غلط فیصلوں کی قیمت


یہ مارچ 2022 کی بات ہے اسلام آباد میں تحریک انصاف کی ایک پارٹی تقریب چل رہی تھی۔ جہاں مونس الہی نے خطاب کرتے ہوئے کہا خان صاحب تگڑے ہوجائیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ٹھیک ان دنوں پی ڈی ایم کی جماعتوں کی طرف سے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے کی پلاننگ ہو رہی تھی۔ پھر ایک دن اچانک اسلام آباد میں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کی پریس کانفرنس کرتے ہیں جس میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا جاتا ہے، کچھ ہی دیر میں اپوزیشن جماعتوں کے تمام لوگ قومی اسمبلی کے سیکرٹری کے دفتر میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کروانے پہنچ گئے۔

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے عثمان بزدار کے خلاف بھی عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد میں چوہدری شجاعت کے گھر لیگی وفد جاتا ہے۔ جس میں چوہدری شجاعت، پرویز الہی، سالک حسین، شافع حسین، مونس الہی جبکہ لیگی وفد میں ایاز صادق، سعد رفیق، ملک احمد ہوتے ہیں، اس ملاقات میں ویڈیو لنگ پر نواز شریف کو بھی آن لائن لیا جاتا ہے۔ نواز شریف عثمان بزدار کی جگہ پرویز الہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی آفر پیش کرتے ہیں جس کو خوشی خوشی پرویز الہی قبول کرلیتے ہیں اور میاں نواز شریف کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اس ملاقات میں ق لیگ کو مسلم لیگ (ن) میں کچھ عرصے بعد ضم کرنے کا بھی فیصلہ ہوجاتا ہے۔ نواز شریف اور چوہدری شجاعت 1997 میں پیدا ہونے والے اختلافات ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دوبارہ ایک ہونے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ لیکن اگلے دن مونس الہی کی بیگم کو اچانک خسرو بختیار کی بیوی کا فون آتا ہے۔ خسرو بختیار کی بیوی اس وقت بنی گالہ میں بشری بی بی کے پاس موجود ہوتی ہیں۔ بشری بی بی کی طرف سے مونس کو کہا جاتا ہے آپ اپنے والد کے ساتھ بنی گالہ آئیں میں نے خان صاحب سے بات کرلی ہے عثمان بزدار خود استعفی دیں گے اور پرویز الہی صاحب کو ان کی جگہ وزیراعلیٰ بنا دیا جائے گا۔

مونس الہی دوپہر چار بجے کے قریب اپنے والد کو ساتھ لے کر بنی گالہ کے لئے نکلنے لگتے ہیں تو سالک حسین مونس سے پوچھتے ہیں آپ دونوں کہاں جا رہے ہیں مونس جواباً کہتا ہم بنی گالہ جا رہے ہیں خان صاحب نے بلایا ہے۔ سالک حسین کہتے کل جب فیصلہ ہو گیا ہے تو اب بنی گالہ جانے کا کیا فائدہ ہے؟ مونس کہتا بس ہم آخری دفعہ ملنے جا رہے ہیں خان صاحب سے ایک اچھا تعلق رہا ہے۔ سالک حسین کہتے آپ وہاں جو بھی فیصلہ کریں گے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔

خیر دونوں باپ بیٹا بنی گالہ پہنچ جاتے ہیں۔ ساڑھے پانچ بجے کے قریب ٹی وی چینلز پر خبریں چلتی ہیں عمران خان نے پرویز الہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا ہے۔ جبکہ اسی دن صبح پرویز الہی کے کہنے پر ہی مسلم لیگ (ن) عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرواتی ہے۔ عمران خان کی جانب سے وزیراعلی کے امیدوار نامزد ہونے کے باوجود چوہدری شجاعت نے پرویز الہی کو دوبارہ منانے کی کوشش کی۔ اس چکر میں پرویز الہی نے عمران خان کی نیپیاں بدلنے والا بیان بھی دیا تاکہ نواز شریف کو خوش کیا جا سکے۔

لیکن مونس الہی نے اپنے والد کو ٹس سے مس نہ ہونے دیا۔ چوہدری شجاعت کی ملکی سیاست میں ایک مثبت پہنچا ہے۔ اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ مشرف دور میں جب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن کیا جا رہا تھا تو ان دنوں پرویز مشرف نے چوہدری شجاعت کو ہی اکبر بگٹی کے پاس مذاکرات کے لئے بھیجا پھر عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد جب مولانا فضل الرحمن ملین مارچ اسلام آباد لے کر پہنچے تو جنرل باجوہ نے کی درخواست پر چوہدری شجاعت سامنے آئے اور چوہدری شجاعت کے کہنے پر ہی مولانا فضل الرحمن نے مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا۔

مونس الہی کے ایک غلط فیصلے نے گجراتیوں کی پچاس سالہ واضح دار سیاسی پہچان ختم کردی۔ کبھی باپ کے غلط فیصلے اور کبھی بچوں کے غلط فیصلوں کی قیمت والدین کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ مونس الہی کے غلط فیصلے کی قیمت پرویز الہی ادا کر رہے ہیں۔ آج پرویز الہی زیر حراست ہیں اور مونس الہی دربدر ہیں جبکہ پرویز الہی کی تیسری مبینہ بیوی سائرہ انور اور مونس کی بیوی تحریم الہی اور ان کے بھائی راسخ الہی پر منی لانڈرنگ کے مقدمات چل رہے ہیں۔ پرویز الہی کے دست راست محمد خان بھٹی تین ماہ سے زیر حراست ہیں ان پر درجن بھر کرپشن کے مقدمات ہیں۔ پرویز الہی پر بھی تین بڑے کرپشن کے مقدمات ہیں۔ اب فی الحال پرویز الہی کو اگلے چھ ماہ تک ملک کی مختلف عدالتوں اور جیلوں کے چکر لگوائے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments