سرکاری نوکری والے مولانا کی بیوی


میں اس کو عرصے سے جانتا تھا۔ ان کا گھر پڑوس میں ہی واقع ہے۔ اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ آج میں گیا تو دیکھا کہ سفید مکھڑے پر دکھ کی چادر تنی ہوئی تھی۔ موٹی گہری آنکھوں میں کاجل پھیل گیا تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی مگر اس کی آنکھیں ہنس نہیں رہی تھیں۔ میں نے ہمیشہ اس کی آنکھوں کو ایک چمک کے ساتھ شعلہ بار ہوتے دیکھا تھا۔ آج وہ مغموم تھی۔ روئی ہوئی تھی۔ جیسے کوئی بچہ آخری سسکیاں لے کر کوئی کھلونا دیکھ کر مسکراتا ہے، وہ مجھے دیکھ کر اس طرح مسکرائی۔

”لگتا ہے آج پھر لڑ پڑی ہو۔ میں نے آپ کو پورے دو دن شوہر سے نبھا کر اور بغیر جھگڑے کے نہیں دیکھا۔ آج کس بات پر ؟“ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

سعدیہ نے پہلو بدلا۔ ایک طرف جھک کر تکیہ اٹھایا اور مجھے دیتے ہوئے کہنے لگی ”بیٹھیے۔ اگر یہ بقول آپ کے روز کا معمول ہے تو پھر پوچھتے کیوں ہو؟“

ان کی یہی حاضر جوابی مجھے پسند تھی۔ وہ ہمیشہ سوال کے جواب میں سوال پوچھتی اور ہنس پڑتی۔ مگر اپنا سوال تشنہ نہ چھوڑتی۔ بار بار کہتی کہ جواب دو نا؟ میں ہنس کر بیٹھ گیا اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔

”ہاں نا۔ باقی لوگوں کی لڑائی خبر ہوتی ہے۔ آپ اگر لڑائی نہ کریں تو یہ بات خبر بن جاتی ہے۔ جیسے بعض لوگ اکثر بیمار رہتے ہیں۔ ان کا صحت یاب ہونا خبر ہوتی ہے۔“

”اس پر یہ ٹوٹکا بھی لگاؤ کہ اکثر لوگ اکثر مرے رہتے ہیں۔ ان کا زندہ رہنا خبر بن جاتی ہے۔ آپ یہ اسٹیٹس بھی لگایا کریں نا کہ فلاں زندہ ہو گیا۔“ وہ یہ کہہ کر میری طرف دیکھ کر ہنس دی۔

”جس دن آپ زندہ ہو گئیں، اس دن اسٹیٹس چیک کرنا۔ تم کم بخت نہ میرے اسٹیٹس دیکھتی ہو اور نہ کوئی ریکٹ کرتی ہو۔ بس صرف طعنہ زنی کرتی ہو۔“

”نا بابا نا۔ میں دیکھتی ہوں۔ آپ کی ہنسی والی پوسٹ دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔“
”یعنی ہنس ہنس کر “

”نہیں۔ رو رو کر ۔“ یہ کہہ کر اس نے ہی ہی کیا اور ایک دم موڈ میں آ گئی۔ جب وہ بہت دکھی ہوتی ہیں تو غم غلط کرنے کا ایک ہی حربہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس بات پر وہ دکھی ہیں، وہ موضوع بدل دو ۔ جب میں اس کو موضوع کی طرف لانے کی کوشش کیا کرتا تو کہتی:

Please change the topic. I am not in mood.

سعدیہ بی اے ہیں۔ ابھی امتحانات ختم ہوئے تھے اور نتائج کا انتظار تھا کہ ان کی شادی ایک سکول ماسٹر سے ہو گئی۔ وہ قاری کی پوسٹ پر تھے اور سعدیہ کے والدین کو داماد میں جس خوبی کی تلاش تھی، وہ ان میں موجود تھی۔ نورانی سرکاری نوکر تھے اور یہی انہیں چاہیے تھا۔

سعدیہ سے ایک بار میں نے ان کے کالج افیئرز کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ وہ کلاس کی ٹاپر تھی۔ ہر وقت کتابوں میں گم رہتی۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ لڑکے سعدیہ کو خشک مزاج، کتابی سمجھ کر دور بھاگتے تھے۔ ان رد عمل کے خوف سے فلرٹنگ تک نہیں کرتے تھے۔ ”سچی بات ہے۔ ایک لڑکا ایسا تھا جس کو دیکھ کر میرے دل میں لڈو پھوٹتے تھے۔ مگر عورت کی نیچر ایسی ہے کہ وہ پہل نہیں کر سکتی۔ میں کبھی اپنی بد نصیبی پر سر کھا پاتی تو کبھی اس لڑکے کو کوستی۔ سچ کہتے ہیں کہ محبت کی زباں ہوتی ہے۔ آخر کار وہ بھی سمجھ گیا اور تب تک ہمارا تعلیمی کرئیر اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ ہماری محبت ابھی اظہار کی راہ ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ والدین کو مطلوبہ داماد مل گیا۔ ہائے۔ وہ کیا بھلا سا شعر ہے۔ بے شمار سخن ہائے گفتنی۔ اس طرح کا کوئی تھا۔“

”شعر کا پہلا مصرع اگر زبردستی آپ کی ناکام عاشقی پر فٹ کیا بھی جائے تو دوسرا والا سرپٹ بھاگ جائے گا۔ کئی بار آپ کو کہا ہے کہ شاعری آپ کا کپ آف ٹی نہیں ہے۔ تو ڈرامے اور فلموں کے ڈائلاگ بولا کر ۔“

وہ اک ادائے خاص سے مسکرائی اور یوں مخاطب ہوئی۔ ”تیرا کیا ہو گا کالیا؟ شادی کا کیا پلان ہے؟“
”آپ کو جو ملا ہے، اس طرح کی چیز مجھے بھی میسر آ ہی جائے گی۔ فکر ناٹ۔“

”تو پہلے سرکاری نوکری لے۔ تب یہ بڑی بڑی چھوڑ۔ میرے والدین نے ان صاحب میں ایک ہی خوبی دیکھی۔ اور وہ سرکاری نوکری تھی۔ ’بھگوان کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ دولت ہے۔ شہرت ہے۔ عزت ہے۔ ‘ نا نا پاٹیکر صاحب اگر یہ طویل ڈائلاگ بولنے کے بجائے بس اتنا کہہ دیتے کہ سرکاری نوکری ہے تو رشتہ پکا تھا۔ ہائے۔ بے شمار سخن ہائے۔“

”اوہ بس کر ۔ خدا دا واسطہ ہے۔ پھر بے محل شعر لے آئی ہو۔ ایک ہی شعر غلط یاد کیا ہے اور اس کو ہر جگہ تھوپتی رہتی ہو۔“

”اٹ از یور کپ آف ٹی۔ لے۔ چائے پی لو۔“ اس نے چائے کا کپ تھمایا اور موضوع تبدیل ہو گیا۔ سعدیہ کسی ایک موضوع پر مسلسل پانچ منٹ گفتگو نہیں کر سکتی۔ اک ذرا ٹاپک تبدیل ہوا اور وہ کہیں اور چلی گئی۔

سعدیہ کی شادی کو آٹھ سال ہو گئے۔ ان آٹھ سالوں میں انہوں نے بڑے اونچ نیچ دیکھے۔ شادی کے دوسرے سال والدہ کا انتقال ہوا اور سعدیہ کی دنیا اجڑ گئی۔ ماں کے ساتھ ان کا سہیلی جیسا تعلق تھا۔ سعدیہ کئی ماہ تک حالت سوگ میں رہی۔ اس دوراں ان کے ہاں پہلے بیٹے کا جنم ہوا۔ ان کی زندگی میں جو خلا تھی، ایک حد تک پر ہوتی نظر آئی۔ مگر شوہر کے ساتھ تعلقات کبھی استوار نہ ہو سکے۔ جب وہ حاملہ تھیں تو مزاج میں چڑاچڑا پن در آیا تھا۔

اس دوراں کئی بار شوہر سے مار کھائی اور میکے جانے کی دھمکی دی۔ وہ ہمیشہ دھمکی دیتی مگر عمل کبھی نہ کرتی۔ ایک دفعہ کافی لڑائی ہو گئی تھی۔ مولانا نے کوئی وزنی چیز ان کی طرف پھینکی اور وہ جا کر اس کے ماتھے پر لگی۔ خون نکل آیا۔ میں نے اکسایا کہ گھر چلی جاؤ۔ ممکن ہے مولانا اپنے رویے میں کچھ تبدیلی لے آئیں اور آئے روز ان لڑائیوں سے آپ کی جان چھوٹ جائے۔ کہنے لگی: ”پہلی بات یہ ہے کہ گھر میں اس سرکاری نوکر کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان کی خمیر ہی ایسی ہے کہ کسی مثبت تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ میں عادی ہو چکی ہوں۔ شروع میں بڑے ذہنی کرب سے گزرتی مگر اب زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ اب تو جس دن لڑائی نہ ہو، وہ دن بڑا بے کیف اور بورنگ سا گزرتا ہے۔ “ وہ ہنس کر خاموش ہو گئی۔ اس کی ہنسی میں گہرے دکھ کی پرچھائیاں تھیں۔

سعیدہ اور نورانی کی لڑائی کن باتوں پر ہوتی تھی؟ مجھے یہ تجسس ہمیشہ رہا اور کسی حد تک اصل مسئلے کی جڑ تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ انسان بو العجبیوں اور بو قلمونیوں کا ایک بے مثال مجموعہ ہے۔ اگر اس کو ادا کار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مگر ہر انسان کا ایک اپنا روپ بھی ہوتا ہے۔ بہ امر مجبوری وہ بے شک کبھی عاشق کا تو کبھی ولن کا لباس پہن کر اسی ڈھال چال سے اسٹیج پر آ جاتا ہے مگر اس کی اصلیت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔

یہ اصلیت کیا ہے؟ اور نورانی کا اصل چہرہ کیا تھا؟ آدم کی اصلیت یہ ہے کہ قدرت نے اس کو جس طرح بنایا ہے، خاندانی اور معاشرتی سانچوں میں ڈھل کر وہ جس رنگ روپ میں پروان چڑھا ہے، اور اس کی شخصیت جس خاص زاویے سے تشکیل پائی ہے، یہی اس کی اصلیت ہے۔ باقی دھنک رنگ مختلف روپ اس کی مجبوری ہوتے ہیں۔ اصلیت نہیں۔ انسان جب فخر سے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ جانور نہیں ہے تو وہ یہ اقرار کر رہا ہوتا کہ وہ اداکار ہے۔ صریح الفاظ میں یہ کہ منافق ہے جو اپنی اصلیت کو چھپائے پھر رہا ہے۔ انسان کو جب ”سماجی جانور“ کہا گیا تو نام ہی میں آدھی حیوانیت یعنی جبلت در آئی۔ اور باقی آدھی سماج نے پوری کر دی۔ اس کے پاس نہ فری ول ہے۔ نہ اپنی اصلیت کو چھپانے کا کوئی طویل المدت آزمودہ گر۔ کچھ دیر تو وہ کسی دوسرے کا روپ دھار لیتا ہے مگر جلد ہی اپنی اصل جون میں لوٹ آتا ہے۔

نورانی اور سعیدہ اپنی اصلیت کو چھپائے ہوئے تھے۔ سعیدہ گھر کی رانی ٹھہری۔ سکول اور کالج میں ایک کنول کی طرح پھوٹی۔ سہیلیوں میں مہکی۔ لڑکے تتلیوں کی طرح منڈلائے۔ سعدیہ کے ارد گرد کانٹوں کا بچھا جال دیکھ کر زیادہ قریب نہ آ سکے۔ مگر سعدیہ کو احساس تھا۔ اپنے وجود کا احساس۔ ارد گرد منڈلاتے اور ناقابل تسخیر قلعہ سمجھ کر ہمت ہارنے والوں کا احساس۔ وہ ان رنگینیوں سے کھیل کر جواں ہوئی اور بڑے خواب دیکھنے لگی۔

اچھی نوکری کا خواب۔ ہم خیال و ہم مزاج جیون ساتھی کا خیال۔ اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے کا خواب۔ مگر یہ سب ہو نہ سکا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ گھریلو خاتون ہیں۔ شوہر بدمزاج، بدذوق اور کم نگاہ ہے۔ سعدیہ کالج میں پڑھی بڑھی۔ مولانا مدرسے کا فارغ التحصیل۔ سعدیہ موسیقی کی شائق ہیں۔ مولانا حرام سمجھتے ہیں۔ سعدیہ ندی کنارے چہل قدمی چاہتی ہے اور مولانا سکول سے نکلتے ہیں تو مسجد کی راہ لیتے ہیں۔ سعدیہ شاپنگ کی شوقین ہیں۔ مولانا فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی خیال کرتا ہے۔ سعدیہ کی سوئی ”میں کیا چاہتی ہوں“ پر اٹکی ہوئی ہیں۔ مولانا ”لوگ کیا کہیں گے؟“ کی تسبیح پڑھتے ہیں۔ یوں ان کے پسند ناپسند کے درمیاں ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ جب ان بنیادی اقدار میں تصادم ہوتا ہے تو پھر کوئی اداکاری کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ان کے جھگڑوں کی نوعیت بھی خاصی دلچسپ ہے۔ ایک بار مولانا نے وضو کا لوٹا سعدیہ کے چہرے پر دے مارا۔ چہرے پر خراش آئی اور وہ پانی سے شرابور ہو گئی۔ سعدیہ نے آنسوؤں سے رہی کسر پوری کر دی۔ یہ لڑائی یوں شروع ہوئی کہ سعدیہ صبح کی نماز کے لیے مولانا کو جگایا کرتی تھی۔ مگر ان دنوں وہ بوجوہ نماز نہیں پڑھ رہی تھی۔ دیر تک سوتی رہی۔ یوں مولانا کی نماز بھی فوت ہو گئی۔ مولانا کے لیے یہ ناقابل برداشت صدمہ تھا۔

”یار تم کس قسم کے لوگ ہو؟ انسان کیوں نہیں بن جاتے؟ ایک طرف ان مولانا کی اپنی ذاتی نماز تھی جس کے قضا ہونے میں میرا قصور نہیں۔ اپنا الارم سیٹ کرتے۔ خود اٹھتے۔ مانا کہ میری وجہ سے اللہ کے حق میں کمی بیشی واقع ہو گئی مگر کیا انہوں نے جو میرا دل توڑا ہے، اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی؟ آخر کیوں؟ وہ کسی بھولے بادشاہ نام کے شاعر کو آپ گنگنایا کرتے ہیں کہ مسجد، مدرسہ، سکول سب گرا دو ۔ دل مت توڑو۔“ سعدیہ یہ کہہ کر سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔ اس کو شعر کا مفہوم تو یاد رہ جاتا مگر شعر کے الفاظ اور شاعر کا صحیح نام یاد نہ رہتا۔

”شعر کے ساتھ شاعر کا بھی ستیا ناس کر دیا۔“ میں یہ کہہ کر ہنس پڑا اور تصحیح کرنے لگا۔ وہ ہمہ تن گوش تھی۔

”صوفی شاعر بھلے شاہ کا کلام ہے۔ کہتے ہیں :
مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے
ڈھیندا جو کچھ ڈھا دے
اک بندے دا دل ناں ڈھا دیں
رب دلاں وچ رہیندا ”

ایک دفعہ میں نے سعدیہ سے کہا کہ دیکھئے۔ انسانی رشتوں میں ہم مزاج ہونا یا کیمسٹری کا ملاپ اتنا اہم نہیں ہے جتنا باہمی احترام، ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور آپس کی محبت اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ان تینوں کو سائڈ پر کر دیں تو رشتوں میں دراڑ آجاتی ہے۔ آپ ان مولانا صاحب کا احترام کریں۔ ان کی نوکری کا احترام۔ ان کی پسند نا پسند کا احترام۔ ان کا خیال رکھیں۔ وہ کس موڈ میں ہیں؟ کیا چاہتے ہیں؟ اور پھر محبت کریں۔ آپ دونوں لائف کو انجوائے کرنے لگیں گے۔ آزمانا شرط ہے۔

سعدی ایک تمسخر آمیز ہنسی لبوں پر سجا کر گویا ہوئی۔

”تجربہ شرط ہے۔ بڑا آیا رشتوں پر لیکچر دینے۔ یارا بات یہ ہے کہ ہم pole apart ہیں۔ آپ کا تین نکاتی ایجنڈا سر آنکھوں پر مگر یہاں کسی ایک پر بھی عمل در آمد نہیں ہو سکتا ۔ یہاں ہم خیال ہونے کا سوال نہیں ہے۔ کچھ بنیادی اقتدار میں clash ہے۔ لڑکے! تو نہیں سمجھے گا۔ اللہ کرے میرے شوہر جیسی بیوی آپ کو نصیب ہو اور میں آپ سے پوچھوں کہ کیا حال ہے کالیا؟ کہاں گئیں آپ کی وہ من موہنی باتیں؟“ وہ کھلکھلا کر ہنسی اور میں اسی موضوع کو دوسری طرف لے گیا۔

”مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ مولانا کے علاوہ بھی کسی کو چاہتی ہیں۔“
”مولانا کو بھی چاہتی ہوں؟ پہلے یہ طے کر لو۔“

”سوری۔ مولانا کو نہیں چاہتی۔ کسی اور سے دل لگا بیٹھی ہو۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ شک ہے مجھے۔“ میں نے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔

”بے شک آپ کا شک ہے۔ مگر آپ غلط کیسے ہو سکتے ہیں؟ نعوذ باللہ۔“ وہ ہنسنے لگی۔
”بتاؤ وہ خوش بخت کون ہے؟“

”بتاتی ہوں۔ حلیہ شریف بتا دوں گی تو خود پہچان لو گے۔“ وہ یہ کہہ کر میرے چہرے پر نظریں گاڑ کر میرا حلیہ بیاں کرنے لگی۔ ہر اعضا کی مبالغہ آمیز تصویر کشی اپنے انداز میں کرتی اور مسلسل ہنسے جا رہی تھی۔ ہم دونوں کے قہقہوں سے کمرہ گونجنے لگا تو میں یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا کہ مولانا نے اگر اس انداز میں دیکھ لیا تو سچ مچ کے عاشق سمجھ کر شرعی حکم نافذ کر دیں گے۔

اس کے بعد میں بوجوہ سعدیہ کے ہاں نہ جا سکا۔ شک مزاج مولانا کے رویے میں بدلاؤ دیکھا تو مناسب یہی سمجھا کہ سعدیہ کے اپنے دکھ زیادہ ہیں۔ میری وجہ سے اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ مگر سعدیہ سے رہا نہ گیا۔ ایک دن وہ خود گھر آئی اور کھری کھری سنانے لگی۔ ان کو نفرت تھی۔ شکوے تھے۔ دل بوجھل تھا۔ میں صبر سے سنتا گیا اور ادھورا سا جواز یہ پیش کیا کہ آپ کی خاطر نہیں نہ چاہتے ہوئے آنا جانا معطل ٹھہرا ہے۔ وہ پھٹ پڑی۔ شکوے سے پر تھی۔ ان کی آواز میں کرب تھا۔ دکھ تھا۔ شکستگی تھی۔ وہ پہلے سی شوخی نہ تھی۔ ان غزال سی آنکھوں میں چمک نہ تھی۔ ایک موقع پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ان مست آنکھوں کو یوں اشکبار دیکھا تو رہا نہ گیا۔ میں ان کے پاس سے اٹھ گیا۔ تسلی کے دو بول بھی میرے پاس نہ تھے۔

اس کے دو دن بعد سعدیہ میکے چلی گئی اور پھر کبھی نہ لوٹی۔ سعدیہ نے مہر میں بچوں کی بھیک مانگی مگر نہ ملے۔ مولانا نے کہا کہ چونکہ طلاق وہ خود لے رہی ہے، اس لیے مہر کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ بچے ماں سے چھین لیے گئے۔ تقریبا چھ ماہ تک سعدیہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس حال میں ہے۔ مگر یہ تصور کرنا زیادہ مشکل نہ تھا کہ وہ کن حالات سے گزر رہی ہیں۔ ایک طلاق یافتہ خاتون جس کے بچے چھین لیے گئے ہوں اور اپنے بسے بسائے گھر سے بے دخل ہو کر بھائیوں کے ٹکڑوں پر پل رہی ہو۔ جس کی ماں مر چکی ہو۔ باپ اپاہج ہو۔ ایسی خاتون کس حال میں ہوگی؟

وقت عجیب مرہم ہے۔ شروع میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سعدیہ کی یہ المیہ داستان عمر بھر ڈستی رہے گی۔ دل و دماغ پر مستقل سوگ کی فضا طاری رہتی۔ یہ احساس بھی شش ناگ بن کر پھن پھیلائے میرا پیچھا کرتا کہ کسی نہ کسی طرح میں سعدیہ کا مجرم ہوں۔ اس کہانی میں اگر میں نہ آتا تو شاید یہ انجام نہ ہوتا۔ مگر وقت کے ساتھ زندگی کے دل فریب جھمیلے سعدیہ کی کہانی کو دماغ سے محو کرتے گئے۔ چھ ماہ بعد ایک انجانے نمبر پر وائس میسج آیا۔ ایک مانوس سی آواز کانوں میں رس گھولنے لگی۔

”سعدیہ ہوں اے کالیا۔ کس حال میں ہو۔ بڑے بے وفا نکلے یار۔ مانا کہ کبھی تعلق عاشق معشوق کا نہیں رہا مگر دو بے تکلف دوستوں والا تو تھا۔ یہی نبھا لیتے۔ ایک بار پوچھ لیتے۔ میں آپ کو دوش نہیں دیتی کہ آپ کی وجہ سے معاملہ بگڑا۔ معاملہ پہلے کب ٹھیک تھا۔ آپ سے بس یہی شکوہ ہے کہ بہت جلد اجنبی بن گئے۔ مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مگر میں زیادہ دل پر نہیں لیتی۔ جانے دو ۔ کچھ ماہ و سال آپ کی قربت میں گزرے۔ وہی غنیمت ہیں۔“

دوسرے وائز کلپ میں کہہ رہی تھی:

”لڑکے۔ بڑی مشکل سے آپ کا نمبر ڈھونڈ نکالا۔ مولانا نے اپنا سیم نکال لیا تھا۔ نئے سیم میں آپ کا نمبر نہیں تھا۔ حال احوال پوچھنے کے علاوہ یہ اطلاع دینی تھی کہ بہت جلد میری شادی ہونے والی ہے۔ کسی پنجابی یا پٹھان سے۔“

سعدیہ نے جو کہا وہ میں سمجھ گیا۔ جو نہ کہا، وہ بخوبی سمجھ گیا۔ ”یہ کم بخت میری مجبوریوں کو کیوں نہیں سمجھ رہی؟“ میں سوچنے لگا۔ گھریلو مجبوریاں۔ رشتوں کی مجبوریاں۔ مولانا کے ساتھ ذاتی تعلق کی مجبوری۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ کیا کہیں گے؟ کس سے شادی کی؟ اپنی عمر سے دس سال بڑی طلاق یافتہ عورت سے۔ بچوں کی ماں سے۔ سعدیہ کہ مٹی محبت اور رومان پرور فضاؤں میں گندھی ہے۔ اسے کیا خبر کہ مردوں کی کتنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ یا پھر بقول سعدیہ کے، مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔

میں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا۔ سعدیہ کو جواب دینے کا یارا نہ تھا۔ کیسے سمجھاؤں۔ کیا وضاحت کروں۔ میں نے پہلے دن ان کے میسجز کا کوئی جواب نہیں دیا۔ رات بھر نیند نہ آئی۔ سعدیہ کی طرف سے ہوا کا ایک تازہ جھونکا آیا تھا اور دل کی مرجھائی ہوئی کلی کھل اٹھی تھی۔

دوسرے دن میں نے ان کو یک سطری جواب لکھا۔ ”مجبوری ساجن مجبوری“ سعدیہ کا کوئی ردعمل نہ آیا۔ سال بعد معلوم ہوا کہ ان کی شادی پشاور میں ہو گئی ہے۔ آج اس کہانی کو ختم ہوئے پانچ سال بیت گئے ہیں۔ سعدیہ کے تین بچے ہیں۔ دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں پشاور میں ٹھہرا ہوا تھا۔ شاید سعدیہ کو فیس بک سے معلوم ہوا۔ کال آئی۔ پشتو لہجے میں ایک مردانہ آواز تھی۔ انہوں نے سعدیہ کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ آپ کو بلا رہی ہے۔ آنا چاہو تو ایڈریس بھیج دوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں سعدیہ کی زندگی میں ایک بار پھر داخل ہو رہا ہوں۔ میں نے معذرت کر لی۔ میں اس کہانی کو اسی موڑ پر ختم کرنا چاہتا تھا۔ اور چاہتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments