بٹی ہوئی صحافت کا ادھورا سچ


آج کل پیارے وطن کے لوگ سیاسی پارٹیوں کی حمایت اور مخالفت میں شدت پسندی کا رجحان رکھتے ہیں جو نوجوان اور جوان نسل میں زیادہ نمایاں ہے لیکن ادھیڑ عمر، نیم بزرگ، مکمل بزرگ اور گھریلو خواتین تک مخالفین کے لیے کند زبانوں کے ہتھیار تیز کیے ہر گھڑی تیار، کامران رہتے ہیں۔

ہمارے صحافی دوست بھی بھلا اس میں کیوں پیچھے رہیں؟ نتیجتاً صحافی برادری دو انتہاؤں میں بٹ چکی ہے۔ اکثر نے اپنے اپنے حساب سے ”پوزیشن“ لے رکھی ہے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ کون سی سیاسی پارٹیاں ایک طرف اور کون سی پارٹی دوسری جانب ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے کئی بار یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ غیر جانب دار ہیں لیکن حالات کے تھپیڑے انہیں ایک کنارے کی طرف دھکیلتے نظر آتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ، غیر جانب داری یعنی بیچ دریا بہنے اور بہتے رہنے کا بھرم کیسے قائم رکھ پاتے ہیں۔

دوسری جانب والی سیاسی پارٹی اکیلی سہی لیکن تنہا نہیں جس کے لیے فی الفور انصاف، منصفوں کی جانب سے اس شتابی سے آتا ہے جتنی جلدی پنجابی محاورے میں ”طعنہ” واپس آتا ہے۔

بات ہو رہی تھی ”صحافیوں“ کی جو ایک دوسرے کے خلافیوں صف آرا ہیں جیسے حق و باطل کے آخری معرکے کی دس تاریخ ہے اور راتوں رات چھوڑ کے نہ جانے والے، جان لینے والے لشکر کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس معرکہ سود و زیاں میں تلواریں سونت کر مدمقابل کھڑا ایک گروہ تو وہ ہے جس نے اپنے مفادات کی امیدیں براہ راست ایک طرف کے لشکر سے باندھ رکھی ہیں۔ دوسرے گروہ کی ایسی ہی امید بھری پتنگیں ظاہر ہے کہ مخالف سمت کی ڈور سے بندھی ہوا کے سنگ اڑتی اور ڈولتی ہیں۔

ان دونوں انتہا پسندوں کے درمیان وہ چند صحافی بھی ہیں جو آج بھی صحافتی دیانت داری، توازن اور غیر جانب داری جیسے متروک سکے جیب میں لیے پھرتے ہیں جنہیں ظاہر ہے کہ آج کے بازار میں کوئی نہیں پوچھتا۔ او بھائی! یہ تبدیلی کا بازار ہے یہاں سخت زبانی، بدتمیزی اور بد تہذیبی کے سکے رائج ہو چکے ہیں بلکہ گالم گلوچ کے بٹ کوئن اور کرپٹو کرنسی چل رہی ہے اور اپنا بھاؤ بڑھائے جا رہی ہے۔ اپنی قیمت کا فیض یہیں حاصل ہوتا ہے۔ لہذا اے پرانی صحافت کے ترجمان!

تو اپنے ”سکہ“ بے فیض کو سنبھال کے رکھ!

یہاں میں نے متروک اشیا میں سچائی کا لفظ جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا کیونکہ اس گھمسان کی جنگ میں اس لفظ کو اتنی ”گیدڑ کٹ“ لگی ہے کہ اس کا انگ انگ دکھ رہا ہے۔ اگر لفظ کی زبان ہوتی تو اس نے چیخ چیخ کے کہنا تھا کہ خدا کے لیے میرا نام بدل کے جھوٹ رکھ دو اور میری جان چھوڑو۔

ہم باز آئے محبت سے
اٹھا لو پاندان اپنا!
ہر کوئی سچا ہے، ہر کوئی حق پر ہے اور مخالفین نرے کاذب اور کافر!

خیر چھوڑیں ان متروک ”کلاسیکل“ صحافیوں کو اور آئیں ان پاپولر pop جنگجو طاقتوں کی جانب جو ایک دوسرے کو ترکی بہ ترکی ”گالیات“ سے نوازنے کا جدید ہنر، آن لائن استعمال کرنے کا تکنیکی فن جانتے ہیں۔

ان کے نزدیک جو وہ کہیں، جو وہ مانیں وہ قرآن کا حرف اور مخالف کی بات گویا ابو جہل کے منہ سے نکلی باز گشت ہو۔

ان جید صحافیوں میں ایسے ایسے بھی ہیں جو آپ سے کچھ دیرینہ پیشہ ورانہ واقفیت کی بنا پر فون کرتے ہیں اور کسی موضوع پر بات کر کے فون بند کر دیتے ہیں اور اگلے دن وہی نان آفیشل گفتگو کالم میں چھاپ دیتے ہیں۔ سچائی کے ان علم برداروں میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں ہوتی کہ موضوع پر آپ کی رائے جاننے سے پہلے یہ بتائیں کہ یہ گفتگو آفیشل اور کالم میں چھپنے کے لیے ہے۔ ویسے وہ سچائی کی بین جیب میں لیے پھرتے ہیں جب ضرورت پڑی بھینس بلکہ بھینسے کے آگے بھی بجانے سے دریغ نہیں کرتے۔

صحافت میں ایک ٹرم بہت مقبول ہے، وہ ہے آف دی ریکارڈ۔ ظاہر ہے کہ یہ آن دی ریکارڈ کے بر عکس ہے اور اخلاقیات کی حدود قائم رکھنے کی پابند سمجھی جاتی ہے۔

یہاں میں اس موضوع کو نہیں چھیڑ رہی کہ ”صحافی“ کی تعریف کیا ہے اور کون کون اس پر پورا اترتا ہے۔ ابھی میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ صحافی کا کام خبر دینا اور کالم نگار کا کام تجزیہ کرنا جبکہ اینکر کی صورت میں زبانی پیش کرنا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ”سچا“ ، غیر جانبدار صحافی ہمیشہ ایک طرف کے ”بیانیے“ کو سچ بلکہ ایمان سمجھے اور دوسری جانب کے ”بیانات“ کو ”کذب و ریا“ کے خانے میں رکھے اور ایسا ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے۔ یعنی اگر یہ معرکہ حق و باطل بھی ہے تو بھی ایک طرف والے اپنی جانب کو حق اور مخالف کو باطل سمجھیں اور ہمیشہ سمجھیں، ہر مسئلے میں سمجھیں اور مستقل سمجھیں۔ جبکہ دوسری جانب کا بھی اپنے حلیفوں کے لیے یہی ایمان ہو۔ اب کس کو حق سمجھیں اور کس کو باطل؟

ایسا کس طرح ممکن ہے کہ ایک گروہ ہر معاملے میں، ہر مسئلے میں، ہر وقت اور ہر جگہ لائق دشنام اور دوسرا ہر امتحان میں سرخرو ہو؟

کیا صحافت کی یہی تعلیم ہے؟ کیا خبر کا یہی مقام ہے اور کیا تجزیہ کاری، اپنوں کی کردار سازی اور غیر کی کردارکشی کا نام ہے؟

کیا تبصرہ نگاروں کو یہ بات پریشان نہیں کرتی کہ ان کے نام اور شکل سے پڑھنے اور سننے والوں کو پہلے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کس طرف کی بات کریں گے، موضوع چاہے کوئی بھی ہو۔ کچھ دوست یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ پوری تحقیق کے بعد اس ”پوزیشن“ پہ پہنچے ہیں۔ تو حضور ذرا سی پوزیشن بدل کر دیکھیں شاید آپ کو ”پرزم“ میں سے گزرتی سچ کے سورج کی کرن کے سارے رنگ نظر آنے لگیں۔

سچ، ادھورا سچ اور پورا سچ اس سارے قصے میں سب سے زیادہ قابل رحم کردار ہیں۔ ان پر کوئی ”ہتھ ہولا“ نہیں رکھتا۔ حالانکہ

وقت کے سقراط نے بولا ادھورا سچ نہیں
سچ کہا ہے آپ نے لیکن یہ پورا سچ نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments