خواہش


اگرچہ یہ خدائی معاملات میں مداخلت ہے لیکن کئی بار دل میں خیال جنم لیتا ہے کہ میں بے وقت چلا آیا ہوں اور غلط زمانے میں آ بیٹھا ہوں۔ اکثر خیالات کی رو ایسے زمانوں میں بہتی ہے جنہیں حقیقت کی آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ اس پر میرا اختیار نہیں چنانچہ بے اختیار گزرے وقتوں کی تخیلاتی سیر کو نکل کھڑا ہوتا ہوں۔

جب کبھی ماضی کی داستانیں اور رفتگاں کی کہانیاں پڑھتا ہوں تو دل میں زبردست کھینچ پیدا ہوتی ہے پھر میں گزرے لوگوں کے نام لے لے کر (جن کی فہرست نہایت طویل ہے) مخاطب ہوتا ہوں کہ مجھے اس زمانے میں کیوں چھوڑ گئے ہو جبکہ میں ذوق و شوق اور طبیعت کے اعتبار سے تمہارا ہمراہی تھا۔

دیکھو میرے دریا خشک اور ندی نالے کیمیکل زدہ سیاہ پانیوں سے بھرے ہیں تم ان ندیوں کی سیر کرتے رہے جہاں شفاف پانی سبز گھاس کے کناروں میں بہتا تھا مچھلیاں اچھل کود کرتی پھرتی تھیں۔ غور کرو! میری شاہراہیں ، سڑکیں دو رویہ تو ہیں مگر ارد گرد بلند و بالا عمارتیں، بے ہنگم آبادیاں اور انسانوں کے ہجوم ہیں اور تم درختوں کے بیچ سے نکلتی ہوئی گزرگاہوں پر چلا کرتے تھے لق دق صحراؤں میں محو سفر رہتے تھے۔ میرے دور میں بجلی کے بلبوں کی ایسی یلغار ہے کہ نظر چندھیا جائے ذرا وہ وقت دکھا دو!

جب تم سیاہ طاقوں میں دھرے چراغوں کی روشنیوں میں پڑھا کرتے تھے تمہارے جسموں کے سائے چراغوں کی روشنی میں لمبے لمبے ہو کر یوں دیواروں پر چڑھ جاتے تھے گویا بڑے بڑے دیو چل پھر رہے ہوں۔ یہاں تو صبحیں بے کیف اور شامیں بے سرور ہیں تم اپنی صبحوں شاموں سے پردہ کشائی کرو جب چڑیاں چہچہاتی تھیں اور سر شام رات کی رانی مہکتی تھی۔ آج معاملہ یہ ہے کہ رات گئے مچھروں کے غول کے غول کانوں میں ناگوار آوازوں سے گوں گوں کرتے اور نوکیلے دانتوں سے خون چوستے ہیں تم اپنی ان کالی راتوں کا قصہ کہہ ڈالو جب آسمان پر تارے جھلملاتے تھے اور زمین پر جگنو جگمگاتے تھے۔

مجبور ہوں کہ گندے ترین پلاسٹک کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہوں تمہارے نصیب کہ تم مٹی کے گھڑوں سے ٹھنڈے میٹھے پانی نوش کرتے تھے۔ آج پھول بھی خوشبو نہیں دیتے، چنبیلی بھی نہیں مہکتی، پیڑ ہی نہیں تو پرندوں کے آشیانے کہاں ہوں گے، صبح سویرے کوئی اٹھتا ہی نہیں تو کھیتوں میں ہل چلتا ہوا کیسے دیکھ پاؤں گا، کنویں کی مدھر آوازوں کی جگہ برقی موٹروں کی دلخراش چنگھاڑوں نے لے لی ہے، ڈھلتی شاموں میں اب کوئی گلیوں میں چھپن چھپائی کھیلتا ہی نہیں کیونکہ لڑکے بالے موبائل فونوں کی بھول بھلیوں میں کھو گئے ہیں۔

میں ان نوجوانوں کو تلاش کرتا رہتا ہوں جو حلقے بنائے باہم خوش گپیوں میں مصروف رہتے تھے۔ میری آنکھیں ترس گئی ہیں ان بچوں کو دیکھنے کے لیے جو گھروں کی کنڈیاں کھڑکا کر سر پٹ بھاگ اٹھتے تھے۔ میری عیدیں بھی سرور و کیف سے خالی ہیں جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ عیدوں کی رونق اور چہل پہل موبائل کے منحوس شغل نے ہڑپ کر لی ہے۔ میں اکتا گیا ہوں بھاری بھرکم گاڑیوں کی درد انگیز آوازوں سے اے گزرے ہوئے لوگو! میں تمہاری طرح تانگے گھوڑے کی مسحور کن آواز سننا چاہتا ہوں۔

خدارا میرا ہاتھ تھامو اور پلک جھپکنے میں صدیاں پیچھے لے چلو جہاں تم رہتے ہو کہ آنکھ کھلے تو میں آج سے کل ہو جاؤں حال سے ماضی بن جاؤں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments