر تیسری اینٹ پھر چوتھی اینٹ

اور ایک دن وہ دیوار دھڑام سے گری اور اس کا سارا ملبہ چاروں طرف پھیل گیا اور آپ ایک نفسیاتی ’سماجی یا سیاسی بحران کا شکار ہو گئے۔

میں نے پچھلی کئی دہائیوں میں بطور ماہر نفسیات بہت سے مردوں اور عورتوں کو ایسے بحرانوں سے الجھتے ’بکھرتے اور سنورتے دیکھا ہے

کچھ لوگ اس بحران سے کبھی نہ لوٹے
کچھ لوگ ساری عمر ندامت و خجالت کے آنسو بہاتے رہے
کچھ لوگ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگے

کچھ زندگی کی گہما گہمیوں سے قطع تعلق ہو گئے اور اس شعر پر عمل کرنے لگے
کہاں ہم اور کہاں سالک یہ ہنگامے محبت کے
بس اک کونے میں بیٹھے ہیں خدا کو یاد کرتے ہیں۔

کچھ نہ یہ شعر پڑھ کر دل کو تسلی دی
آرزو اور آرزو کے بعد خون آرزو
ایک مصرعہ میں ہے ساری داستان زندگی

لیکن کچھ ایسے بھی تھے جنہوں اپنے انداز فکر ’اپنی سوچ‘ اپنے آدرش اور اپنے خواب پر نظر ثانی کی۔ انہیں اندازہ ہوا کہ وہ کسی مقناطیسی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو کر اور اس پر اندھا ایمان لا کر کسی کلٹ کا حصہ بن گئے تھے۔ انہیں احساس ہوا کہ ایسا رویہ جذباتی طور پر کسی نابالغ ٹین ایجر کا رویہ ہے۔

انہیں اندازہ ہوا کہ ہمارے مذہبی و سماجی و سیاسی لیڈر بھی انسان ہیں جو حالات و واقعات کے بدلنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ جب وہ مصائب اور آزمائشوں سے گزرتے ہیں تو ان کے دل بھی زور زور سے دھڑکتے ہیں اور ان کے پاؤں بھی لڑکھڑاتے ہیں اور وہ بھی جذباتی و غیر دانشمندانہ فیصلے کرتے ہیں۔ وہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہوتے ہیں جس پر وہ بیٹھے ہوتے ہیں۔

ایسے لوگ اپنے خیالات و نظریات پر نظر ثانی کرتے ہیں اور دھیرے دھیرے زندگی کو معروضی انداز سے دیکھنا شروع کرتے ہیں۔

ایسے مثالیت پسند دھیرے دھیرے حقیقت پسندی کو گلے لگاتے ہیں اور انہیں اس وقت حیرانی ہوتی ہے جب مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی کے امتزاج کی کوکھ سے دانائی جنم لیتی ہے۔

اور وہ دانائی عمر بھر ان کے مستقبل کے فیصلوں میں ان کے لیے خضر راہ کا کام کرتی ہے۔
ایک چینی کہاوت ہے کہ جہاں مثالیت پسندی ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے وہیں سے دانائی اپنا سفر شروع کرتی ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 657 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments