”ہم“ کا نفسیاتی رویہ


لفظ ”ہم“ ایک ایسی محفوظ پناہ گاہ ہے جس میں ہر قسم کی لاپروائی، سستی، کاہلی، غفلت اور غیر ذمہ داری چھپ جاتی ہے۔ میں، آپ، یہ وہ، تم، تو، وہ، سب، اور اس طرح کے الفاظ میں ذمہ داری اور الزام عائد کرنے کی پوری گنجائش موجود ہے لیکن جب ایک انسان خود کو ”میں“ کہنے کی بجائے ”ہم“ کہہ کر بات کرتا ہے، رائے دیتا ہے تو سمجھ جائیے کہ یہ ایک غیر ذمہ دار اور لاپروا انسان ہے۔ اس نے ہر اچھے کام کا کریڈٹ خود لینا ہے اور برے کام کی ذمہ داری ”وہ، ان، سب، تم، تو“ پر ڈالنا ہے۔

یہ رویہ ہمارے ہاں اتنا وائرل ہو چکا ہے کہ اب اس لفظ کی آڑ میں بڑے سے بڑا نقاد، مورخ، مبلغ، سیاست دان، کمانڈر اور مذہبی پیشوا چھپا ہے اور مزے سے میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کر رہا ہے۔ ذیل میں دیے ہوئے اقتباسات کو پڑھئے جن میں لفظ ”ہم“ سے بات شروع ہوئی اور پھر کس خوبصورت انداز میں ناصحانہ فریضہ نبھاتے ہوئے خود کو پتلی گلی سے نکال کر محفوظ بنایا گیا ہے۔

٭۔ ہم عجیب لوگ ہیں ؛اپنی بات پر ڈٹے رہنے اور اپنے آپ کو برباد کر لینے والے، ویسے ہمارے اندر کچھ نہ ہو لیکن اپنوں کے لیے ضد اور انا کمال کی ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو زندگی بھر کا سبق سکھانے کے لیے ہم نشان عبرت بن جاتے ہیں، ہم مستقل اذیت میں رہنا قبول کر لیتے ہیں لیکن اپنے موقف کو بدل کر، کسی خوشگوار احساس میں جانا پسند نہیں کرتے۔ اہم انا میں بھی اذیت برداشت کرنے سے گریز ہیں ؛لیکن انا کو چھوڑنے کے احساس کی اذیت برداشت کرنے سے گریز کرتے ہیں، چاہے اس میں بہتری اور خوشی کے کتنے ہی امکانات کیوں نہ موجود ہوں۔

٭۔ ہم ساری عمر دوسرے کو اپنی محبت کا یقین دلانے میں گزار دیتے ہیں ؛پتہ نہیں اس کے یقین کر لینے سے ہمیں کس چیز کی توقع ہوتی ہے اور وہ یقین نہیں کرتا، تو کس چیز کا نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔

٭۔ ہمارے اندر محبت ہے ہی نہیں، ہم محبت سے بھرے ہوئی ہی نہیں، ہمارے اندر سے کسی کے لیے محبت کہاں سے نکلے۔ ہمارے اندر خوشی ہے ہی نہیں۔ ہم نے خوشی محسوس ہی نہیں کی کبھی، ہم کسی کو خوش کیسے رکھیں۔ ہم کسی دوسرے کو وہی دیتے ہیں جو ہمارے اندر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہمارے گھر اور ہمارے معاشرے نے، آپ دیکھیں تو سہی آپ اپنے پارٹنر سے جس چیز کی توقع رکھتے ہیں، وہ اس کے اندر ہے بھی کہ نہیں۔

٭۔ کاش ہم انسانیت کے نام پر ایک کام ہی کر لیں۔ ہم کسی کی بیوی، کسی کے مرد کو پھانسنا چھوڑ دیں۔ ہم میں اتنی حیا، اتنی انسانیت ضرور ہونا چاہیے۔

٭۔ ہم قومیتوں اور نسلی تعصبات میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔ ہم نہیں نکل پاتے مذہب اور رنگ و نسل کی تمیزوں سے۔ لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ دو رشتوں میں ان زنجیروں سے میں بھی نکل جاتا ہوں۔ ایک جب میاں بیوی کو ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے دیکھوں تو چاہے وہ انڈیا کے ہندو ہوں یا امریکا کے انگریز؛مجھے اچھے لگتے ہیں اور دوسرا جب ماں بچے کی محبت کا کوئی منظر دیکھنے کو مل جائے۔ بس یہ دو رشتے مجھے حدود قیود سے نکلنے کی مہلت دیتے ہیں کچھ دیر کے لیے۔

٭۔ ہم اپنا مستقبل بنانے میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ بزنس سیٹ کرنے میں برس ہا برس لگا دیتے ہیں لیکن شادی کو خوشگوار بنانے میں ضد اور لڑائی کے علاوہ کسی چیز کو کنٹری بیوٹ نہیں کرتے۔

٭۔ ہم سب ایک جیسی عزت نفس کے مالک نہیں ہوتے اور مختلف عزت نفس والے ؛جنھیں عرف عام میں کم عزت نفس والے لوگ کہا جاتا ہے ؛حقیر نہیں ہوتے، بس مختلف ہوتے ہے۔ یہ ایزی گوئینگ، نرم خو، نرم مزاج، بردبار، عفو درگزر کے عادی لوگ ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ان کی عزت نفس نہیں ہے ؛وہ بے عزت، ذلیل اور حقیر ہیں ؛حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ وہ بس معاف کر دیتے ہیں اور زندگی میں ان کا طریقہ محبت، خلوص اور تابعداری ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے لیے وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور ایک دوسرے پر یقین رکھتے ہیں۔

٭۔ ہمارے ہاں کام انجوائے کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ ہر بندہ بے دلی سے کام پر جاتا ہے اور گالیاں دیتا ہوا، واپس آتا ہے۔ واپسی پر اس کا خیال ہوتا ہے، گھر پہنچ کر بیوہ بچوں میں بیٹھوں گا؛ آرام کروں گا، لیکن گھر پہنچے پر بیوی نے کوئی مشقت طلب کام نکالا ہوتا ہے کرنے کے لیے۔ کوئی ناخوشگوار موضوع چھیڑا ہو یا ویسے ہی منہ بنایا ہوا ہو؛تو بندے کا دل کرتا ہے دیوار سے سر پھوڑ لے ؛یا واپس کام پر چلا جائے۔

مذکورہ اقتباسات سے آپ نے کیا اخذ کیا ہے۔ یہ آپ اپنی رائے سے بتائیے۔ میں احساس یہ ہے کہ ان اقتباسات میں لفظ ”ہم“ کی نفسیات سے کھیلا گیا ہے۔ جو کام لفظ ”میں“ سے کیا جاسکتا ہے اور وہ ”ہم“ سے ممکن نہیں۔ ذمہ دار، فرض شناس اور ترقی میں معاون فرد ”میں“ کا پیرو ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس نے کام کرنا ہے اور اسی سے باز پرس ہوگی جبکہ لفظ ”ہم“ کی نفسیات پر کاربند سمجھتا ہے کہ پوچھا کسی اور سے جانا ہے اور جواب بھی کوئی اور ہی دے گا۔ مجھے تو بس ہم، ہم کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments