آج ہماری، کل تمہاری باری ہے


گزشتہ روز تحریک انصاف کے لیڈر بابر اعوان نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے عمران خان کی تقاریر نشر کرنے اور ان کی تصویر دکھانے پر پابندی لگائی ہے۔ اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ ملکی میڈیا میں ان ہدایات پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ اس طرح عمران خان کو تنہا اور سیاسی طور سے کمزور کرنے کے لئے ایک نیا ہتھکنڈا بروئے کار لایا جا رہا ہے۔

بظاہر حکومت سانحہ 9 مئی کے بعد توڑ پھوڑ، تشدد اور آتش زنی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ عوام کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس روز عمران خان کی گرفتاری کے رد عمل میں جو سانحات پیش آئے، وہ تحریک انصاف کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ ان الزامات کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ بھی سرکاری املاک، عسکری تنصیبات اور قومی یادگاروں پر حملوں اور انہیں تباہ کرنے میں براہ راست ملوث تھے، ان کی نشان دہی کی جائے اور جرم کے مطابق انہیں سزا دی جائے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ ان واقعات میں تحریک انصاف کی قیادت کس حد تک ملوث تھی۔ اگر بعض لیڈروں کے خلاف ایسے شواہد سامنے آتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہنگامے کرنے اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی قبل از وقت منصوبہ بندی کی تھی یا اس روز خود ان کارروائیوں کی قیادت کرتے ہوئے لوگوں کو اشتعال دلا کر حملوں پر آمادہ کیا تھا تو انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

اس حد تک یہ سرکاری حکمت عملی قابل فہم ہے۔ لیکن ریاست پاکستان نے جیسی ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا ہے اور جس شدت سے تحریک انصاف اور اس سے وابستہ لوگوں کو ہراساں کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے، وہ کسی بڑے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ جوں جوں اس بارے میں شبہات پیدا ہوں گے، توں توں تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف حکومت کا مقدمہ کمزور ہو گا۔ اس وقت ملک پر حکومت کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور عسکری قیادت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے عوام کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف بھی تسلسل سے 9 مئی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے قصور واروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان کرنے کے علاوہ اس نکتہ پر خاص طور سے زور دیتے ہیں کہ یہ حرکت کرنے والے عناصر نے درحقیقت پاک فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ فوج اسے ملک دشمنی تصور کرتے ہوئے، ایسے عناصر کو نشان عبرت بنانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم اور حکومت کے دیگر ارکان بھی ملک و قوم کو درپیش دیگر متعدد مسائل کے باوجود گزشتہ دو ہفتے سے صرف 9 مئی کے حوالے سے بیان دے رہے ہیں اور کسی بھی طرح تحریک انصاف اور عمران خان کو مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حکمت عملی جان بوجھ کر اختیار کی گئی ہے۔ اور اس کا واحد مقصد عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے۔

تاہم عسکری قیادت ملکی سیاست میں طویل تجربہ اور حکومتی لیڈر عوامی احساسات کے نباض ہونے کے ناتے بخوبی جانتے ہوں گے کہ صرف بیان دینے، پابندی لگانے، ہراساں کرنے، لوگوں کی گرفتاریوں اور ایک سیاسی پارٹی کو منتشر کرنے کے اقدامات سے عوام کو اس بات پر قائل نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سب کچھ کسی ایک روز ہونے والے واقعات کی سزا دینے کے لئے ہو رہا ہے۔ احتساب اور جواب دہی کے جس عمل میں بھی شفافیت نہیں ہوگی، اس کے بارے میں سوالات اٹھائے جائیں گے۔ انسانی حقوق کے بارے میں تشویش کا اظہار ہو گا اور ملک میں جاری انتظام کے بارے میں شبہات پیدا ہوں گے۔ پاکستان کے سیاسی پس منظر اور تحریک انصاف کی عوامی اپیل کے تناظر میں لازم تھا کہ ان پہلوؤں کا خیال رکھا جاتا۔ 9 مئی کو رونما ہونے والے واقعات میں ملوث افراد کو ضرور پکڑا جاتا لیکن ملک میں خوف اور انتقامی کارروائی کا تاثر پیدا نہ کیا جاتا۔ ایسا اقدام کر کے حکومت اور فوج صرف انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے اداروں یا افراد کی نکتہ چینی کا نشانہ ہی نہیں بنیں گی بلکہ عام لوگ بھی ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ چند واقعات پر چند سو افراد کو سزا دینے کے لئے ملک میں ہیجان اور سراسیمگی کی کیفیت کیوں پیدا کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوف پیدا کرنے کی حکومتی حکمت عملی عوام اور اداروں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ ان میں فوج اور حکومت دونوں شامل ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک میں بنیادی تنازعہ انتخابات کے حوالے سے ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ ہزار اختلاف کے باوجود ان کے اس مطالبے کو غلط نہیں کہا جاسکتا کہ ملک میں انتشار ختم کرنے اور بحران سے نمٹنے کے لئے انتخابات منعقد ہونے چاہئیں۔ انتخابات کے بارے میں اگر عمران خان کے مطالبہ سے ہٹ کر بھی غور کیا جائے تو بھی یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اگست میں تمام اسمبلیوں کی مدت پوری ہو رہی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں جنوری کے دوران توڑی جا چکی ہیں۔ ملکی آئین کے تحت ان صوبوں میں 90 دن کے اندر انتخابات ہونے چاہیے تھے لیکن حکومت آئینی موشگافیوں سے مسلسل انتخابات کے سوال کو نظر انداز کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک میں عام انتخابات ایک ہی روز ہونے چاہئیں۔ اگر یہ اصول بھی مان لیا جائے تو بھی حکومت کیوں انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ واضح نہیں کیا جاتا کہ بجٹ کے بعد اسمبلیاں توڑ کر نگران سیٹ اپ قائم کر دیا جائے گا تاکہ ستمبر اکتوبر تک عام انتخابات منعقد ہو سکیں۔

یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ انتخابات کے سوال پر حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والی بات چیت میں حکومت نے جولائی میں اسمبلیاں توڑنے اور اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انتخاب کروانے کی پیش کش کی تھی لیکن عمران خان کے الٹی میٹم کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو بھی حکومت کو ’یک طرفہ‘ طور سے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے سے کون روک رہا ہے؟ اس صورت میں اگر عمران خان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومتی پارٹیاں انتخابات سے بھاگ رہی ہیں تو ان کی بات میں وزن دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد کو یہ موقف درست لگتا ہے۔ اس مباحثہ کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ حکومت اس سوال پر نہ صرف اپنی آئینی ذمہ داری سے گریز کر رہی ہے بلکہ عوام کا اعتبار بھی کھو رہی ہے۔

پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نگران حکومتیں قائم ہیں جو آئینی طور سے 90 روز سے زیادہ کام نہیں کر سکتیں۔ حکومت کی طرف سے سیاسی بیان بازی کے ذریعے شعبدے دکھانے کی کوشش تو کی جاتی ہے لیکن اس آئینی سقم کو دور کرنے کے لئے کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔ حکومتی پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے، اس لئے آئینی ترمیم لانا اس کے بس میں نہیں۔ لیکن حکومت اگر اس معاملہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کر کے غیر معمولی حالات کی وجہ سے نگران سیٹ اپ میں توسیع کی درخواست کر سکتی تھی۔ ایسے اہم آئینی سوال پر خاموشی اختیار کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ حالات معمول کے مطابق ہیں، عوام کو جمہوریت سے نالاں کرنے اور حکومت کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

انتخابات اور نگران سیٹ اپ کے علاوہ 9 مئی کے بعد حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ہنگامی اقدامات بھی غیر ضروری اور شہری آزادیوں کی خلاف ورزی ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ایک دو روز ضرور احتجاج ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے ملک بھر میں حالات پرسکون ہیں لیکن حکومت نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں فوج طلب کر رکھی ہے۔ دریں حالات اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور ان کے حامیوں کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ ملک میں غیر علانیہ مارشل لا نافذ ہے۔ ایسی حکومت جو بزعم خویش وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا آئینی حق استعمال کر کے قائم ہوئی تھی، اس حکومت کو تو بہر طور آئینی تقاضوں اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنی ہی چاہیے۔ اس کے برعکس مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ میڈیا پر پابندی، سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور انتخابات کے بارے میں خاموشی سے صریحاً غیر جمہوری اور غیر آئینی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب علی الاعلان شہریوں کے مقدمے فوجی عدالتوں میں چلانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اس قسم کے اقدامات عوام کو ناراض کرنے ہی کا سبب بنتے ہیں۔

یہ بوالعجبی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ 9 مئی کے احتجاج میں ملوث تحریک انصاف کے جو لیڈر پارٹی سے قطع تعلق کا اعلان کر رہے ہیں، ان کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ گویا 9 مئی کے مجرمانہ اقدامات کو عذر بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ عسکری اداروں کے دباؤ کی وجہ سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ لیکن ملک میں اس وقت ایک ’منتخب‘ حکومت موجود ہے، پارلیمنٹ کام کر رہی ہے اور وزیر اعظم شہریوں کے حقوق کے محافظ ہیں۔ پھر ان کی نگرانی میں کیوں کر فوجی ادارے سیاسی لیڈروں پر دباؤ ڈالنے میں مصروف ہیں۔ کیا یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اب ملک کا آئین فوجی خواہش و احکامات کے تابع ہو گا؟

ان ہی حالات میں آج عمران خان نے بجا طور سے یاد دلایا ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ کا پلان اے سے پلان بی میں جانے کا پتا نہیں چلتا۔ جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ پی ڈی ایم والے سمجھتے ہیں کہ وہ بچ جائیں گے۔ جب پلان بی بنے کا تو آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا‘ ۔ یہ بات اس حد تک سو فیصد درست ہے کہ ملکی تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس طریقہ سے استفادہ بھی کرچکی ہیں اور اس کی وجہ سے سزا بھی پاتی رہی ہیں۔ تاآنکہ شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے عوام کے آئینی حقوق کے لئے کام کرنے کا عہد کیا۔ اس طرح بالواسطہ طور سے ماضی میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا گیا۔ البتہ عمران خان اب بھی اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کر کے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ماضی میں اسٹبلشمنٹ کی سیاسی ضرورت میں آلہ کار بننے پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کرتے۔

تاہم اس کے باوجود ملکی تاریخ کی یہ سچائی تبدیل نہیں ہو سکتی کہ ’آج میری تو کل تمہاری باری ہے‘۔ دوسروں کے خلاف غیر منصفانہ اقدامات کا حصہ بنتے ہوئے موجودہ حکومت میں شامل سب جماعتوں کو اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments