بھارت سے عمران خان کے لئے بھارتی فنڈنگ کی تصدیق


سوشل میڈیا پہ ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں عالمی امور کے بھارتی ماہر سمیت جین نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے عمران خان کو دو سو کروڑ روپے فنڈ کی صورت دلائے جس پہ عمران خان کشمیر کے معاملے پہ خاموش ہو گئے اور پاکستان آرمی کے خلاف بولنا شروع کر دیا، عمران خان نے انڈیا کے لیے جو کیا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ سمیت جین نے کہا کہ عمران خان کاوہ بنک اکاؤنٹ جس میں فارن فنڈنگ آئی تھیں، اس حوالے سے عمران خان پہ کیس بھی چل رہا ہے کہ یہ فنڈز کہاں سے آئے ہیں، اس کے اندر انڈیا کے افراد کی بہت بڑی کنٹری بیوشن ہے۔

اس سے پہلے بھارت کے ایک دفاعی ماہر ریٹائرڈ میجر گورو آریہ نے بھی اپنے ’وی لاگ‘ میں کہا تھا کہ انہوں نے بیرون ملک مقیم انڈیا کے افراد سے عمران خان کو فنڈز دلانے میں کردار ادا کیا تھا۔ گورو آریہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان نے 9 مئی کو پاکستان کی فوج کے خلاف جو کردار ادا کیا، اس پہ بھارت عمران خان کو سلیوٹ پیش کرتا ہے، یہ کام بھارت اربوں، کھربوں روپے لگا کر بھی نہیں کر سکتا تھا جو عمران خان نے کر دکھایا ہے۔

اس سے پہلے ایسی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں کہ جن میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی کہ بھارت کے مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق 5 اگست 2019 کے اقدام سے پہلے ہی عمران خان نے پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر، امریکی ایما پہ بھارت کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت کے اس جارحانہ اقدام پہ پاکستان کی طرف سے عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ یعنی عمران خان کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق بھارت کی سہولت کاری کی گئی۔

سابق سینئر سفارت کار، بھارت میں متعین پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے بھی گزشتہ دنوں یہ انکشاف کیا کہ چین نے بھارت کے مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق 5 اگست 2019 کے اقدام سے متعلق پہلے ہی مطلع کر دیا تھا تاہم وزیر اعظم عمران خان نے اس پہ محض بیانات دیتے ہوئے کوئی ردعمل ظاہر نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی۔

پاکستان میں یہ اطلاعات پہلے ہی سامنے آ چکی تھیں کہ عمران خان کو بھارت کی طرف سے فنڈنگ کی گئی ہے تاہم اب بھارت سے اس کی تصدیق کی روشنی میں اس بات کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ بھارتی فنڈنگ کے معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائے۔ پاکستان میں بھارتی فنڈنگ کے اس معاملے کی تحقیقات نہ کرنا پاکستان کی سلامتی کے معاملے میں کمپرومائیز کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ بات صرف بھارتی فنڈنگ تک ہی محدود نہیں بلکہ عمران خان نے اپنے اقدامات سے بھارت کے مفادات کے لئے ملک دشمنی پر مبنی ایسا کر کے دکھایا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں کسی پاکستانی شخصیت نے نہیں کیا۔ یعنی عوام میں منافرت، عناد، تقسیم پیدا کرنا اور ملک کے دفاعی اداروں کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش اور پاکستان کی دفاعی علامات و تنصیبات پہ حملہ کراتے ہوئے ملک سے بغاوت پر مبنی کارروائیاں کرانا۔

ریاست جموں و کشمیر کی پاکستان کی لئے اہمیت کیا ہے اس کا بہترین اظہار قائد اعظم کے اس قول میں ہے کہ جس میں انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی کے لئے ہوں گی۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے آبی ذخائر پہ ڈیم بناتے ہوئے پاکستان کی طرف جانے والے دریاؤں کے پانی کی مقدار میں کمی لائی ہے۔ بھارت کا یہ اقدام پاکستان کے لئے سنگین ترین صورتحال کی طرف پیش قدمی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کی پاکستان کے لئے جغرافیائی، دفاعی، سٹریٹیجک لحاظ سے بھی کیا اہمیت ہے؟ اس کا بہترین اظہار بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کشمیر پالیسی سے ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا پہ بھارتی عالمی امور کے ماہر سمیت جین، جو ایک صحافی بھی ہے، کے عمران خان کو بھارتی فنڈنگ اور اس کے عوض عمران خان کی طرف سے کشمیر پر بھارت کو سہولت کاری کے انکشاف پر پاکستانی عوام کے عوام کے علاوہ مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور پاکستانی عوام کی طرح کشمیریوں کے تمام مکتبہ ہائے فکر میں بھی عمران خان کے اس سیاہ کردار کی سختی سے مذمت کی جا رہی ہے۔

پاکستان کا وزیراعظم تو ملکی مفادات کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے، اگر ایسی شخصیت ہی بالخصوص دشمن ملک سے پیسے لے کر ملک کے وسیع تر مفادات کے حوالے سے دشمن کے عزائم میں سہولت فراہم کرے تو یہ جرم سنگین ترین نوعیت اختیار کر جاتا ہے جسے بلاشبہ ملک اور عوام سے غداری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ بھارت سے ہونے والے اس انکشاف سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ عمران خان سیاسی مخالفین کے خلاف ”چور چور“ کا واویلا کرتے ہوئے خود ہی اس جرم میں ملوث رہا ہے۔

بھارت نے تقریباً چار سال قبل مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کے مرکز کے زیر انتظام خطے میں تبدیل کرتے ہوئے متنازع ریاست جموں وکشمیر میں ڈیموگریفک تبدیلی کے منصوبے پہ کام تیز کر دیا ہے جس کا مقصد مسلم اکثریت والی اس ریاست میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرتے ہوئے غیرریاستی ہندوؤں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد کیا کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت سے ہندؤں کو لا کر آباد کرنے، مقبوضہ کشمیر میں بڑی صنعتیں قائم کرنے اور مقبوضہ کشمیر کی مسلم آبادی کی سیاسی برتری ختم کرنے کے اقدامات بھی کر رہی ہے۔

اس کے تحت 85 لاکھ کی نئی ووٹر لسٹ میں 11 لاکھ سے زائد نئے ووٹوں کا اندراج کیا گیا ہے جس میں اکثریت غیرریاستی افراد کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ظلم و جبر کی بدترین صورتحال کشمیریوں پہ مسلط کر رکھی ہے، تین ہزار سے زائد آزادی پسند رہنماؤں، کارکنوں کو جیلوں میں قید رکھا گیا ہے، جس کشمیری پہ شک بھی ہو کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں پہ بات کر سکتا ہے، اس کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے دو سال کے لئے بغیر مقدمہ چلائے جیل میں قید کر دیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی گزشتہ چند سال سے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کئی کالے قوانین کی فہرست میں اضافہ کرتے ہوئے ”ان لا فل ایکٹیویٹیز ایکٹ UAPA بھی نافذ کر رکھا ہے جس کے تحت بھارتی حکومت ایسی کسی بھی جائیداد کو مستقل طور پر سرکاری تحویل میں لے سکتی ہے جو تحریک آزادی کی کسی بھی سرگرمی کے لئے استعمال ہوئی ہو۔ اس قانون کے تحت بڑی تعداد میں رہائشی اور کمرشل جائیدادوں کو مستقل سرکاری تحویل میں لیا گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب بھارتی حکومت نے حریت رہنما یاسین ملک کو پھانسی پہ لٹکانے کے لئے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسیNIAکے ذریعے دہلی ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی ہے۔

عمران خان کو بھارت کی طرف سے فنڈنگ کے انکشاف کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائے اور اس حوالے سے تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے۔ یہ معاملہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے سے بھی سنگین تر معاملہ ہے اور اس معاملے کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پاکستان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی کہ سیاسی پہلو ہونے کی وجہ سے اس معاملے میں بھی عمران خان کو رعایت دے دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments