گداگری ایک معاشرتی المیہ


چند دن پہلے ایک صاحب نے اپنا تجربہ سنایا کہ میں دن کی آخری نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا تو مسجد سے نمازیوں کی بڑی تعداد جا چکی تھی، مسجد کے باہر والا حصہ قریب قریب سنسان تھا، کھلے حصے میں ایک جانب ایک شخص چادر بچھا کر مسواک، تسبیح اور دینی کتب بیچ رہا تھا، اس نے اپنا منہ چھپا رکھا تھا جبکہ دوسری جانب ایک درمیانی عمر کی گداگر عورت کھلے منہ بیٹھی تھی، آدمی کو دیکھ مجھے لگا کہ یہ واقعی نادار و ضرورتمند ہے مگر ہاتھ پھیلانے کی بجائے کچھ کام کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔

میں اس کے پاس چلا گیا اور جاکر کہا کہ ایک مسواک دے دیں، اس نے ایک مسواک دی اور میں نے اسے سو روپے کا نوٹ دیا، اس نے بڑی کوشش کی مگر اس کے پاس نوے روپے نہ تھے، میں نے ایک مسواک اور لے لی مگر وہ اب بھی بقایا دینے سے قاصر تھا، تو میں اس عورت کے پاس گیا اور کہا کہ وہ دس روپے رکھ کر باقی پیسے لوٹا دے، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس عورت کا تھیلا نوٹوں سے بھرا ہوا تھا، اس نے فوراً مجھے نوے روپے لوٹا دیے، میں نے اس شخص کو بیس روپے دیے جو پورا دن گزار کر بھی سو روپے نہیں کما سکا تھا، اگر ہم یہ مان لیں کہ اس نے دن کے آخر تک سو روپے کما بھی لئے تو اس کا کل منافع بیس یا پچیس روپے سے زیادہ نہ ہو گا، تو وہ ان بیس تیس روپے میں گھر کیسے چلا سکتا ہے، جبکہ وہ جائز طریقے سے روزی کمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ ایک گدا گر عورت کے پاس نوٹوں سے بھرا تھیلا میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہا تھا۔

جب موبائل کیمرے عام نہ تھے تب بھی گاہے گاہے یہ خبریں کانوں میں پڑتی رہتی تھیں کہ جب نوٹ تبدیل ہو رہے تھے تو فلاں گداگر نوٹوں سے بھری بوریاں لے کر آیا تھا تبدیل کرانے کے لئے، مگر تب لگتا تھا کہ شاید یہ کوئی من گھڑت فرضی کہانیاں ہوں، مگر اب تو بے شمار ایسی ویڈیوز رمضان کے دنوں میں وائرل ہوئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گداگروں کے پاس واقعی بوریاں بھر بھر کر نوٹ ہیں ہیں اور ان کے جہاں ہاتھ لگاؤ وہاں سے نوٹ برآمد ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

االلہ کے نبی ﷺ نے اوپر والے ہاتھ کو نیچے والے ہاتھ سے افضل فرمایا ہے، یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اس حدیث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے سوال کرنے یا بھیک مانگنے کی حوصلہ شکنی کی ہے اور ناپسند بھی فرمایا ہے۔

تو پھر ہمارے نام نہاد اسلامی معاشرے میں گدا گری کیوں پھل پھول رہی ہے جبکہ عام سفید پوش انسان کا مہنگائی کے ہاتھوں جینا مشکل ہے۔

یوں تو دنیا بھر میں ہر جگہ گدا گر موجود ہوتے ہی ہیں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی آپ کو ٹکرا ہی جاتا ہے، یہاں تک ہم نے دیکھا ہے کہ تمام تر سختیوں کے باوجود سعودی عرب جیسے ملک میں بھی آپ کو گداگر مل جائیں گے، مگر ان کا طریقہ واردات کچھ ذرا مختلف ہو گا اور تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے یہاں گداگری تو ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہے، بڑے بڑے مافیا اس میں شامل ہیں جو کروڑوں کے مالک ہیں، یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک لڑکی باقاعدہ انٹرویو میں کہہ رہی تھی کہ اس کی شادی بہت ہی امیر لوگوں میں ہوئی جو پراڈو گاڑی رکھتے تھے بڑے سے گھر میں رہا کرتے تھے، مگر کچھ دن بعد اس لڑکی نے دیکھا کہ وہ پورا گھرانا باقاعدگی سے گداگری کیا کرتا ہے۔

اس طرح کے تمام لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عزت تو آنی جانی شے ہے، بس پیسہ ملنا چاہیے لہذا آپ کسی ٹریفک سگنل پر ہوں، گلی کوچوں میں ہوں، مسجد میں ہوں یا کسی بھی عوامی جگہ پر ہوں گداگر آپ کو ڈھونڈ ہی لے گا اور اتنا زچ کرے گا کہ آپ کو کچھ نہ کچھ دیتے ہی بنے گی۔ اب سے دس بیس سال پہلے گداگر گلیوں میں کھانا مانگا کرتے تھے اور لوگ انہیں کھانا دیا کرتے تھے جو وہ لے کر خوشی خوشی دعائیں دیتے ہوئے چلے جاتے تھے، مگر اب کوئی گدا گر پیسے کے علاوہ بات ہی نہیں کرتا۔

ہمارے ملک میں گداگر انڈسٹری اتنی بڑھ چکی ہے کہ ان کی پشت پر باقاعدگی سے خطرناک گروہ موجود ہیں جن کے تعلقات اوپر تک ہوتے ہیں، یہ اس انڈسٹری میں نئے نئے رجحانات کو متعارف کرا رہے ہیں جن میں بچوں کو اغواء کرنا، ان کے اعضاء کو توڑ کر اس طرح بنا دینا کہ ان کی معذوری کو دیکھ کر لوگ زیادہ سے زیادہ بھیک دیں۔ یہ ایسا میک اپ کرنے کے بھی ماہر ہوتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ بہت زخمی ہیں یا بیمار ہیں، بوڑھے گداگر یا بچے کرائے پر بھی ملتے ہیں جنہیں با آسانی دوسرے گداگر اپنی ضرورت کے مطابق حاصل کرتے ہیں اور عوام سے پیسہ بٹورنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، کتنے گداگر ایسے ملیں گے جو وہیل چیئر پر معذور بنے بیٹھے ہوں گے، مگر وہ معذور نہیں ہوتے، بالکل اسی طرح کئی زمیں پر لوٹ لگا رہے ہوں گے مگر پکڑ کر ذرا بات کریں تو بھاگتے نظر آئیں گے، اس ہی طرح نابینا بن کر اپنے جھوٹ موٹ کے بیوی بچوں کے ساتھ بھیک مانگنے والے اچانک بھاگ کر موٹر سائیکل پر فرار ہوتے دیکھے گئے ہیں، اس کے علاوہ یہ گروہ، اغواء، چوری، ڈکیتی اور کبھی کبھی قتل جیسے گھناؤنے جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ گروہ بچیوں کو بھی اغواء کرتے ہیں اور کم عمری میں ان سے گداگری کرواتے ہیں اور جوان ہونے کے بعد ان کو غلط مقاصد یا دھندے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ غرض یہ گداگر مجبور و لاچار نہیں بلکہ باقاعدہ منظم طریقے پر چلنے والی جرائم کی تنظیمیں ہیں۔

یہ گروہ ملک و ملت کے لئے جتنا سوچیں اس سے کہیں زیادہ نقصان اور تکلیف کا سبب ہیں۔ گداگری نے اب باقاعدہ پیشے کی شکل اختیار کرلی ہے اور پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے ڈھائی کروڑ تک گداگر موجود ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں سرگرم عمل ہیں۔ رہی سہی کسر ان لنگر خانوں نے پوری کردی ہے جو مختلف سماجی اداروں نے ہر گلی ہر چوک میں قائم کیے ہوئے ہیں جہاں ناداروں اور مجبور ضرورت مندوں سے زیادہ مفت خوروں، موالیوں، نشئی اور کام چوروں کا ہجوم لگا رہتا ہے، مجبور و لاچار لوگوں سے زیادہ یہاں ہڈ حرام لوگوں کی بڑی تعداد مفت کھانے سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے، جن میں یہ پیشہ ور گداگر پیش پیش ہوتے ہیں جہاں ان کا کچھ خرچہ کھانا پینے پر ہوتا تھا اب وہ بھی بچ جاتا ہے اور یہ دن بہ دن خوب امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔

اس لعنت کا سد باب کیسے ہو، باوجود اس کے کہ لوگوں کی بڑی تعداد ان پیشہ ور بھکاریوں سے سخت نالاں ہے مگر ان کے خلاف کبھی بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے، اس کی ایک بڑی وجہ وہ ضعیف الاعتقادی ہے کہ اگر ان کو نہ دیا تو یہ بد دعا دے دیں گے، دوسرا پوری قوم میں یہ لگن ہے ہی نہیں کہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے معاشرے میں سدھار پیدا ہو اور تیسرا یہ کہ حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات کا نہ ہونا بھی ان کے پھلنے پھولنے کی بڑی وجہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر ان پیشہ ور گداگروں کی نفی کرے انہیں پیسے دینے سے گریز کریں، دوم یہ کہ سماجی بھلائی کی تنظیموں کو آگے آنا ہو گا، اور عملی طور پر ان گداگروں کو کھانا اور دیگر امداد دینے سے نہ صرف خود رکنا ہو گا بلکہ دوسروں کو روکنے کی کوشش بھی کرنا ہوگی، بلکہ اس کھانے کے پیسے سے ان گداگروں کو ہنر سکھانے کے مراکز قائم کیے جانے چاہیں۔ تاکہ کم سے کم نو عمر گداگر تو اس لعنت سے بچ سکیں۔

سوم یہ کہ حکومت کو سخت اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ساتھ ساتھ باقاعدہ قانون سازی کرنا ہوگی تاکہ ان مافیاز کو لگام دی جا سکے، اور ان کے سرپرستوں پر بھی ہاتھ ڈالنا ہو گا، تب ہی اس رجحان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اگر یہ کام مصمم ارادے اور نیک نیتی کے ساتھ شروع کیے گئے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وقت ضرور لگے گا مگر اس کے ثمرات آنا شروع ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ان کی جڑیں معاشرے میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں اس لئے مشکلات کا آنا عین ممکن ہے مگر ارادے مضبوط اور نیت صاف ہوگی تو اس معاشرتی بیماری سے نجات ضرور ممکن ہے۔ مگر لازم ہے کہ سب مل کر کام کریں، وہ عوام ہو یا حکومت یا کوئی سماجی تنظیم سب نے اگر مل کر ایک ایجنڈے پر کام کیا تو یہ معاشرے کا ناسور ختم نہ صحیح بہت حد تک کم ضرور ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments