فیصل وڑائچ کا انجینئر محمد علی مرزا سے مکالمہ


ہماری روایتی تاریخ مشہور مورخ “مسعودی’ سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہے، جس کے متعلق مشہور تھا کہ
” وہ خیالی قلعے بنانے میں بہت مہارت رکھتا تھا”
 مطلب مبالغہ آمیزی کا شہنشاہ تھا۔
 اس نے ایک خیالی شہر “مدینت النحاس” کے نام سے دریافت کر ڈالا تھا اور اس شہر کے متعلق اس قدر مضحکہ خیزی کی حد تک مبالغہ آمیزی کی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، جسے ابن خلدون نے جھوٹ کا پلندہ اور بعید از قیاس قرار دیا تھا۔
مسعودی لکھتا ہے کہ
“اس شہر کی ساری عمارتیں تانبے کی ہیں، اس کے سب دروازے بند ہیں اور اس کی فصیل پر چڑھ کر جب کوئی شخص اس میں جھانکنا چاہتا ہے تو بےخود ہو کر تالیاں بجاتا ہوا اس میں کود پڑتا ہے”
 بدقسمتی سے ہماری روایتی تاریخ بھی اسی خیالی شہر کی مانند ہے جس کی فصیل پر چڑھ کر ہمارے متکلمین اور مذہبی اکابر کو جو دکھتا ہے یا دکھتا رہا ہے اسے اپنے تئیں دعویٰ و تیقن کے ساتھ بیان کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ مذہبی فکر کا سارا فلسفہ عقیدے کے گرد ہی گھومتا ہے، صفت ایمان مفصل و مجمل اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور مذہبی اکابر کا یہ ماننا ہے کہ جس بندے کی عقیدے کی گرہ جتنی مضبوط ہوگی وہ اتنا ہی صاحب کمال اور پرفیکٹ ہوگا۔ ظاہر ہے جب بات عقیدے سے شروع ہو گی تو پھر شک و شبہ یا سوال کی گنجائش کہاں؟ عقیدے کا مطلب سر تسلیم خم کرنا، ماننا اور بس ماننا ہی ہوتا ہے۔ سسٹم آ ف بلیف میں سچائی کی کھوج لگانے کی جستجو میں “بال کی کھال اتارنے” کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی، یوں کہہ لیں کہ جس کے یقین وہ عقیدے کی کھائی جتنی گہری ہو گی اسے اتنا ہی حقیقت شناس و کامل تصور کیا جائے گا۔
 اسی لئے مہذب دنیا میں بلیف سسٹم کو ہر انسان کا نجی معاملہ قرار دیا گیا ہے اور وہاں اپنے پرسنل بلیف کو منظرعام پر لانا یا تشہیر و تبلیغ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
 اتنی بڑی کائنات میں ہر انسان کا کوئی نہ کوئی نجی تصور، یقین یا سمبل ہوتا ہے اور ہر ایک کا یہ انفرادی حق ہے کہ وہ اپنے تئیں جو بھی عقیدہ رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے اس میں کوئی حرج یا مضائقہ نہیں ہے۔
 مگر جب آپ دعویٰ کی زبان میں اپنے نجی یقین کو سڑک، تھڑے یا بیچ چوراہے لانے کی کوشش کریں گے تو پھر ہر طرح کے ردعمل کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
 گزشتہ دنوں فیصل وڑائچ کی ایک پوڈ کاسٹ انجینئر محمد علی مرزا کے ساتھ تھی، سننے کا اتفاق ہوا، تقریباً ایک گھنٹہ 25 منٹ کی گفتگو میں کچھ خاص تو ہاتھ نہیں لگا سوائے دعویٰ و لفظیات کے، اور اپنے ماحصل پر حد سے زیادہ یقین اور آخری حد تک اس بات کا یقین دلانا کہ “سائنس اور مذہب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں وغیرہ وغیرہ” انجینئر صاحب سے پہلے جو متکلمین گزرے ہیں یا جو ان کے ہم عصر ہیں وہ سب بھی اسی دعویٰ و یقین کے ساتھ میدان عمل میں اترتے تھے یا اترتے ہیں کہ
 “ہم سا ہو تو سامنے آئے” انجینئر کا یہ کہنا کہ وہ ایک “منفرد” یا کرہ ارض پر اکیلے انسان ہیں جو باقی لوگوں سے بالکل الگ سوچتے ہیں میرے خیال میں یہ کوئی مناسب دعویٰ نہیں ہے۔
 ان کا خود کے متعلق بار بار یہ دعویٰ کرنا کہ
” وہ اپنے اس مذہبی فریضہ کے عوض کسی فائدے کے طالب نہیں ہیں اور نا ہی وہ موجودہ سسٹم کے کوئی بینیفیشری ہیں” تو سرکار مودبانہ التماس ہے کہ “شہرت و مقبولیت” بھی ایک طرح سے فائدے کے زمرے میں ہی آتی ہے جس کے طفیل بغیر اقتدار حاصل کئے آ پ عوام کے ایک غالب حصے کے ذہنوں پر چپکے سے حکمرانی کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر کسی کے لیے بھی اپنی “ذاتی” رائے کے نام پر رائے عامہ ہموار کر سکتے ہیں، مولانا طارق جمیل کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
 مختلف مذاہب عالم کے اندر فکری کشمکش بڑے زوروں پر رہی ہے جو کہ ایک کامن سی بات ہے، ظاہر ہے جو چیز عقیدے کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہو، ہم میں سے کسی نے بھی اوریجنل سورسز یا شخصیات کو دیکھا یا استفادہ نا کیا ہو تو اس فلسفے و فکر پر مختلف آراء کا سامنے آنا، کھمبیوں کی طرح تضادات کا بڑھتے ہی چلے جانا، کبھی کسی فکر کا غلبہ اور کبھی کسی دوسرے نقطہِ نظر کا مغلوب ہو جانا، پہلے سے موجود تشریحات و توضیحات کے پلندوں پر “احیا” کے نام پر مختلف متکلمین کا اپنے اپنے حساب سے تشریحات کے انبار میں مزید اضافہ کرتے چلے جانا جیسے عوامل شروع سے یونہی چلتے آ رہے ہیں، یہ کوئی انوکھی یا نئی بات نہیں ہے اور ایسا نجانے کب تک چلتا رہے کون جانے؟
 مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ خود کو عقل کل اور اپنے ماحاصل کو حتمی سمجھنے لگتے ہیں اور اسی نرگسیت کی جھلک آپ انجینئر کی گفتگو میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
 ان کا خم ٹھونک کر یہ دعویٰ کرنا کہ
” جو وہ انقلاب لائے ہیں وہ بے مثال ہے اور اس کا توڑ کرہ ارض پر کسی کے پاس نہیں ہے” اپنی نوع میں ایک مضحکہ خیزی ہے اور کوئی دانشمندانہ رویہ بالکل نہیں ہے۔
 متکلمین آج تک دعویٰ کی زبان میں ہی تو بات کرتے آئے ہیں اور انجینئر بھی اسی میراث کو لے کر چل رہے ہیں اس میں انوکھی بات کیا ہے؟
 سوال یہ ہے کہ اگر آپ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے پیروکار ہوتے تو آپ ادھر بھی اسی پیشن کا مظاہرہ فرما رہے ہوتے اور ہر مذہبی گرو کا اپنے مذہب و فرقے کے متعلق کچھ اسی قسم کا رویہ ہوتا ہے۔ گردوپیش کی دنیا کے مقابلے میں وہ دنیا زیادہ خوبصورت و حسین سی لگنے لگتی ہے جو ہم اپنے تخیل میں تخلیق کر لیتے ہیں،اب تخیل کو جتنا مرضی ارفع بنا لیں کیا فرق پڑتا ہے؟روایت پسندوں کے ساتھ یہی بڑا المیہ ہوتا ہے کہ وہ تخیل کے غازی بنے رہتے ہیں جبکہ عملی سطح پر یا آج کی جدید دنیا میں وہ غیر متعلقہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔
 اس فکر کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اصحاب عقل و خِرد کے مقابلے میں وجدان اور جذبات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور جب اس سسٹم پر سوالات کی بوچھاڑ ہوتی ہے تو جھٹ سے عقیدے و تقدس کی چھتر چھایا میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، کوئی بھی آئیڈیا، فلسفہ یا تصور بھلے جتنا بھی حسین ہو اسے پرکھنا تو بہرحال ذہن کے پیرائے میں ہی پڑے گا۔ ابتدا میں بہت کچھ انسانی فہم سے ماورا یا بالاتر تھا اور ابھی بھی بہت کچھ ہے مگر اگر ہم نے کچھ بھی انسانی فکر کے اثاثے میں داخل کرنا ہے تو اسے دائرہ ذہن میں لا کر ہی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
 فیصل وڑائچ کی اس پوڈ کاسٹ کو آپ مانو لاگ کہہ سکتے ہیں، اس میں سوال کی گنجائش بہت کم تھی جب کہ جواب بہت زیادہ طویل تھے، ذرا کھل کے کہیں تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایک طرح سے “ون مین” شو تھا۔
 مذہب، خدا، حیات بعد موت، دوسری زندگی اور کائنات کی تخلیق و غیرہ ایسے امور ہیں جن پر عقلی بحث لا حاصل اور بے سود ہوتی ہے، ان مسائل کا تعلق عقیدے سے ہے ان پر عقلی دلائل دینے سے تضاد اور فکری انتشار پیدا ہو گا، حاصل کچھ نہیں ہوگا، عقل اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہیں کر سکتی۔ عقیدے کا مطلب گرہ لگانے کے ہوتا ہے، یہ جذبات کی طمانیت کا بندوبست ہوتا ہے نا کہ عقلی تقاضوں کا۔
 رومانیت زدہ انسان حقائق سے کوسوں دور ہوتا ہے اور وہ ہر وقت اسی بندوبست پر اکتفا کیے رکھتا ہے جو بچپن سے اس کے ذہنی فریم کا حصہ بن چکا ہوتا ہے، اسی میں سے جمع تفریق کر کے باتیں نکالتا رہتا ہے اور دنیا کے حقائق کا مطالعہ یا مقابلہ کرنے کی بجائے اسی دنیا کا بادشاہ بنے رہنا چاہتا ہے جو اس نے خود تخلیق کی ہوتی ہے اور وہ اسی خود ساختہ دنیا میں اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں غیر حقیقی لیکن نہایت ہی حسین وجمیل پیکر تراشتا رہتا ہے اور پھر خود ہی ان پر عاشق ہو جاتا ہے۔
 آخر میں انجینئر کا فرمانا تھا کہ “خدائی چیک” کے بغیر دنیا کا کوئی قانون آئیڈیل نہیں بن سکتا، سن کر بڑا عجیب لگا کہ جن اقوام نے اپنی دھرتی کو دنیا میں ہی جنت بنا ڈالا ہے وہ انسانی قوانین کی بدولت ہے یا خدائی چیک کے؟
 اسلامی ممالک کو ملاحظہ کر لیں جہاں خدائی چیک کے باوجود شرح جرم بہت زیادہ ہے۔پھر فرماتے ہیں کہ مذہب اور عقیدے کے بغیر کوئی انسان اچھا یا معاشرے کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔
 انتہائی کھوکھلا سا دعویٰ ہے۔ دنیا کو مختلف بیماریوں سے ادویات یا ویکسین کے ذریعے تحفظ دینے والے سائنس دانوں کی اکثریت کسی اورگنائزڈ مذہب یا خدا پر یقین نہیں رکھتے مگر وہ جو بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ بلا تفریق اور ثواب یا گناہ سے بالاتر ہو کر کے انسانیت کے نام کرتے چلے جارہے ہیں۔
 سوال یہ ہے کہ اگر اچھے عقیدے والا انسان ہی سب سے بہتر اور پرفیکٹ ہوتا ہے تو اس طرح سے پھر ہمارے دعویٰ کے مطابق دنیا بھر میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہونا چاہیے تھا مگر سب الٹ ہو رہا ہے۔
 ہم اچھے عقیدے اور خود میں پرفیکٹ ہونے کے باوجود روز بروز تنزلی کی طرف بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں؟
 کیا مذہب کے پیراڈایم میں قید ہو کر کے دنیا کی دوسری بہت ساری حقیقتوں کو پرکھا جا سکتا ہے؟
یہ جو پرفیکشن ہے کہیں سراب نظر تو نہیں؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments