تنازعات سے دور رہنے والا ملک برازیل کس طرح امریکہ مخالف روسی جاسوسوں کا ’گڑھ‘ بن گیا؟


وکٹر فیریرا، جوز اسیس، ڈینیئل کیمپوس۔ یہ ایسے نام ہیں جو برازیل میں خاصے عام ہیں اور کسی کو یہ نام سن کر کوئی منفردیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔

تاہم حالیہ مہینوں میں یہ عام فہم برازیلی نام عالمی سطح پر تفتیش کاروں کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ اب ان ناموں میں چھپے غیربرازیلی جاسوسوں کے ٹھکانوں سے متعلق تحقیقات ہو رہی ہیں۔

یہ تحقیق میں برازیل سمیت مختلف ممالک کی پولیس اور انٹیلی جنس سروسز کے ادارے کر رہے ہیں۔

ان تفتیش کاروں کے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ روسی انٹیلی جنس سروسز نے برازیل کو جاسوسی کے ’گڑھ‘ کے طور پر استعمال کیا ہے؟

پولیس کے مطابق یہ غلط شناخت رکھنے والے جاسوس صرف برازیل کے لیے ہی درد سر نہیں ہیں بلکہ یہاں سے یہ بڑے آرام سے اپنی خفیہ سرگرمیوں کا دائرہ امریکہ، یورپ اور جنوبی امریکی ممالک سمیت پوری دنیا کے اہم دارالحکومتوں تک پھیلاتے ہیں۔

یہ اس طریقے سے کام کرتے ہیں کہ انٹیلیجنس سروسز پر بداعتمادی کا شبہ تک نہیں ہوتا۔

یورپ یا امریکہ سے گذشتہ تین مہینوں میں بی بی سی نیوز برازیل نے تفتیش کاروں، انٹیلی جنس ایجنٹوں اور مختلف ممالک کے حکام سے بات کی تا کہ یہ جاننے کی کوشش کی جا سکے کہ روس نے برازیل کو جاسوسی کے مرکز کے طور کیوں چنا؟

جب برازیل کی فیڈرل پولیس سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

بی بی سی نیوز برازیل نے برازیل میں روسی سفارت خانے اور قونصلیٹ جنرل کو سوالات بھیجے، لیکن ابھی تک وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جب سے یہ کیسز سامنے آنے لگے ہیں، روسی حکومت نے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

USA

کیا یہ جاسوس برازیل کے مقامی افراد ہی ہیں؟

حالیہ مہینوں میں برازیلی شناخت کے حامل کم از کم تین مبینہ روسی جاسوسوں کا کُھرا ملا ہے۔ تاہم ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ ان جاسوسوں نے برازیل کے اداروں یا حکام کی بھی کوئی جاسوسی کی ہو۔

ایف بی آئی، امریکی وفاقی پولیس اور برازیلین پی ایف کی تیار کردہ دونوں دستاویزات، جن تک بی بی سی نیوز کو رسائی حاصل ہوئی، سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انھوں نے امریکہ، ناروے اور ہالینڈ جیسی جگہوں پر جاسوسی کے لیے انھوں نے اپنی برازیلین شہریت کا سہارا لیا۔

منظرعام پر آنے والے پہلے مبینہ ’برازیلی‘ جاسوس سرگئی ولادیمیروچ چیرکاسوف تھے، جنھوں نے وکٹر مُلر فیریرا بن کر اپنی جاسوسی کی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

اپریل 2022 میں انھیں ایمسٹرڈیم میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کر کے برازیل واپس بھیج دیا گیا۔ وکٹر مُلر کے نام پر کان کرنے والے سرگئی نے ہیگ میں واقعہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں انٹرنشپ حاصل کر لی تھی۔ واضح رہے کہ یہ یہ عدالت جنگی جرائم کا فیصلہ کرنے کی ذمہ دار ہے اور اس وقت اس عدالت کے سامنے یوکرین میں روس کی طرف سے ڈھائے جانے والے جنگی جرائم کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔

اس سال کے آغاز میں اس عدالت نے یوکرین پر روس کے حملے کے دوران سرزد ہونے والے جنگی جرائم کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔

ہالینڈ، امریکی اور برازیلی تفتیش کاروں کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ سرگئی ولادیمیروچ جی آر یو کے ایجنٹ تھے۔ خیال رہے کہ جی آر یو روسی مسلح افواج کی انٹیلی جنس سروسز میں سے ایک ہے۔

سرگئی ولادیمیروچ کو برازیل میں جھوٹی دستاویز استعمال کرنے پر 15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ دوران ٹرائل ایک سماعت پر انھوں نے برازیلین شناخت رکھنے کا اعتراف کیا مگر جاسوسی کے الزام کی تردید کی۔

فیڈرل سپریم کورٹ میں ایک سماعت کے دوران جب اس حوالے سے ان سے ایک ایسا ہی سوال پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کردیا۔

سرگئی ولادیمیروچ کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی ہو رہی ہیں۔

چند ماہ بعد نومبر میں ایک اور ’برازیلی‘ جاسوس، یو زو اسیس گیامیریا، کو ناروے کے شہر ٹرمسو سے حراست میں لیا گیا۔

ناروے کے حکام نے بتایا ہے کہ اس شخص کا اصل نام میخائل میکوشین ہے، اور وہ روسی فوج میں کرنل رینک کا ایک افسر ہے، جس نے برازیلی شہری کا روپ دھارا ہوا تھا اور وہ ناروے کی ’آرکٹک یونیورسٹی‘ میں ایک ریسرچر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ واضح رہے کہ ناروے کی سرحد روس سے ملتی ہے۔

تیسرا کیس 2023 میں اس وقت سامنے آیا جب ایک برازیلین خاتون نے اپنے بوائے فرینڈ کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو دی۔ انھوں نے اپنے اس دوست کا نام گیرہرڈ ڈینیئل کیمپوس بتایا جو کہ ایک برازیلی نام ہے۔

تاہم یونانی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ کیمپوس حقیقت میں ایک روسی جاسوس تھا، جس کا آخری نام شمیریف ہے اور اس نے برازیلی شناخت اور روپ اختیار کیا تھا۔

دراندازی کا پروگرام

چیرکاسوف، میکوشین اور شمیریف پر شبہ ہے کہ وہ خفیہ ایجنٹس ہیں، جیسے روس سوویت یونین کے دور سے کرتا آ رہا ہے۔

یہ ایجنٹ صرف نام ہی تبدیل نہیں کرتے بلکہ وہ ایک نئی قومیت، پیشہ، شخصیت اور مشاغل اختیار کرتے ہیں، اور یہاں تک کہ طویل عرصے کے قیام کے دوران وہ رومانوی اور خاندانی تعلقات اور دوستیاں بھی بنا لیتے ہیں۔

ان کے لیے تربیت کے دوران جوڑے بنانا ایک عام سی بات ہے۔ کئی دہائیوں تک خفیہ طور پر بیرون ملک کام کرنے کا عمل انتہائی ذہنی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے، اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ ایک ایسے ساتھی کا ہونا جو آپ کے کام کو جانتا ہو یہ اکثر فائدہ مند ہی ہوتا ہے۔

یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد سے اب تک سینکڑوں روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے، جن میں سے اکثر جاسوس تھے۔ یہی وجہ تھی کہ روسی جاسوسی نیٹ ورکس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر صرف جی آر یو جیسے جاسوسوں پر سب توجہ مرکوز ہے لیکن حالیہ مہینوں میں کچھ روسی فارن انٹیلیجنس سروس کے افراد کے بارے میں بھی پتا چلا ہے کہ وہ بھی جاسوسی جیسے مشن میں مگن ہیں۔

اس کی وجہ کیا ہے یہ واضح نہیں ہے۔ لیکن اس کا صاف مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ماسکو میں روسی انٹیلیجنس اپنا دائرہ دیگر شعبوں تک بھی بڑھا رہے ہیں اور وہ مغربی ممالک یا کسی خفیہ ایجنٹ کے ذریعے اب وہ یا تو وہ مواصلاتی نیٹ ورکس ٹیپ کر رہے ہیں۔

اب برازیل میں ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان مبینہ جاسوسوں نے کیسے بچ بچا کر اپنا مشن اگے بڑھایا ہو گا۔

Russia

تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ روسی ایجنٹ میخائل چیرکاسوف نے ساؤ پالو میں رہتے ہوئے ’فورو‘ ایک مشہور برازیلی رقص کی کلاسز لی تھیں۔

ایف بی آئی کے مطابق چیرکاسوف نے اپنے اعلیٰ افسران سے ایک ایسی خاتون سے شادی کرنے کی اجازت مانگی، جس نے انٹیلی جنس ایجنٹ کے طور پر کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔

تفتیش کاروں کو دستیاب ہونے والی گفتگو کے مطابق چیرکاسوف نے اپنے اعلیٰ حکام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کہا کہ اگر میں نے اس سال شادی نہیں کی تو یقینی طور پر ہم الگ ہو جائیں گے۔ عورت اب اس تعلق کو ایسے ہی مزید برداشت نہیں کر سکتی۔‘

ایف بی آئی کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ چیرکاسوف کو شادی کے لیے اجازت طلب کرنا پڑی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے اعلیٰ افسران اس کی ذاتی زندگی پر کس حد تک کنٹرول رکھتے ہیں۔

برطانوی اخبار دی گارڈین جیسے میڈیا میں شائع ہونے والی معلومات کے مطابق اور بی بی سی نیوز برازیل نے برازیل کے ایک ذریعے سے تصدیق کی ہے کہ تحقیقات کے دوران اس بات کا بھی پتا چلا ہے کہ شمائریو اس سال جنوری میں خود ساختہ گمشدگی سے کچھ دیر پہلے تک ایک برازیلی خاتون کے ساتھ رومانوی تعلقات قائم رکھے ہوئے تھے۔

ریو ڈی جنیرو میں تفتیش کاروں کے مطابق وہ (شمایریو جو ایک مبینہ روسی جاسوس ہیں) ایک ایسی تھری ڈی پرنٹنگ کمپنی کے مالک کے طور پر مشوہر تھے، جو فوج، بحریہ اور وزارت ثقافت جیسے عوامی اداروں کے لیے خدمات انجام دیتی رہی۔

ان رپورٹس کے مطابق اپنی برازیلین گرل فرینڈ کو چھوڑ کر شمایریو کی شادی ارینا رومانوف نامی ایک اور مبینہ روسی جاسوس سے ہوئی تھی، جو ماریہ تسلا کے فرضی نام سے یونان میں مقیم تھیں۔ وہ بھی یونان سے غائب ہو گئی ہیں جس سے یہ شبہ ہوا ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ ہی کہیں بھاگ گئے ہوں گے۔

بظاہر انھوں نے اپنے ساتھی کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ کہیں جا رہی ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ روسی فارن انٹیلی جنس سروس نے ارینا کو اس ڈر سے وہاں سے بھیج دیا کہ کہیں اس کی شناخت ظاہر نہ ہو جائے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یونانی حکام اس کی نگرانی یا تفتیش کر رہے تھے۔ ان کے مطابق وہ عورت اپنا خیمہ اور بلی چھوڑ کر چلی گئیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ کتنی جلدی جلدی وہاں سے نکلی ہیں۔

انٹیلیجنس حکام کا خیال ہے کہ حالیہ برسوں میں جی آر یو زیادہ فعال اور جارحانہ ہو گئی ہے۔

جی آر یو پر شبہ ہے کہ اس نے سنہ 2018 میں برطانیہ کے سیلسبری کے مقام پر سرگئی سکرپال کو قتل کرنے کے لیے فرضی شناخت رکھنے والے ایجنٹوں کی ایک ٹیم وہاں بھیجی تھی۔ تاہم روس اس معاملے میں ملوث ہونے سے انکاری ہے۔

ان ایجنٹوں کا بنیادی کام روسی مسلح افواج کی مدد کے لیے معلومات اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔

عام طور پر جب وہ پکڑے جاتے ہیں تو روسی حکومت انھیں کسی نہ کسی ڈیل کے ذریعے روس واپس لانے کے لیے کام کرتی ہے، عام طور پر یہ دوسرے ملک کے ساتھ جاسوس کے تبادلے کے ذریعے سب کیا جاتا ہے۔

سنہ 2010 میں امریکہ میں گرفتار کیے گئے روسیوں کے ایک گروپ کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا، جو جاسوسی کے الزام میں روسی جیلوں میں قید ایجنٹوں کے بدلے روس کے حوالے کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین سائنسدان پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار

روس کے ’جاسوس جہاز‘ جو کشیدگی کی صورت میں بحیرہ شمالی میں ’تخریبی کارروائیاں کر سکتے ہیں‘

اولگ پینکوسکی: دنیا کو ایٹمی جنگ سے ’بچانے والا جاسوس‘ جس کی شخصیت ہمیشہ متنازع رہی

برازیل کیوں؟

جب چیرکاسوف اور میکوشین کو سنہ 2022 میں پتا چلایا گیا تو برازیلین اور امریکی محققین کو ایک سوال نے پریشان کرنا شروع کیا کہ روس نے برازیل کو اپنے کچھ جاسوسوں کے لیے ’گڑھ‘ کے طور پر کیوں چُنا؟

برازیل کی انٹیلی جنس کمیونٹی کے اراکین، محققین، اور برازیل میں نوٹریل رجسٹریشن کے نظام سے واقف لوگ اس سوال کے جواب میں تین اہم وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

  1. برازیل میں دستاویز کے کنٹرول اور جاری کرنے کے نظام میں پائی جانے والی کمزوریاں
  2. بین الاقوامی تنازعات میں ملک کی عدم شرکت کی تاریخ
  3. مخلوط آبادی

مثال کے طور پر میخائل چیرکاسوف کا سرٹیفکیٹ اپریل 1989 میں ریو ڈی جنیرو کے ایک رجسٹری دفتر میں جاری کیا گیا تھا۔

تحقیقات کے مطابق اس سرٹیفکیٹ سے وہ شناختی کارڈ، قومی ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ اور یہاں تک کہ یونیفائیڈ ہیلتھ سسٹم کارڈ بھی حاصل کر سکتا تھا۔

میکوشین کا پیدائشی سرٹیفکیٹ صرف 35,000 سے زیادہ باشندوں کی ایک میونسپلٹی کے ایک رجسٹری دفتر سے جاری کیا گیا تھا۔

ہاتھ میں دستاویز کے ساتھ وہ برازیل میں ایک یونیورسٹی کے طالب علم کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور دو مختلف کینیڈین یونیورسٹیوں سے گریجوایشن اور ماسٹرز کی ڈگریوں کے سرٹیفکیٹ بھی حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی تازہ ترین اسائنمنٹ پر روانہ ہوجاتا ہے جہاں وہ ناروے کے محقیقن کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر خطرات اور ہائبرڈ جنگ پر تحقیق شروع کر دیتا ہے۔

برازیل میں سول رجسٹری کے ایک اہلکار ایلویلیا نونس فریرا نے بتایا کہ ’جب ہمیں اس کیس کے بارے میں پتہ چلا تو ہم نے نوٹری کا ریکارڈ کا معائنہ کیا، جہاں سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ سرٹیفکیٹ اصلی ہے اور یہ دیگر دستاویزات کے اجرا کے عین مطابق ہے۔‘

برازیل کی انٹیلی جنس کمیونٹی کے ایک رکن نے ہمیں نجی طور پر بتایا کہ اب تک جن دو مبینہ جاسوسوں کی شناخت کی گئی ہے، وہ حقیقت میں ایسا ہی ہے یعنی یہ سرٹیفکیٹس درست تھے۔

اس ذریعہ کے مطابق یہ اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ یہ سرٹیفکیٹ درحقیقت برازیل کے رجسٹری دفاتر یا نوٹریوں کے ذریعہ جاری کیے گئے تھے، لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ روسی انھیں کیسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

برازیل کی ایسوسی ایشن آف رجسٹرار آف فزیکل پرسنز (آرپین) کے صدر گسٹاوو فِسکاریلی کے لیے مبینہ روسی جاسوسوں کے لیے برازیل کے دستاویزی نظام میں دستاویزات حاصل کرنا نسبتاً آسان ہے۔

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سنہ 2015 تک ملک کے نوٹریل دفاتر کے نظام کو باقاعدہ اور منظم نہیں کیا گیا تھا، اس لیے ڈیٹا بیس کا پتا آسانی سے نہیں چلایا جا سکتا تھا اور ریکارڈ کی تکرار، نام کی عدم مطابقت یا دانستہ دھوکہ دہی کو نہیں پکڑا جا سکتا تھا۔

ان کے مطابق ریکارڈ کا نظام باقاعدہ نہیں تھا، وہ ایسے کام کرتے تھے جیسے وہ جزیرے ہوں۔ وہاں کوئی مواصلات اور معلومات کے تبادلے کا مرکزی نظام کا وجود ہی نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سنہ 2017 تک برازیل میں پیدائشی سرٹیفکیٹ بہت آسانی سے حاصل کیے جا سکتے تھے۔ ان دستاویزات پر کوئی وارٹر مارک یا نشان تک نہیں تھا جو ان کے اصلی ہونے کا ثبوت ہوں۔

تیسری کمزوری یہ تھی کہ یہ حقیقت ہے کہ برازیل میں بالغوں کے لیے پیدائش کے سرٹیفکیٹ کے بغیر دیر سے پیدائش کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ممکن ہے، جو کہ ہسپتال ہر بار ہیلتھ یونٹ میں بچے کی پیدائش پر بنانا ہوتا ہے۔

اس قسم کا برتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے اس شخص کے لیے رجسٹری آفس جانا، کچھ فارم پُر کرنا اور دو گواہ پیش کرنا ہی شرط ہے۔

گسٹاوو فِسکاریلی کا کہنا ہے کہ دیر سے رجسٹریشن کا نظام ان شہریوں کے کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا تھا جو سماجی یا جغرافیائی وجوہات کی بنا پر جب وہ پیدا ہوئے تھے تو انھیں سول رجسٹری تک با آسانی رسائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ تاہم یہ تاخیر اب جرائم میں سہولت فراہم کرنے جیسا ہتھیار بن گیا ہے۔

ان کے مطابق ’یہ ہو سکتا ہے کہ اس جاسوس نے رجسٹری آفس سے ملی بھگت کر کے سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور اس کے ساتھ اپنی باقی دستاویزات تیار کیں۔ یا دھوکہ دہی سے دیر سے رجسٹر کرایا اور پھر قانونی سرٹیفکیٹ حاصل کر کے اپنے باقی تمام دستاویزات حاصل کر لیے ہوں۔‘

جیسا کہ اس سال مارچ میں بی بی سی نیوز برازیل نے یہ خبر شائع کی تھی کہ برازیل کے رجسٹری دفاتر میں روسیوں اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان ملی بھگت کا امکان کا پتا چلانا اب برازیلی حکام کی ترجیح پر ہے۔

یو ایس بی سے حاصل کردہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس نے کس طرح رجسٹری آفس کے ایک سابق ملازم سے رابطہ کیا اور کس طرح اس نے اصل پیش کیے بغیر بھی دستاویزات کی مفروضہ کاپیوں کی تصدیق کرنے میں اس کی مدد کی، جو کہ عام قاعدہ کے تحت ممکن نہیں ہے۔

فیڈرل پولیس کی رپورٹ کے مطابق میخائل چیرکاسوف کی طرف سے اپنے اعلیٰ افسران کو حوالے کیے جانے والی رپورٹس میں، اس نے برازیل کی ایک سابق ملازمہ کو 400 ڈالر کا ہار دینے کا دعویٰ کیا تھا۔

پولیس کے مطابق مبینہ روسی جاسوس کی یو ایس بی سے حاصل ہونے والی معلومات میں اس کے الفاظ کچھ یوں تھے: ’جب میرے پاس میرا شناخت کارڈ نہیں تھا، تو وہ اس ملازمہ نے تصویر کے ساتھ میرا کارڈ بنا دیا اور مجھے ایک خصوصی اجازت نامہ فراہم کیا۔ اس اجازت کے ساتھ میں شہریت کا عمل شروع کرنے، نیا ڈرائیونگ لائسنس اور نیا پیدائشی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘

پولیس کے مطابق بعد میں یو ایس بی سے اس جاسوس کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوئیں۔

ایک اور عنصر جو نظام کو مزید کمزور بناتا ہے وہ ہے نوٹری کے ڈیٹا بیسز اور وفاقی یا ریاستی حکومت کے بائیو میٹرک ریکارڈز کا فقدان ہے۔ اس مثال وہ ’سپیریئر الیکٹورل ٹریبونل‘ اور وفاقی پولیس کے درمیان تعلق کے فقدان کی دیتے ہیں۔

کوئی مداخلت نہیں اور مخلوط آبادی

دوسرے دو عوامل جن کی وجہ سے روس برازیل کو اپنے جاسوسوں کے لیے ’گڑھ‘ کے طور پر منتخب کرتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ملک بین الاقوامی تنازعات میں ملوث نہیں رہا ہے اور یہ حقیقت کہ ملک کی مخلوط نسل کی آبادی ایک روسی کے لیے اس کام کو آسان بنا دیتی ہے۔

حالیہ دہائیوں میں برازیل کی سفارت کاری کو عظیم عالمی طاقتوں کے درمیان تنازعات سے خود کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

سنہ 2022 میں مثال کے طور پر جب روس نے یوکرین کی سرزمین پر حملہ کیا، برازیل نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے دوران یوکرین میں روسی فوجی کارروائی کی مذمت کی، لیکن یوکرین کو ہتھیار بھیج کر تنازع میں ملوث ہونے سے گریز کیا۔

ابھی حال ہی میں کچھ ممالک نے نے برازیل کے موقف پر سوال اٹھانا شروع کر دیے جب صدر لوئیز اناسیو لولا دی سلوا نے ایسے بیانات دیے جن کو روس کے حق میں سازگار قرار دیا گیا۔

چین کے دورے پر، برازیلی صدر نے یہاں تک کہا کہ امریکہ اور یورپی یونین یوکرین کی حکومت کو اسلحہ اور دیگر سامان بھیج کر یوکرین میں جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔

پھر برازیلین صدر نے اپنے بیانات کا لہجہ بدل دیا اور پرتگال کے دورے کے دوران اس بات کی نشاندہی کی کہ انھوں نے کبھی بھی روس کو یوکرین کے ساتھ ’مساوی‘ نہیں کیا اور برازیل سمجھتا ہے کہ ولادیمیر پوتن کی حکومت والے ملک نے ’غلطی کی ہے۔‘

اس معاملے سے باخبر ایک ذریعے نے یہ بتایا کہ انٹیلی جنس سروسز کی طرف سے روس جیسے تنازعات میں گھرے ملک کے پاسپورٹ کے مقابلے میں برازیل جیسے تنازعات سے دور ملک کا پاسپورٹ بہت کم شبے کا ذریعہ بنتا ہے۔

Brazil

حوالگی اور پیمانہ نامعلوم

برازیلی شناخت کے تحت متحرک تین مبینہ روسی جاسوسوں کی دریافت نے گزشتہ سال سے فیڈرل پولیس اور برازیل کی انٹیلی جنس ایجنسی کے کام کرنے کے طریقے کو بدل دیا ہے۔

ایف بی آئی کی مدد سے وفاقی پولیس برازیل میں مبینہ روسی جاسوسوں کی کارروائیوں کے بارے میں مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کیس میں بین الاقوامی قانونی تعاون اس وقت شروع ہوا جب چیرکاسوف کو 2022 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کے بعد روس نے بھی چیرکاسوف کی اپنے ملک واپسی کے لیے کوششیں کی ہیں۔ اگست 2022 میں روسی حکومت نے باضابطہ طور پر چیرکاسوف کی حوالگی کی درخواست اس بنیاد پر کی کہ وہ درحقیقت ایک منشیات کا سمگلر تھا جو ملکی حکام کو مطلوب تھا۔

حوالگی کے عمل کے دوران چیرکاسوف نے برازیلی حکام کے درمیان شکوک و شبہات کو جنم دیا جب انھوں نے کہا کہ وہ خود کو روسیوں کے حوالے کرنا چاہیں گے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ روس میں منشیات کی سمگلنگ کی سزا برازیل سے زیادہ سخت ہے۔

تاہم اس سال مارچ میں امریکی محکمہ انصاف نے چیرکاسوف کے خلاف امریکی سرزمین پر غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر کام کرنے اور مالی اور ویزا فراڈ کے الزام میں فرد جرم عائد کی ہے۔

اس خبر کے لیے جن ذرائع سے بات کی گئی ہے ان کے خیال میں امریکیوں کے لیے اگلا قدم اس روسی جاسوس کی حوالگی کے لیے درخواست کرنا ہو گا، جو برازیل کے لیے ایک نیا تنازع کھڑا کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ برازیل کے قانون کے مطابق حوالگی کی درخواستوں کا فیصلہ وفاقی سپریم کورٹ کے ذریعے کرنا ضروری ہے، تاہم برازیل کا صدر اس شخص کو حوالے کرنے سے انکار کر سکتا ہے جس کے بارے میں حوالگی کی درخواست کی گئی ہو۔

خیال رہے کہ ایسا سنہ 2010 میں ہوا جب لولا ملک کے صدر تھے اور انھوں نے اطالوی جسٹس کو اطالوی عسکریت پسند سیزر بٹیسٹی کی حوالگی سے انکار کیا تھا۔ سنہ 2017 میں اس وقت کے صدر مشیل ٹیمر نے بولیویا فرار ہونے والے بٹیسٹی کی حوالگی کی اجازت دی۔ انھیں پھر سنہ 2019 میں اٹلی کے حوالے کیا گیا تھا۔

چیرکاسوف کی حوالگی کے عمل کی نگرانی ایس ٹی ایف کے وزیر لوئیز ایڈسن فاچن کر رہے ہیں، جو پہلے ہی اسے روسیوں کے حوالے کرنے کی منظوری دے چکے ہیں۔ مگر یہ سب عمل تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔

پی ایف نے تیسرے مبینہ روسی جاسوس کی صورت حال کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری بھی شروع کی جو گیرہرڈ ڈینیئل کیمپوس کے نام سے کام کر رہا تھا۔

تحقیقات سے منسلک ذرائع کا خیال ہے کہ یہ مقدمہ برازیلی حکام کے سامنے تین سوالات کھڑے کرتا ہے۔

  1. جاسوس کتنے عرصے سے برازیل میں کام کر رہے تھے؟
  2. برازیلی دستاویزات کا استعمال کرنے والا نیٹ ورک کتنا بڑا تھا؟
  3. ملک میں اب بھی کتنے جاسوس متحرک ہیں؟

برازیل کی انٹیلیجنس کمیونٹی کے ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی نیوز برازیل کو بتایا کہ ’کوئی نہیں جانتا کہ ملک میں کتنے روسی جاسوس متحرک تھے، وہ کیا کر رہے تھے یا کتنے عرصے سے یہاں کام کر رہے تھے۔‘

رابطہ کرنے پر وفاقی پولیس نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

بی بی سی نیوز برازیل نے برازیل میں روسی سفارت خانے اور قونصلیٹ جنرل کو بھی سوالات بھیجے لیکن وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ جب سے برازیلی شناخت کے ساتھ مبینہ جاسوسوں کے معاملات سامنے آئے ہیں، روسی حکومت نے اس معاملے پر کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments