صائمہ زیدی: محبت اور دانائی


ایک شام پرویز صلاح الدین کا فون آیا کہ صائمہ زیدی ٹورانٹو تشریف لا رہی ہیں اور ادبی دوستوں کی خواہش ہے کہ فیمیلی آف دی ہارٹ انہیں کینیڈا میں خوش آمدید کہے۔ میں نے کہا زہے نصیب۔

میں نے سوچا ایک وہ دور تھا جب پاکستان اور ہندوستان کے بعد اردو کا تیسرا بڑا ادبی مرکز لندن ہوا کرتا تھا کیونکہ ساقی فاروقی، فیض احمد فیض، مشتاق احمد یوسفی اور افتخار عارف لندن میں رہائش پذیر تھے۔ افتخار عارف نے تو لندن میں باقاعدہ اردو مرکز بنا رکھا تھا جہاں پاکستان سے آنے والے سب ادبی مہمان جمع ہوتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ٹورانٹو اردو کا تیسرا بڑا مرکز بن چکا ہے اسی لیے فیمیلی آف دی ہارٹ ملک سے باہر سے آنے والے ادبی مہمانوں کو بڑے احترام اور اہتمام سے خوش آمدید کہتی ہے۔

میں نے صائمہ زیدی کے لیے ہال بک کروایا تو میرے عزیز دوست امیر حسین جعفری کا فون آیا کہ آپ صائمہ زیدی کے بارے میں چند جملے کہیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے ان کا دیوان یا ان کا مجموعہ کلام مل جائے تو اسے پڑھ کر کچھ جم کر لکھ سکوں لیکن میں اس میں کامیاب نہ ہوا۔ صائمہ زیدی شاید اتنی بے نیاز شاعرہ ہیں کہ انہوں نے اپنی شعری تخلیقات کو جمع ہی نہیں کیا اور اگر کیا بھی تو وہ مجھ جیسے درویشوں کو دستیاب نہیں۔

پھر میں نے سوچا کہ دیگ کو چکھنے کے لیے چاولوں کے چند دانے ہی کافی ہوتے ہیں چنانچہ میں نے ان کے دو اشعار چنے اور پھر ان دو شعروں کے بارے میں ایک نفسیات کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے فری ایسوسئیشن کرنے لگا جسے اردو میں آزاد تلازمہ خیال کہتے ہیں۔ آج آپ دو اشعار بھی سن لیں اور میری پریشان خیالی سے بھی محظوظ ہو جائیں۔ صائمہ زیدی کی ایک غزل کے دو اشعار ہیں

ترے جمال کی لو میں ترے خیال کے ساتھ
ہزار ہجر ہیں وابستہ اک وصال کے ساتھ
محبتوں کے سفر میں جدائی لازم ہے
یہ بات اس نے سکھائی مجھے مثال کے ساتھ

ان دو اشعار کا کمال یہ ہے کہ ان کی بنیاد انسانی تجربے پر ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ادب میں مشاہدے، مطالعے اور تجزیے سے کہیں زیادہ تجربے کو اہمیت حاصل ہے۔ جب انسانی تجربہ تخلیقی تجربہ بنتا ہے تو پھر وہ مستند بھی ہوتا ہے معزز بھی ہوتا ہے اور معتبر بھی۔ صائمہ زیدی ہمیں بتاتی ہیں کہ محبت کے تجربے میں ہجر و وصال قربتیں اور فاصلے لازم و ملزوم ہیں۔ ان دو اشعار کا تعلق محبت سے بھی ہے اور انسانی نفسیات سے بھی اور میں دونوں میں گہری دلچسپی رکھتا ہوں۔

ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ محبت دو طرح کی ہوتی ہے، روایتی محبت اور غیر روایتی محبت۔

روایتی محبت میں دونوں محبوب صرف وصل پسند کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے دل کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ انگریزی میں ہم اس تجربے کو FALLING IN LOVE کہہ کر پکارتے ہیں۔

روایتی جوڑے صبح و شام دن اور رات ایک دوسرے کی قربت میں گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کی محبت میں وصل ہی وصل ہوتا ہے۔ وہ یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ وہ ایک دوسرے سے جدائی برداشت نہیں کر سکتے۔ اور وہ اس مسلسل وصل کو اپنی محبت کی معراج سمجھتے ہیں۔ روایتی محبت کے محبوب یہ نہیں جانتے کہ ایسی محبت نفسیاتی اور جذباتی طور پر غیر صحتمند ہوتی ہے۔ ایسی محبت میں دونوں محبوب ایک دوسرے میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ شاعر کہتا ہے

من تو شدم تو من شدی تا کس نگوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری

اردو اور فارسی کی ایسی مثالیت پسند محبت اور تصوراتی رومانوی شاعری نے مشرقی محبوبوں پر بہت ظلم ڈھائے ہیں اسی لیے غالب نے طنز کی تھی

عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
یہ محبت ٹین ایجرز کی محبت ہے ذہنی نا بالغوں کی محبت ہے ناتجربہ کاروں کی محبت ہے۔

ایسی محبت کا نقصان مشرقی عورتوں کو مردوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ شادی کے بعد ان کی شناخت بدل جاتی ہے اور وہ حاجرہ یا سلیمہ یا فائضہ کی بجائے مسز صدیقی یا مسز فاروقی یا مسز خان بن جاتی ہیں۔ روایتی محبت میں دونوں محبوب ایک دوسرے پر اس قدر انحصار کرنے لگتے ہیں کہ جب پچاس برس کی شادی کے بعد ایک فوت ہوتا ہے تو دوسرا اتنا دکھی ہو جاتا ہے اداس ہو جاتا ہے غمزدہ ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ایک سال کے اندر اندر فوت ہو جاتا ہے کیونکہ وہ دوسرے کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔

اس کے مقابلے میں غیر روایتی محبت ایسی صحتمند محبت ہے جو دو عاقل و بالغ انسانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ ایسی محبت میں دونوں انسان اپنی اپنی شخصیت اور انفرادیت قائم رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی ترقی اور کامیابی میں مدد کرتے ہیں۔ انگریزی میں ایسی محبت کو GROWING IN LOVE کہتے ہیں۔ ایسی صحتمند محبت کی ایک نشانی یہ ہے کہ دونوں محبوب وصل کے ساتھ ساتھ ہجر کو بھی دل کی گہرائیوں سے قبول کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ محبت کی نشوونما کے لیے ہجر اور وصل میں ایک توازن قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

جب دو محبوب ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی کمی محسوس کرتے ہیں تو ان پر ایک دوسرے کی شخصیت کے وہ پہلو بھی اجاگر ہوتے ہیں جو ساتھ ساتھ رہنے سے اجاگر نہیں ہوتے۔

جیسے ایک بلند و بالا بلڈنگ یا مینار کو ایک فاصلے سے دیکھا جاتا ہے ایسے ہی ایک بلند قامت شخصیت کے چند پہلو ایک فاصلے سے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔

ہجر اور وصال کا یہ حسین امتزاج ایک صحتمند محبت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ایسی محبت جب ایک محبوب کی موت سے ختم بھی ہوتی ہے تو دوسرا محبوب ٹوٹ کر بکھر نہیں جاتا۔ وہ اپنی طویل محبت کی حسین یادیں دل میں بسائے اپنی بقیہ زندگی گزارتا ہے اور اگر کوئی اور محبوب مل جائے تو اسے بھی اپنی زندگی میں خوش آمدید کہتا ہے۔

صائمہ زیدی کے یہ دو اشعار ایسی ہی صحتمند اور غیر روایتی محبت کی ترجمانی کرتے ہیں۔

صائمہ زیدی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ محبت میں دونوں محبوب علیحدہ علیحدہ بھی اور مل کر بھی نشوونما پاتے ہیں۔ ایسی محبت سے دونوں محبوبوں کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔

اسی لیے وہ کہتی ہیں
محبتوں کے سفر میں جدائی لازم ہے
یہ بات اس نے سکھائی مجھے مثال کے ساتھ
صائمہ زیدی کے اس شعر میں گہرائی ہے کیونکہ اس میں محبت کی دانائی پوشیدہ ہے۔

میں صائمہ زیدی کو فیمیلی آف دی ہارٹ کی طرف سے کینیڈا میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ ہماری خوش بختی کہ انہوں نے ہماری دعوت قبول کر کے ہمیں اعزاز بخشا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments