صحت عامہ کے محاذ پہ صف آرا لیڈی ہیلتھ ورکرز



مارچ 2023 ء پاکستان میں گزارے تمام دن ہی یادگار تھے۔ لیکن جب میں نے کراچی کی سڑکوں پہ بینر اٹھا کے ملک کی لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حقوق کے لیے نعرے بلند کیے وہ میرا سب سے بہترین دن تھا۔ اس دن تاریخ تھی سات مارچ۔ جب میں پروگرام کے مطابق اپنی پیاری ساتھی اور استاد مہناز رحمن (عورت فاونڈیشن کی ڈائریکٹر) کی سنگت میں کراچی آرٹس کونسل پہنچی۔

مہناز رحمن عورتوں کے حقوق کی علمبردار اور ہمہ وقت اس سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ جب بھی میرا پاکستان جانا ہوتا ہے وہ شدید مصروفیت کے باوجود بھی اپنی پوری کوشش کرتی ہیں کہ میری ممکنہ فرمائشوں کو پورا کر کے حتی الامکان میرے ”لاڈ“ اٹھا سکیں۔ لہٰذا پہلے میری دیرینہ خواہش پہ ہائی کورٹ کی سابق جج ماجدہ رضوی کے انٹرویو کا اہتمام کروانے کے بعد وہ مجھے آرٹس کونسل سے نکلنے والی اس ریلی میں لے جا رہی تھیں جو صحت کے محاذ پہ ڈٹی لیڈی ہیلتھ ورکرز نکالنے والی تھیں۔

یہ خواتین پریس کلب کے احاطے میں ایک بڑی تعداد اپنے حقوق کی بحالی اور مطالبوں کی منظوری کے لیے پورے جوش و خروش سے ریلی نکالنے کی تیاری میں مصروف تھیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینرز اٹھائے۔ جن پہ ان کے نعرے اور مطالبے درج تھے۔ خوشی کی بات یہ تھی کہ بہت سے ایسے انصاف پسند اور انسان دوست مرد حضرات بھی پوری طرح سرگرم عمل تھے جو ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حقوق کے دفاع میں ریلی میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کے پروگرام کا آغاز 1994ء میں پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں ہوا۔ وفاق کی جانب سے بڑے پیمانے پہ اس پروگرام کا اجرا اس بات کا ثبوت ہے کہ سماج کی بہبودی کے سنجیدہ کام میں نعرے بازی کے بجائے عملی اور قانونی تبدیلی ضروری ہے۔ اس پروگرام کا مقصد ملک کے صوبوں میں بنیادی صحت سے متعلق عوامی سطح پہ سہولیات کی فراہمی کے علاوہ ایک ایسے دقیانوسی اور روایتی معاشرے میں عورت کو طاقت دینا تھا جہاں وہ گائے بھینسوں سے بھی کم وقعت گردانی جاتی ہے۔

بلا شبہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کی حفاظت ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن عورتیں جو اپنے بطن سے اولادوں کو جنم دیتی ہیں، ان کی صحت سے بے توجہی کیوں؟ خاتون وزیر اعظم بے نظیر نے اس سوال کا جواب لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام کے اجرا کی صورت میں کیا خوب دیا۔ جس کے لیے قوم ہمیشہ ان کی شکر گزار رہے گی۔

پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا جال سا بچھا ہوا ہے جو گھر گھر جا کر عورتوں اور بچوں کی بنیادی صحت سے متعلق کام کرتی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق لیڈی ہیلتھ ورکرز قومی سطح پہ 5000 بنیادی صحت کے یونٹس، 600 دیہی ہیلتھ سینٹر کے علاوہ 7500 دوسرے بنیادی سطح پہ صحت کی بنیادی سہولیات مہیا کرنے والے اداروں میں کام کرتی ہیں۔ اور اس طرح ملک کی 60 سے 65 فی صد آبادی کو صحت کی بنیادی سطح پہ خدمات فراہم کرتی ہیں۔

اس پروگرام کا مقصد زچہ اور بچہ کی صحت، خاندانی منصوبہ بندی اور پیدائش میں مناسب وقفہ سے متعلق تعلیم اور آگہی کی فراہمی کے علاوہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے ننھے بچوں کو پولیو کے مدافعتی قطرے دینا۔ کووڈ کی وبا میں اپنے اور اپنے گھر والوں کو خطرے میں ڈال کر کام کرنے والی اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زچہ اور بچہ کو اپنی خدمات کا نذرانہ پیش کرنے والی صحت کے محاذ پہ ڈٹی کتنی ہی لیڈی ہیلتھ کیئر ورکرز۔ ہم جانتے ہیں کہ اس قوم کے مستقبل کو معذوری سے بچانے کی کوشش میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہیں، خاص کر بلوچستان میں۔

گھر گھر جانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ان گھروں کے مردوں اور ان کی ماؤں کی مخالفتوں ہی کا نہیں بلکہ اکثر جنسی ہراسانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے بچاؤ کے لیے انہیں کسی قسم کی سپورٹ نہیں۔ ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی اموات کے واقعات عموماً بلوچستان میں واقع ہوئے ہیں۔ اب یہ تو اسٹیبلشمنٹ ہی بتا سکتی ہے کہ اس صوبے میں سالہا سال سے نا انصافی پہ احتجاج کرنے والے مردوں کو کون سے نامعلوم شرپسند غائب کر دیتے ہیں اور اس صوبے کی عورتوں کو بے چہرگی دے کے، علم کی روشنی سے پردہ کس نظام کے تحت کروایا جاتا ہے؟

آدھ گھنٹے کے توقف کے بعد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے جلو میں عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمن کے ساتھ پاکستان آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب کی جانب رواں دواں تھی۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہاتھوں میں بینرز اٹھائے با آواز بلند اپنے مطالبوں کے نعرے لگاتے ہوئے۔ سڑکوں پہ راہگیروں کی استعجاب سے بھری آنکھوں کا سامنا کرتے، سڑکوں پہ چلتی ٹریفک کا رخ موڑتے ہم نے پریس کلب پہ جا کے دم لیا۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں ملک گیر تحریکوں نے جنم لیا، جہاں سے اٹھنے والی آواز ایوان بالا تک پہنچی جہاں سچائی کی خاطر صحافیوں اور ادیبوں نے کوڑے اور ڈنڈے کھائے گئے اور احتجاج کی تاریخ میں اپنا نام درج کروایا۔

آج ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے ہیلتھ کیر ورکرز کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اور آل پاکستان لیڈی ہیلتھ ورکرز ایمپلائرز ایسوسی ایشن کی سربراہی میں اپنے حقوق کے نعرے لگ رہے تھے۔ ان کے مطالبے تھے۔

ہیلتھ رسک الاؤنس بحال کرو۔ (جو کرونا کے بعد ختم کر دیا گیا۔ )
لیڈی ہیلتھ ورکرز کا سروس اسٹرکچر نافذ کرو۔
ہماری آئی ڈی اوپن کرو۔
سات مارچ کو پاکستان میں قومی ہیلتھ ورکرز کا قومی دن منایا جائے۔ اس دن سالانہ تعطیل کی جائے۔
ہیلتھ ورکرز پروگرام کی خالی آسامیوں پر بھرتی کرو۔
ریٹائرمنٹ بینیفٹ 1994ء سے شامل کیے جائیں۔
ریٹائرڈ اور فوت ہونے والوں کو پینشن دی جائے۔
لیڈی ہیلتھ پروگرام شروع کرنے والی شہید بینظیر بھٹو کے نام کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا جائے۔

اس موقعہ پہ بہت سے لیڈران مثلاً لیڈی ہیلتھ ورکرز کی یونین کی صدر بشری آرائیں، علی پائلر، فرحت پروین ایگزیکٹو ڈائریکٹر ناؤ (NOW) نے مطالبات کی حمایت میں تقاریر کیں۔ عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر اور ناؤ کی اعزازی صدر مہناز رحمن نے بھی اپنے ادارے کی جانب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مطالبات کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس نعرہ پہ اپنی مختصر تقریر کا اختتام کیا۔

جاری رہے گی جاری رہے گی
جنگ ہماری جاری رہے گی
اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی حق کے ساتھ ہوں گے اور فتح کی سربلندی تک یہ نعرہ آپ کا بھی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments