ایک غدار کا دوسرے کو خط


یہ خط لندن والے بھائی نے موجودہ حالات میں غداری سلسلے کے نئے چشم و چراغ عمران احمد خان نیازی کے نام بھیجا ہے، یہ خاکہ طنز، مسخ شدہ سچائی اور کڑوے ریاستی گھونٹ پر مبنی ہے، اس کا حقیقت سے بظاہر کوئی تعلق نہیں۔

ڈیئر مسٹر خان،

امید کرتا ہوں خیریت سے ہوں گے، تمہارے بھی نام، بیان اور تصویر پر پابندی لگ گئی؟ اب میں تمہیں پیار سے بھی بھائی بلاؤں گا تو تمہیں لگے گا میں تمہیں چھیڑ رہا ہوں۔ تم آج کل پریشان ہو تو سوچا تمہاری مشکل کا ساتھی بن جاؤں۔ یہاں لندن میں تمہارے لڑکے روز شور مچاتے ہیں مگر دکانیں بند نہیں کرواتے، حیرت ہے تمہیں یہ ہنر کسی نے نہیں سکھایا۔ سکھانے سے مجھے میرے محسن جناب ضیاء یاد آ گئے، کیا کمال مہارت سے انہوں نے ہم کراچی کے لڑکوں کو تیار کیا تھا۔ خیر کیسی عجیب بات ہے کہ میری سیاست کو بشری (سر سید یونیورسٹی والی بشری زیدی) نے دوام بخشا اور تمہاری سیاست کو بھی ایک بشری نے ہی کنارے لگایا۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ 22 اگست 2016 کو نعرہ لگانے کے بعد گھنٹوں میں میرے تمام ساتھی مجھ سے چھڑوا دیے گئے، لیکن تم اپنی حکومت کے خاتمے کے ایک سال بعد تک زہر اگلتے رہے اور تمہیں کسی نے کچھ نہیں کہا، ہم تو فوراً راء کے ایجنٹ ہو جاتے تھے بھائی! کہیں تمہارے بچ جانے کی وجہ یہ تو نہیں کہ تم کراچی سے نہیں ہو؟ حالانکہ کام ہم دونوں نے ایک جیسے ہی کیے جیسے میں نے مودی سے مدد مانگی اور تم نے اس کے الیکشن جیتنے میں مدد کا سامان کیا، دعا کی بلکہ کشمیر کی صورت دوا بھی دی۔ نہیں نہیں ہم ایک جیسے نہیں بلکہ تم مجھ سے دو ہاتھ آگے ہی ہو۔

ہم دونوں کی زندگی میں دو اور چیزیں بھی مشترک ہیں، ایک مئی اور دوسرا ’جناح‘ ۔ ایک مئی 2007 میں گزرا جب ”ان“ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہم نے پورا شہر قابو کیا تھا، مجال ہے افتخار چوہدری کو ہم نے باہر نکلنے دیا ہو۔ قربان جاؤں مرحوم مشرف پر جنہوں نے اسی شام اسلام آباد میں مکے لہرا کر طاقتور ہونے کا ثبوت دیا۔ ان مکوں کو لہرا کر ہمارے سیاہ کو سفید کیا گیا لیکن تمہاری باری کسی نے انگلی بھی انہیں اٹھائی، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم نے 2011 سے 2018 تک جو کیا، پھر اپنے دور اقتدار میں اور اس سب سے کہیں بڑھ کر جو اقتدار سے باہر آ کر کیا وہ کس کا منصوبہ تھا؟ کون تمہارے کندھے کا استعمال کر کے فیض یاب ہونا چاہتا تھا؟

میرے جناح پور والے معاملے پر تو آج تک تضاد ہے، گو کہ انہوں نے خود تردید کی تھی لیکن پھر بھی جب جس کا دل کرتا ہے ہم پر وہی الزام لگا دیتا تھا۔ تمہارے جناح ہاؤس والے معاملے پر تو خیر سب یک زبان ہیں، تم نے کام بھی کچھ ایسا کیا ہے۔ لیکن تمہارے خلاف ردعمل کا تعین کیوں نہیں ہو پا رہا؟ تمہارے پاس آخر کیا گیدڑ سنگھی ہے؟ مجھے بھی بتانا۔

مجھے ایک چیز کا دکھ ہے، بانوے میں جب تم کھیل کود کر رہے تھے اور ہمارا ”کلین اپ“ ہو رہا تھا تب ہمیں ملک دشمن، شدت پسند، غدار راء کا ایجنٹ کیا کچھ نہیں کہا جاتا تھا مگر مجال ہے میں نے کبھی برگیڈیئر امتیاز احمد یا پھر نصیر اللہ بابر کو کبھی کسی نام سے پکارا ہو، میں نے ہمیشہ صاحب اور بھائی کہہ کر عزت دی گرچہ اختلاف بھی برقرار رکھا۔ ظاہر ہے یہ سلیقہ اسٹوڈنٹ یونین اور سڑکوں پر خاک چھان کر آتا ہے اور تمہیں ان دونوں کا تجربہ ہی نہیں تبھی تم اس کھیل میں ”ڈرٹی“ ہو گئے۔

آج دل کی باتیں کہہ ہی رہا ہوں تو یہ بھی کہہ لینے دو کہ مجھے بلاول اور پیپلز پارٹی کے سیاسی ارتقاء پر خوشی ہے، ایک طرف محترمہ کی حکومت تھی اور ہمیں کرش کیا جا رہا تھا ہماری سیاسی حقیقت کو غداری اور بھارت کے ساتھ جوڑا جا رہا تھا اور اب جب بلاول بڑا ہو گیا ہے تو نہ ہی غداری کے الزام لگاتا ہے نا پابندی کے نعرے، پیپلز پارٹی نے بڑا سیکھا ہے۔ شکر کرو تمہاری بچت کے لئے مخالفین میں بھی کوئی حقیقت پسند ہے ورنہ بلیو فاکس کے نام پر دو سال ایک مہینے سے زائد جاری رہنے والے اس محاذ میں بے نظیر، نواز شریف اور ”وہ“ سب ایک طرف تھے۔ ویسے نواز شریف نے بھی کچھ نہیں سیکھا، ضیاء صاحب جہاں تک لائے وہ وہیں کھڑے ہیں، اچھی سڑکیں اور چلتی معیشت کے ساتھ اگر نظریہ بھی ہوجاتا تو کمال ہوتا ستم تو یہ ہوا کہ ان دونوں سے جان چھڑانے کو تم آئے، نہ معیشت، نہ معاشرت نا نظریہ اور نہ سلیقہ، الامان الحفیظ!

تمہیں سیاست میں آ کر کیا ملا؟ یہ سوال خود سے کرنا کیوں کہ میں اکثر یہ سوال اپنے آپ سے کرتا ہوں، میں اب وطن سے دور غدار لیبل کے ساتھ بیٹھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں کراچی کا ہٹلر تھا، میں نے نظریے سے سیاست کا آغاز تو کیا لیکن وقت کے ساتھ میری سیاست دہشت میں بدل گئی، تم بھی مجھے طعنے دیتے تھے لیکن جنہیں مجھے طعنے دینے چاہیے تھے وہ بھائی بھائی کہتے نہیں تکتے تھے، سب ڈرتے تھے اور میری شخصیت کے اسیر تھے، اگر میرا خوف ختم ہو جاتا تو مجال ہے کوئی پتنگ پر مہر لگاتا؟

تم آج کل میرے جیسی باتیں کر رہے ہو، کہتے ہو جس کو ٹکٹ دوں گا وہ جیت جائے گا میں بھی کہتا تھا میرے ٹکٹ پر کھمبا جیت جائے گا۔ اب میں اپنے بیانات پر ہنستا ہوں، تم بھی کسی دن ہنسو گے، کیوں کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ کھمبے تب جیتتے ہیں جب ڈنڈے ساتھ ہوں اور مرضی منشاء و آشیر باد ہو۔ یہ ہے مقبولیت یہی ہے حقیقت، تم پتہ نہیں کس دنیا میں رہتے ہو۔

جناح ہاؤس پر حملہ کرنے جیسی حرکت کبھی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، میں ہمیشہ سمجھتا تھا تم اس لڑائی میں اس حد تک نہیں جاؤ گے لیکن پھر تمہیں ملے بے پناہ لاڈ پیار نے تمہیں حدود کا تعین کرنے کا موقع ہی کہاں دیا، تم نے اس لڑائی سے کیا سیکھا؟ یہی سیکھا نا کہ حقیقت سے نہیں ٹکراتے۔ تم نے بھی اب انہیں حقیقت کہنا شروع کر دیا ہے، اچھا ہے۔ صلح بھی کرلو کہ اب بھی بہت دیر نہیں ہوئی، تھوڑا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کارکنوں کو بچاؤ جنہیں میں 2016 میں نہ بچانے پر شرمندہ ہوں، دروازے بند نہ کرو کیوں کہ پھر وہ دروازے توڑ کر اندر آتے ہیں، معافی مانگ لو کہ تمہیں معاف کر بھی دیا جائے گا۔

خیال رکھو کہ غداری اک گناہ ہے، لقب ملتے ہی اپنے پرائے سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ غدار تو کوئی نہیں ہوتا بس ثابت کر دیا جاتا ہے، تم اس ثبات سے بچنا۔ خیال رکھنا۔

تمہارا،
بھائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments