عمران خان کارکردگی کا جواب دیں


اب عمران خان صاحب نے نیا پینترا بدلا ہے کہ کوئی بھی سیاسی حکومت اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ سے ڈیلیور نہیں کر سکتی۔ وطن عزیز میں ہر بچہ جانتا ہے کہ عمران خان کو ریاستی اداروں کی جتنی سپورٹ میسر رہی اس کی مثال نہیں ملتی اور خود عمران خان صاحب اپنی زبان سے کئی بار اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ لہذا اس بیانیے پر یقین لانے سے قبل جائزہ لینا ضروری ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں جو وعدے کیے اقتدار ملنے کے بعد ان میں سے کتنے وفا ہوئے؟ اور جو وعدے تحریک انصاف پورے نہ کر سکی اس میں ریاستی اداروں کی مداخلت کا کتنا کردار رہا؟

تحریک انصاف کا سب سے بڑا وعدہ احتساب اور شفافیت کا تھا۔ عمران خان کی خواہش پر ان کے پورے دور اقتدار میں ریاستی اداروں نے ان کے ہر مخالف کو ایک روز بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ احتساب کا حشر اس کے باوجود سب کے سامنے ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ آئی تھی جس میں تحریک انصاف کی حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی سب سے کرپٹ حکومت قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق مختلف وفاقی وزارتوں میں گھپلوں کی خبریں بھی ہر شخص نے پڑھی ہوں گی۔ آٹے چینی کی مصنوعی قلت اور بعد ازاں ان کے نرخوں میں دگنے سے زائد اضافہ بھی تحریک انصاف کی حکومت کی کرپشن و نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان اشیاء کے بحران پر خود عمران خان کے احکامات پر ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس کی انکوائری میں تحریک انصاف کے بہت سے بڑے نام اور عمران خان کے انتہائی قریبی لوگ قصوروار قرار پائے مگر کسی ایک کے خلاف قابل ذکر کارروائی نہ ہوئی۔

میں عمران خان کے دور اقتدار میں بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ شخصی ایمانداری کی داستانیں بھی جھوٹ ہیں۔ اقتدار سے نکلے چند دن نہیں گزرے کہ توشہ خانے سے ہار اور گھڑیاں چرانے کی کہانیاں سامنے آ گئی ہیں، مزید تفصیلات سامنے آئیں تو ان کے چاہنے والے بھی کانوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ یہ بھی دعوی تھا کہ احتساب کے نظام کو شفاف اور غیر جانبدار بنایا جائے گا۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ محض اخباری خبروں کی بنیاد پر تحریک انصاف کے دور میں کئی ماہ بند رکھے گئے کوئی کیس مگر ثابت نہ ہو سکا۔

بی آر ٹی کی لاگت و مدت کئی گنا بڑھ گئی مگر عمران خان کے ہاتھوں بلیک میل ہونے والا چیئرمین نیب اس جانب سے آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ اسی طرح نیب نے خود کہا کہ بلین ٹری منصوبے میں 462 ملین کی کرپشن ہوئی مگر اس اسکینڈل پر بھی نیب نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ کالم کی گنجائش محدود ہے ورنہ اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں نظام احتساب کی غیر جانبداری و شفافیت عیاں کرنے کے لیے موجود ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ گزشتہ عرصے میں نیب صرف حکمران جماعت کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور اس کی قیادت کے انتقامی جذبات کی تسکین کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ یہ صرف الزام نہیں بلکہ سپریم کورٹ ایک سے زائد بار کہہ چکی ہے کہ نیب کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کو توڑ کر مصنوعی قیادت تیار کی جا سکے۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی تحریک انصاف کی حکومت کی خاطر مالی امداد حاصل کرنے کے لیے بار بار دورے کرتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ اس دوران بجٹ پاس کرانے کا کام بھی آئی ایس آئی کرتی رہی۔ اس کے باوجود معیشت تحریک انصاف کی حکومت میں تباہی کے جس بام عروج پر پہنچی اس کی ملکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کوئی ایک بھی معاشی ہدف تحریک انصاف کی حکومت حاصل نہیں کر سکی۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بھرمار کے باوجود ہر سال حکومت ٹارگٹ کے مطابق محصولات جمع کرنے میں ناکام رہی۔

شرح نمو بھی اسی دور میں ملکی تاریخ میں پہلی بار منفی سے بھی اتنی کم ہو گئی کہ قیام پاکستان کے ابتدائی کسمپرسی کے ایام میں بھی نہیں تھی۔ تحریک انصاف کے دور میں بیروزگاری کا بھی ریکارڈ قائم ہو چکا تمام آزاد ماہرین معیشت کے مطابق کم از کم پانچ سے آٹھ ملین لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے تھے۔ ادویات کی قیمتیں ملکی تاریخ میں اتنی بار کبھی نہیں بڑھی جتنی تحریک انصاف کے دور میں بڑھیں۔ قرض بھی سب سے زیادہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں لیا گیا۔

سوال پوچھا جائے تو اب تک ایک ہی جواب ملتا ہے کہ یہ قرض پچھلے قرضوں کا سود ادا کرنے کی خاطر حاصل کیا اور کچھ قرض روپے کی قدر گرنے سے بڑھا۔ یہ بات درست ہے تو پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پچھلی حکومتیں قرض حاصل کر کے پیسہ گھر لے گئیں۔ حکومت نے قرضوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا، قرضوں کے معاملات میں کوئی گڑبڑ تھی تو اس کے ذمہ داران کیوں نہیں پکڑے گئے اور اس انکوائری کے نتیجے کے بارے میں عوام کو کیوں نہیں بتایا گیا۔ اس سوال کا جواب بھی ملنا چاہیے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے کوئی میگا پراجیکٹ بھی شروع نہیں کیا، پہلے سے جاری ترقیاتی کام بھی بند کر دیے پھر بھی قرض میں ریکارڈ اضافہ کیوں ہوا اب اسے عمران خان اور ان کے وزراء کی چوری کہنے کی اجازت ہے؟

پولیس اصلاحات کے وعدے کا جو حشر ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کسی کی جان مال آبرو محفوظ نہیں رہی۔ پولیس اصلاحات کے لیے عمران خان ناصر درانی کو لے کر آئے تھے چند ہی روز میں اس ایماندار شخص نے ہاتھ کیوں اٹھا لیا اس کی وجہ عمران خان بتانا پسند فرمائیں گے؟ پھر جنوبی صوبے کے نام پر جو مذاق ہوا اس پر بات کرنا ہی وقت کا ضیاع لگتا ہے۔ خارجہ محاذ پر تحریک انصاف کی حکومت کا حال سب سے پتلا رہا۔

اچھے برے اور ہر آڑے وقت کے آزمودہ عرب دوست ممالک بھی نا تجربہ کار سفارت کاری اور غیر محتاط بیان بازی کی وجہ سے وطن عزیز سے نالاں ہو گئے۔ امریکی سازش کی بات کرنے سے قبل عمران خان یہ بتا دیں سی پیک پر کام بند کر کے انہوں نے کس کو خوش کیا تھا اور تین سال کی بھرپور منتوں کے باوجود ان کے چہیتے وزراء کا چین نے اپنی سر زمین پر داخلہ کیوں بند رکھا؟ بھارت کو گزشتہ بہتر سال میں جس کام کا حوصلہ نہیں ہوا وہ تحریک انصاف کے دور میں کر گزرا۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اسی دور میں ہوا اور تحریک انصاف کی حکومت اس پر ردعمل دینے میں کیوں ناکام رہی؟ اب اگر عمران خان صاحب اس متعلق تمام ملبہ جنرل باجوہ پر ڈال رہے ہیں تو بتائیں کہ اس وقت کیوں خاموش رہے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھی عمران خان ایک پیج کا ڈھنڈورا کیوں پیٹ رہے تھے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments