لاچار بے بس کراچی


کراچی کے وسائل پر قبضے کی جنگ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور کچھ ہی دنوں میں میئر کراچی کا اعلان ہو جائے گا مگر ایسا لگتا ہے جیسے شہر قائد کے مسائل پر شاید ہی کسی کا دھیان ہو۔ ایک اندازے کے مطابق مقامی اور غیر مقامی تقریباً تین کروڑ نفوس پر مشتمل شہر کراچی کی تباہی کی ذمہ داری کسی ایک پر نہیں ڈالی جا سکتی، سب نے اپنا اپنا بھرپور حصہ ڈالا اور قصور ماننے کو کوئی تیار نہیں۔ پرویز مشرف کے وقت میں ماسوائے جناب نعمت اللہ اور مصطفی کمال کی کاوشوں سے ہونے والے ترقیاتی کاموں کو مائنس کر دیا جائے تو یہاں صرف تباہی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، سہولتوں کا فقدان عوام کا جنگل اور مسائل کے انبار ہی دکھائی دیتے ہیں۔

پورے ملک کی معیشت کو کاندھا دینے والا کراچی خود ہر وقت وینٹیلیٹر پر پڑا مصنوعی سانسیں لے رہا ہوتا ہے۔ یہ شہر بلاشبہ وہ واحد شہر سے جہاں پورے ملک سے ضرورت مند پاکستانی روزگار سے لے کر بھیک مانگنے تک کا سفر بخوشی قبول کرتے ہیں اور یہاں سے روزگار کما کر اپنے گھر والوں کی کفالت کرتے ہیں۔ بیرون شہر کے گداگروں کی کثیر تعداد ثبوت ہے کہ کرچی والوں کا دل بھی شہر کے مسائل کی طرح بڑا اور کشادہ ہے۔ مگر صاحب اقتدار یہاں کی عوام کے مسائل کو حل کرنے میں خاص سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔

گزشتہ دنوں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں زبردست مقابلہ دیکھنے میں آیا۔ مقامی جماعت ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے سبب دونوں جماعتوں نے اپنی جگہ مضبوط کی۔ جماعت اسلامی کرچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے گزشتہ کچھ سالوں سے کراچی میں جماعت کی ساکھ کو کافی حد تک بہتر کیا ہے انہوں نے انتہائی تندہی کے ساتھ یہاں کے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل کے حل کی کوششوں کے سبب بھی عوام میں خوب پذیرائی حاصل کی۔

جبکہ اس سے قبل جماعت اسلامی کراچی میں کافی حد تک سکڑ چکی تھی مگر حافظ نعیم کی غیر جانبدارانہ قیادت نے ایک بار پھر کراچی میں جماعت اسلامی کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا اور یہاں کی عوام ان کی صلاحیتوں کے معترف دکھائی دیے۔ حافظ نعیم نے عوام میں رہتے ہوئے سیاست کی اور کراچی کے دیرینہ مسائل کو اپنی سیاست کا محور بنایا جس کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو واضح نشستیں ملیں جس کا تمام کریڈٹ حافظ نعیم الرحمان کو جاتا ہے جبکہ دوسری طرف صوبے کی اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی ایم کیو ایم کی بگڑتی اور غیر مقبول لیڈر شپ کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کے ساتھ مردم شماری میں کراچی والوں کو کم گنے جانے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابات میں ٹاپ کیا اور مئیر کراچی کے لئے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئی۔

پیپلز پارٹی سے لاکھ اختلافات ہونے کے باوجود، موجودہ سندھ قیادت کی جانب سے کراچی میں جاری ترقیاتی کام اور ٹرانسپورٹ کے دیرینہ مسائل کے حل کے حوالے سے ان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ سابق میئر کرچی وسیم اختر کے وقت میں وسائل اور فنڈز کی کمی اور مسائل کے انبار نے یہ تو ثابت کر دیا کہ میئر اس ہی جماعت کا ہو جس کی صوبے میں حکومت ہے جو فنڈز صوبائی حکومت سے بلدیات میں منتقل کرے۔ اگر اس بار پیپلز پارٹی کا میئر آ جاتا ہے جس کے واضح امکان ہیں اور میئر خود کو اہل ثابت کر دیتا ہے تو کچھ شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کو آئندہ جنرل الیکشن میں کراچی کی عوام خوب ووٹ دے کر پی پی کے احسان چکتا کردے گی۔

کراچی کی عوام اپنے روزمرہ کے مسائل سے اب اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ انہیں اب سیاسی پارٹیوں سے نہیں بلکہ کراچی کے حالات بدلنے والوں سے مطلب ہے جس کا واضح ثبوت پی ٹی آئی کراچی کی قیادت ہے جس نے جنرل الیکشن میں کراچی سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی مگر گزشتہ چار سال میں ان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی کراچی والوں سے اظہار لاتعلقی کو عوام نے مسترد کر دیا۔ بلدیاتی انتخابی نتائج ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

مقتدر قوتوں کو سوچنا ہو گا کہ شہر قائد پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کے عوام کے الیکٹرک کے ظالمانہ، ناجائز بلوں کی ادائیگیوں سے لیکر، مہنگائی، بے روزگاری روزانہ گلی محلے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں اپنے قیمتی مال سے محروم ہونے کے باوجود اگر پورے ملک کی معیشت کا پہیہ چلا سکتے ہیں تو اگر انہیں عام زندگی کی سہولیات مل جائیں، جن کے یہ حق دار ہیں تو پورے ملک کے لئے کتنا سود مند ہو سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments