مشہور زمانہ کتاب ”شرمناک سلطنت: انگریزوں نے ہندوستان کے ساتھ کیا کیا“ پہ تبصرہ


میں نے کچھ عرصہ پہلے چند ایک مضامین پڑھے تھے کہ کس طرح چرچل نے برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں لاکھوں لوگوں کو جان بوجھ کر بھوکا مرنے دیا اور کس طرح اس نے کھلے عام ہندوستانیوں کے خلاف نفرت آمیز تبصرے کیے ۔ میں نے روزنامہ ٹورونٹو اسٹار میں شری پردکار کے لکھے گئے ایک مضمون میں پڑھا کہ بنگلور کے ایک کلب نے فخر سے اپنی ویب سائٹ پہ چرچل کا نام کلب کے رکن کے طور پر آویزاں کیا ہوا ہے۔ چرچل جب اپنی فوجی ڈیوٹی کے لئے بنگلور میں تعینات تھا تو اس کلب کا رکن تھا۔ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کچھ ہندوستانی اور پاکستانی اپنے نسلی قاتل اور نفرت کرنے والے عفریت پر اتنا فخر کیوں کریں گے!

حال ہی میں میری ملاقات ایک پاکستانی نژاد طالب علم سے ہوئی جو آئرلینڈ میں طب میں ڈگری حاصل کر رہا ہے۔ اس نوجوان نے مجھے بتایا کہ آئرش لوگ 1171 سے 1922 تک آئرلینڈ پر قبضے اور استحصال کی وجہ سے برطانویوں سے نفرت کرتے ہیں یا کم از کم ناپسند کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ برصغیر کے لوگ کیوں خود کو برطانوی باشندوں سے کم تر سمجھتے ہیں۔

کتاب Inglorious empire نے ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کے بارے میں میری آنکھیں کھول دیں اور ان کی برتری کے بارے میں بہت سے بتوں کو توڑ دیا۔ صرف پہلا باب پڑھنے کے بعد ہی میں نے اس کتاب کے بارے میں تبصرہ لکھنے کا فیصلہ کیا لیکن میں نے پہلے اسے مکمل طور پر ہضم کرنے کا انتظار کیا۔

بھارتی پارلیمنٹ کے رکن، سفارت کار، اور لکھاری ششی تھرور کو ہمیشہ عقل و دانش کی آواز سمجھا جاتا ہے۔ وہ وسیع مطالعہ کے حامل ہیں اور بہت سی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ 2015 میں ششی کو آکسفورڈ یونین میں اس موضوع پر بحث کے لیے مدعو کیا گیا تھا کہ ’برطانیہ کو اپنی سابقہ کالونیوں کو تاوان ادا کرنا چاہیے! ‘ ۔ بحث کے لیے کی گئی ان کی تقریر پوری دنیا میں وائرل ہو گئی اور پہلے ہی دن لاکھوں کاپیاں منتقل اور ڈاؤن لوڈ کی گئیں۔

اس وقت صرف یوٹیوب پر اس تقریر کے تقریباً ساڑھے پچھتر لاکھ ہٹس ہوئے۔ ششی پر ان کے دوستوں اور مداحوں کی طرف سے اس موضوع پر ایک کتاب لکھنے کے لئے زور گیا جو انہوں نے ’انگلورئس ایمپائر‘ کے عنوان سے شائع کی۔ (یہ کتاب پہلے An Era of Darkness کے نام سے شائع ہوئی تھی) ۔ یہ کتاب محض جذبات یا آراء پر مبنی نہیں ہے بلکہ مصنف نے اس موضوع پر تحقیق کرنے میں سینکڑوں دن اور راتیں گزاری ہیں۔

ششی نے اپنی تحقیق کے دوران اپنی کتاب ’انگلوریئس ایمپائر، انگریزوں نے ہندوستان کے ساتھ کیا کیا‘ میں اس عام خیال کو غلط ثابت کیا کہ انگریزوں نے ہندوستان کو تاریک دور سے باہر نکلنے میں مدد کی تھی۔ ششی تھرور نے مدلل طریقے سے یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ انگریزوں نے منظم طریقے سے ایک انتہائی مہذب اور خوشحال معاشرے کو بھوک، غربت، اور بیماریوں میں دھکیل دیا۔

اس کتاب کا آغاز 1600 ء سے 1947 ء تک کے واقعات کی ایک فہرست سے ہوتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 1700 ء میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے دور میں ہندوستان کی معیشت عالمی معیشت کا 27 فیصد حصہ تھی جو 1947 میں صرف تین فیصد تک رہ گئی۔

کتاب کا پہلا باب ایک امریکی مورخ اور فلسفی ول ڈیورنٹ کی کہانی سے شروع ہوتا ہے جو دنیا بھر میں سفر کی مہم پہ تھا۔ لیکن جب وہ ہندوستان پہنچا اور اس نے وہاں جو کچھ دیکھا تو وہ حیرت اور غصے سے اتنے بھر گیا کہ اس نے دنیا کی تحقیق کو ایک طرف رکھ دیا اور ایک کتاب ’دی کیس آف انڈیا‘ لکھنا شروع کر دی۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے :

ہندوستان پر انگریزوں کی فتح ایک تجارتی کمپنی [برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی] کی جانب سے ایک اعلیٰ تہذیب پر حملہ اور تباہی تھی جو بغیر کسی اصول و ضوابط کے، فن سے لاپروا اور فائدے کے لالچ میں، بارود اور تلوار کی مدد سے، بے بس ملک کے عوام و خواص کو رشوت دینے اور قتل کرنے، الحاق کرنے اور چوری کرنے، اور غیر قانونی اور ’قانونی‘ لوٹ مار کے اس کیریئر کا آغاز تھا جو اب [ 1930 ] ایک سو تریسٹھ سال سے بے رحمی سے جاری ہے۔

ہندوستان میں برطانوی ریاست مکمل طور پر غیر اخلاقی، جابر سامراجی مشین تھی جو منافع کے مقصد سے ہندوستانیوں کو محکوم بنانے پر تلی ہوئی تھی، نہ کہ صرف ایک نظام فائز کرنے پہ جو انسانی حقوق سے لاتعلق تھا۔ بھارت کے محکوم ہونے کے نتیجے میں ہندوستانی دولت کو برطانیہ نے آہستہ آہستہ اپنے قبضے میں لے لیا، جس سے بھارتی عوام کو ان وسائل سے محروم کر دیا گیا جو ان کی قدرتی ترقی اور معاشی ترقی کو فروغ دیتے تھے ’۔

مزید برآں، انگریزوں نے ہندوستان کے لئے برطانوی وراثت (ریلوے، تعلیم، انگریزی زبان، جمہوریت وغیرہ) کو بہت بڑھا چڑھا کر دنیا میں پیش کیا ہے، حالانکہ اس کا مقصد ہندوستانیوں کے فائدے کے لئے نہیں تھا۔ اگر برطانیہ بھارت کو اپنی نوآبادی نہ بھی بناتا، ہندوستانی جنتا ان سب سہولتوں کو عوام کی ضروریات کے لئے مناسب وقت پر متعارف کروا دیتی۔

تھرور نے اپنے پہلے باب ’ہندوستان کی لوٹ مار‘ میں ہندوستان کے بارے میں برطانوی معاشی استحصال کی ’ڈرین تھیوری‘ کا ذکر کیا ہے، جس کے ذریعے ’ہندوستان پر برطانیہ کے فائدے کے لیے حکومت کی گئی تھی‘ اور ’200 سال تک برطانیہ کا عروج رہا جس کی مالی اعانت ہندوستان میں اس کی تباہی کی وجہ سے ہوئی تھی‘ ۔ عالمی جی ڈی پی میں ہندوستان کا حصہ 1700 میں 27 فیصد سے گھٹ کر 1947 میں انگریزوں کے جانے تک 3 فیصد رہ گیا۔ اس کے برعکس، برطانیہ کا حصہ 1700 میں تقریباً 3 فیصد تھا، جو 1870 میں بڑھ کر 9 فیصد تک پہنچ گیا۔

ہندوستان کی لوٹ مار کا آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی اور رابرٹ کلائیو جیسے عہدیداروں کی استحصالی سرگرمیوں سے ہوا اور انیسویں صدی کے دوران برطانوی صنعتی طاقت اور بحری نیٹ ورکس، مواصلات کے کنٹرول اور آزاد تجارتی پالیسیوں کے مکروہ اطلاق کے ذریعے اس میں تیزی آئی۔ اس کا اثر ہندوستان کی معاشی تباہی کو تجارتی طور پر مکمل کرنا تھا۔ تھرور کا کہنا ہے کہ اس رجحان کی سب سے واضح مثالوں میں سے ایک ہندوستان کی جہاز رانی اور دوسری ٹیکسٹائل کی صنعت کو جان بوجھ کر تباہ کرنا تھا، جبکہ اس کے ساتھ ہی برطانیہ ان صنعتوں میں عالمی رہنما بن گیا۔

ہندوستانیوں نے انگریز کی حکومت کو بھاری مقدار میں ٹیکسوں کے ذریعے ادائیگی کی، جسے تمام تر برطانوی مفاد میں ترقیاتی کاموں کے اخراجات کے لئے استعمال کیا گیا تھا جیسے کہ ہندوستانی فوج، ریلوے کی تعمیر (برطانوی سرمایہ کاروں کے لئے غیر معمولی طور پر پانچ فیصد منافع پر) اور ہندوستان اور برطانیہ دونوں میں عوامی کاموں کی تعمیر۔ ہندوستانی آبادی پر بہت سے منفی اثرات میں سے تیزی سے زرعی شعبہ کی خرابی، بار بار قحط، اور قومی حوصلے میں کمی تھی جس نے آزادی اور ہنرمندی دونوں کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا تھا۔

دوسرے باب میں شہنشاہ اشوک ( 268۔ 232 قبل مسیح) اور اورنگ زیب ( 1658۔ 1707 عیسوی) کے ذریعہ حاصل کردہ ملکی اتحاد پر روشنی ڈالتے ہوئے تھرور نے دلیل دی ہے کہ ہندوستان برطانوی مداخلت کے بغیر متحد ہو سکتا تھا، کیونکہ اس کی پوری تاریخ میں ’اتحاد کے لئے ایک شدید لگن موجود رہی ہے۔ جون ولسن نے اپنی کتاب India Conquered ( 2016 ) میں یہ دلیل دی ہے کہ ہندوستانی حکمرانی میں‘ ہندوستان میں ایک متحرک معاشی اور سیاسی نظام رائج تھا ’، جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لالچ نے تباہ کر دیا اور جس کی جگہ ایک انڈین سول سروس نے لے لی۔ جواہر لال نہرو نے انڈین سول سروس کو‘ نہ تو ہندوستانی، نہ ہی شہری، اور نہ ہی ایک سروس ’کے طور پر بیان کیا تھا۔

تیسرے باب میں نوآبادیاتی دور سے پہلے کے نظام حکومت کی تباہی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ برطانوی قوانین ضابطوں کو تبدیل کرنے یا اصلاح کرنے کے لیے نہیں بنائے گئے تھے، بلکہ خود کو ہندوستان پر مسلط کرنے کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ ایک دہائی تک انڈین نیشنل کانگریس کے رکن رہنے والے تھرور تجویز کرتے ہیں کہ آزادی کے بعد کا پارلیمانی نظام، جو برطانوی پارلیمنٹ کی طرز پر بنایا گیا تھا، ’شروع سے ہی ہندوستانی حالات کے مطابق نہیں تھا اور بنیادی طور پر ملک کی بہت سی اہم سیاسی خرابیوں کا ذمہ دار ہے‘ ۔

چوتھے باب میں تھرور نے ہندو مسلم (اور دیگر) اختلافات کی پذیرائی کرنے کی برطانوی پالیسی کا خاکہ پیش کیا جس کے نتیجے میں تقسیم ہند کی خونریزی اور قتل عام کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ پانچویں باب میں وہ ’روشن خیال آمریت‘ کے ذریعے موثر حکمرانی کے برطانوی تصور کو چیلنج کرتے ہیں، جس کے تحت ریاست اپنی رعایا کے تئیں والدین کا کردار ادا کرتی ہے۔ تھرور کا کہنا ہے کہ حقیقی معنوں میں سامراجی منتظمین روشن خیال سے زیادہ مطلق العنان تھے۔

تھرور نے لارنس جیمز کا یہ دعویٰ کہ ”انگریز انسان دوست تھے اور اگرچہ ناکافی انتظامی مشینری اور محدود وسائل کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے، لیکن انہوں نے بھوکے لوگوں کو کھانا کھلانے کی پرعزم کوشش کی“ انگریزوں کی ’کیچ۔ 22‘ حکمت عملی کے حق میں مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل اس کام میں مقامی انتظامیہ کو یہ دکھاوا برقرار رکھنے کے لئے شامل کیا گیا تھا کہ قحط کی وجہ سے ہندوستانیوں پر خود حکومت کرنے کی نا اہلی کا الزام لگا کر اس کا پرچار کیا جائے، جبکہ خود انگریز حکمران خوراک کی قلت کا مناسب جواب دینے یا اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بھوک کی ذمہ داری قبول کرنے میں ناکام رہے۔

چھٹا باب، ’سلطنت کا بقیہ کیس‘ ان دعوؤں کی تردید کرتا ہے کہ برطانیہ کی تاریخی موجودگی نے جدید ہندوستان کی ریاست میں مفید کردار ادا کیا۔ تھرور کا کہنا ہے کہ ریلوے کا نظام ’ایک بڑا نوآبادیاتی گھوٹالہ تھا‘ جس کا مقصد برطانوی تعمیر کاروں اور سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانا تھا، جسے ہندوستانی ٹیکس دہندگان پر بھاری قیمت لگا کر تعمیر کیا گیا تھا اور ’بنیادی طور پر اس کا مقصد زمین یا پیداوار سے نکالے گئے وسائل کو بندرگاہوں تک پہنچانا تھا تاکہ انگریزوں کو ان کی فیکٹریوں میں استعمال کرنے کے لیے گلستان بھیجا جا سکے‘ ۔

انگریزوں کا مسلط کردہ تعلیمی نظام اور انگریزی زبان، ہندوستانی عوام کے لئے تحفہ ہونے کے بجائے، نوآبادیاتی پالیسی کو نافذ کرنے کے لئے ضروری تھے۔ بین الاقوامی تجارت کی زبان کے طور پر انگریزی زبان کا ابھرنا برطانوی سامراج سے زیادہ امریکی گلوبلائزیشن کا نتیجہ ہے۔ تھرور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ چائے اور کرکٹ ان کے مقالے سے مستثنیٰ ہو سکتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’اس بارے یہ دلیل دینا مشکل ہے کہ نوآبادیات کے بغیر کسی کے پاس وسیع پیمانے پر چائے کی کاشت اور مصنوعات کے لئے ایک وسیع مارکیٹ ہو سکتی تھی‘ ۔ تاہم، چائے کی کاشت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی ہوئی، جنگلی حیاتیات کا خاتمہ ہوا، اور مقامی لوگوں کی نقل مکانی ہوئی۔

ساتواں باب جزوی طور پر نیل فرگوسن کے اس نظریے کے جواب پر مشتمل ہے کہ بڑی سلطنت معاشی فوائد پیدا کرتی ہے۔ ششی تھرور نے ایک سچے بحث کار کی طرح ساتویں باب میں اپنے دلائل کو ٹھوس طریقے سے بیان کیا ہے۔ اسی باب میں لارنس جیمز کی ہندوستان میں برطانوی پالیسی کی مغربی تعلیم اور سائنس کے اطلاق کو بھی رد کیا گیا ہے کہ یہ سب ہندوستانی عوام کے فائدے کے لئے کیا گیا تھا۔ دراصل برطانیہ کو ہندوستان پہ راج کرنے کے لئے خود ایک بڑی بیوروکریسی کی ضرورت تھی۔

تھرور نے اگلے باب میں دلیل دی ہے کہ برطانوی عوام کی اپنی سابقہ سلطنت کے بارے میں حقائق سے لاعلمی کے باوجود، ’نوآبادیاتی نظام اس دنیا کے مسائل اور خطرات کو سمجھنے میں ایک متعلقہ عنصر ہے جس میں ہم رہتے ہیں‘ ۔ اس باب میں تھرور نے انگریزوں سے بھارت کے نوآبادیاتی اثاثوں سے حاصل کردہ کچھ نوادرات کو واپس کرنے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

تھرور بھارت کے عوام پہ ماضی کی نا انصافیوں پہ برطانیہ کو سرکاری معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور تجویز پیش کرتے ہیں کہ برطانیہ ہر سال بھارت کو ایک پونڈ علامتی تاوان ادا کرے۔ 1 ستمبر 2019 کو، دوسری جنگ عظیم کے آغاز کی 80 ویں سالگرہ پر، جرمن صدر نے پولینڈ پر نازی حملے پر اپنے پولش ہم منصب سے معافی مانگی۔ اسی سال کے اوائل میں امرتسر قتل عام کی 100 ویں برسی کے موقع پر تھریسا مے نے ’افسوس‘ کا اظہار کیا تھا، لیکن انہوں نے معافی مانگنے سے گریز کیا۔ ڈیوڈ کیمرون نے بھی برطانیہ کی جانب سے امرتسر کے دورے کے دوران معافی مانگنے سے انکار کیا۔

ششی تھرور نے بلا شبہ اپنی کتاب کے ذریعے برطانوی تاریخ کے کچھ انتہائی اہم پہلوؤں کو بے نقاب کرنے میں ایک مثبت اور کامیاب کردار کیا ہے اور سنہرے قلم سے لکھی گئی استحصالی برطانوی راج کی تاریخ کو درست کرنے کی یہ کاوش قابل تحسین ہے۔ تھرور کی اس کتاب کی مقبولیت سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ کئی مصنف اور طالب علم حقائق تک پہنچنے کے لئے برطانیہ کی تاریخ کی چھان بین کر رہے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے دانشور اور کئی کتابوں کے لکھاری طارق علی نے ونسٹن چرچل پہ ایک جامع کتاب شائع کی جس میں انہوں نے چرچل کی ملک کے اندر محنت کش طبقے کے خلاف پالیسیوں اور بھارت سمیت نو آبادیوں پہ اس کے ظلم و ستم کو جرائم سے تشبیہ دی ہے اور، اس طرح، چرچل کے بت کو قومی ہیرو کے مقام سے گرا کر تاریخ کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔

زیر بحث کتاب:
Inglorious Empire: What the British did to India
Shashi Tharoor
Hurst & Co. (UK) , March 2017
ISBN: 978-1-84904-808-8
296 pages
حوالہ جات:
تبصرہ:

https://reviews.history.ac.uk/review/2357; by Dr Ross Nelson; Birkbeck, University of London; Dec. 2019

مضمون:

When will there be a film on Winston Churchill, the barbaric monster with the blood of millions on his hands? ; by Shree Paradkar; Toronto Star; 9 March 2018

کتاب:

Winston Churchill: His Times, His Crimes; by Tariq Ali; Verso; May 2022; ISBN: 978-1788735773; 448 pages

کتاب:
The Case for India; by Will Durant; Simon and Schuster, 1930; 228 pages
کتاب:

Empire: The Rise and Demise of the British World Order and the Lessons for Global Power; by Niall Ferguson; Basic Books, 2004; ISBN: 978-0465023295; 351 pages

کتاب:

Raj: The Making and Unmaking of British India; by Lawrence James; St۔ Martin ’s Griffin; Aug۔ 2000 ; ISBN: ‎ 978۔ 0312263829 ; 736 pages

کتاب:
India Conquered; by Jon Wilson; Simon & Shuster; Jan 2016; ISBN: 978-1471101250; 564 pages

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments