سب جان لیں: فوج کی نہ دوستی اچھی، نہ دشمنی


تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان نے برطانوی نیوز ایجنسی ’روئیٹرز‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں گرفتار کر کے فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا اور پھر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے ایک بار پھر اصرار کیا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں تحریک انصاف ملوث نہیں تھی بلکہ یہ سب ڈرامہ ملٹری اسٹبلشمنٹ نے کیا تھا تا کہ تحریک انصاف کو پھنسایا جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فوج اب کھل کر سامنے آ گئی ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس انٹرویو اور عمران خان کے الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ طاقتور حلقوں کی جانب سے عمران خان کو نظر انداز کرنے کے باوجود ان کی سیاسی پوزیشن میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ اس کے لئے دیگر عوامل اہم کردار ادا کریں گے۔ جیسا کہ دیکھا بھی جا رہا ہے کہ متعدد الیکٹ ایبلز شخصی اور انفرادی مفادات کی وجہ سے تحریک انصاف چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف شاید اب بطور پارٹی ویسی سیاسی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے جو عمران خان کی مقبولیت اور حکومتی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کے باعث اسے حاصل ہو سکتی تھی۔ سانحہ 9 مئی نے اس صورت حال کو تبدیل کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان کا اصرار ہے کہ ان کا ساتھ چھوڑنے والوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن یہ بیان بہر طور پورا سچ نہیں ہے۔

جو لوگ تحریک انصاف چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں جائے پناہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے بارے میں کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کبھی اسٹبلشمنٹ کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ جب عمران خان نے براہ راست فوج سے تصادم کا راستہ اختیار کرنے کا تہیہ کر لیا تو ان لوگوں کے لئے اپنے راستے الگ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ فوری گرفتاریوں اور اسٹبلشمنٹ کے اشاروں نے بھی کچھ کام دکھایا ہو لیکن یہ عناصر اپنے اپنے علاقے کی سیاست کرتے ہیں۔ ان کا ووٹ بنک صرف اسی لئے ان کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ ہر مرحلے پر اقتدار میں آنے والی پارٹی کے ساتھ مل کر اپنے علاقے کے لئے کچھ سہولتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ تحریک انصاف میں شامل تھے تو اس کی وجہ بھی یہی یقین تھا کہ یہ پارٹی آئندہ انتخاب میں کامیابی حاصل کرے گی۔ اب ان کی علیحدگی کو صرف عمران خان یا پی ٹی آئی سے ناراضی سمجھنے کی بجائے اس رویہ کو سیاسی بیرو میٹر سمجھنا چاہیے کہ مستقبل میں سیاسی طور سے ملک کا نقشہ کیا رنگ اختیار کرنے والا ہے۔

ان حالات میں اگر فوج یا حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان کو سیاسی حقیقت کے طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تو دوسری طرف عمران خان کو بھی سمجھنا ہو گا کہ سیاسی غلطی کو مان لینے سے ہی اصلاح کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ اگر عمران خان 9 مئی کے حوالے سے مسلسل متضاد بیانات دیتے رہیں گے اور یہ قیاس کرنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ اس روز رونما ہونے والے واقعات نے ملکی سیاست کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے اور تحریک انصاف کے لئے حالات مشکل ہو گئے ہیں۔ فوج کسی صورت ایسی پارٹی کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہے جس نے نہ صرف عسکری تنصیبات پر حملے کیے بلکہ خود اس کے کچھ لوگوں کو ورغلا کر فوج میں ’بغاوت‘ کے آثار پیدا کرنے کی کوشش کی۔

البتہ اس موقع پر ملکی سیاسی قیادت کو عمران خان کی ہٹ دھرمی کے باوجود کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے ملک میں آئینی عمل داری کے تقاضے پورے ہونے میں زیادہ رکاوٹیں حائل نہ ہوں۔ شہباز شریف کی قیادت میں حکمران سیاسی جماعتوں کو ایک طرف ملک میں بر وقت انتخابات کو یقینی بنانا چاہیے تو دوسری طرف یہ امید نہیں کرنی چاہیے کہ عمران خان کو سیاسی میدان سے نکال باہر کیا جائے تاکہ دوسری دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے لئے راستہ کھل جائے۔ یہ کہنے میں بھی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ سب سے بڑا چیلنج مسلم لیگ (ن) کو درپیش ہے۔ اسی لئے اس کے بعض عناصر کسی بھی قیمت پر عمران خان کے ساتھ سیاسی مفاہمت پر راضی نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کو نیچا دکھا کر ہی پنجاب پر دوبارہ شریف خاندان کا تسلط قائم کیا جاسکتا ہے۔

گو کہ اس قسم کی سوچ سیاسی خام خیالی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ ملک میں اگر فوجی قیادت کے ساتھ ساز باز کے ذریعے سیاسی کامیابی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے جمہوری فصل کاشت نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت کسی ایک پارٹی یا شخصیت کا نام نہیں ہے اور نہ ہی ایک پارٹی کو کسی ایک علاقے میں ہمیشہ کے لئے بالادستی کی یقین دہانی کروانے کو جمہوریت کہا جاسکتا ہے۔ جمہوریت چند بنیادی اصولوں کا نام ہے جن میں سر فہرست آئین و قانون کا احترام ہے۔ اسی لئے اگر عمران خان اور تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا سیاسی بت توڑنے کے لئے فوج کی انگلی پکڑ کر سیاسی کامیابی حاصل کی تو اس کا عبرت ناک انجام بھی وہی بھگت رہے ہیں۔ ماضی کو زیادہ دور تک نہ بھی کنگھالا جائے تو بھی مسلم لیگ (ن) کے لئے یہ نوشتہ دیوار ہونا چاہیے کہ 2017 میں کیسے پارٹی کے لئے حالات خراب کر کے نواز شریف کو سیاست سے باہر رکھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اگر مختلف وجوہ کی بنا پر اب حالات کچھ موافق ہوئے ہیں تو اس اہم پارٹی کو فوج کے ساتھ ساجھے داری کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ فوج کا کردار اگر سرحدوں کی حفاظت تک ہی محدود رہے، تب ہی اس ملک میں معاشی بہتری اور جمہوری نظام مستحکم ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے۔

عسکری قیادت کو 2021 میں ’عمران پروجیکٹ‘ کی ناکامی کے بعد یہ بات سمجھ آ گئی تھی۔ اسی لئے جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار یہ اعلان کرتے رہے تھے کہ فوج اب سیاست میں حصہ نہیں لے گی۔ البتہ انہوں نے بنفس نفیس چونکہ ملکی سیاست میں جوڑ توڑ میں حصہ لیا تھا، اس لئے جب جنرل باجوہ نے سیاست سے تائب ہونے کا اعلان کیا تو وہ عسکری حلقوں میں سب تک یہ پیغام مناسب طریقے سے نہیں پہنچا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسروں کے علاوہ بعض حاضر سروس فوجی بھی قیادت کی طرف سے سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی سہولت کاری میں مصروف رہے۔ عمران خان اس انفرادی حمایت کی وجہ سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ وہ اس حمایت کی بنیاد پر فوجی قیادت کو بھی ایک بار پھر رام کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ایسے ہی غلط فیصلوں اور اندازوں کے بطن سے 9 مئی کا سانحہ رونما ہوا۔

اس سانحہ سے فوج کو بھی سبق سیکھنا چاہیے کہ کیسے ملکی سیاست میں بالادستی کے لئے تیار کیے گئے منصوبے خود ادارے کے ڈسپلن کو کمزور کرنے کا باعث بنے۔ یہ صورت حال تبدیل کرنے کے لئے فوری سرزنش کے طریقوں سے قصور واروں کو سزا دینا ہی کافی نہیں ہو گا۔ بلکہ عسکری قیادت کو تہ دل سے اس عہد پر قائم رہنا ہو گا کہ سیاست میں مداخلت سے فوج کو بطور ادارہ نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ فوج کو مستقبل میں اس قسم کی بدمزگی اور پریشانی سے بچانے کے لئے فوج کو سیاسی جوڑ توڑ سے الگ رکھنے کے ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ پر عمل کرنا ہو گا۔

اسی طرح عمران خان کو اس خیالی سراب سے باہر نکل آنا چاہیے کہ انتخابات کی صورت میں، ان کے نامزد کردہ امیدوار ہی کامیاب ہوں گے اور تحریک انصاف حالیہ توڑ پھوڑ کے بعد بھی دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ اسے چھوٹا منہ بڑی بات نہ سمجھا جائے تو عرض کیا جائے کہ پنجاب کی سیاست میں بابائے قوم محمد علی جناح سمیت کسی قومی لیڈر کو کبھی ایسی پوزیشن حاصل نہیں ہوئی کہ عوام محض اس کے نام پر ووٹ دے کر سیاست کا پانسہ بدل دیتے۔ یہ پوزیشن نہ ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل ہوئی، نہ نواز شریف کبھی اس پوزیشن میں تھے اور نہ ہی عمران خان یہ کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔

اگر عمران خان یہ سچ ماننے پر آمادہ ہوں تب ہی وہ یہ سمجھ سکیں گے کہ سانحہ 9 مئی کو فوجی قیادت کی سازش قرار دے کر، وہ نہ تو اپنے ووٹ بنک میں اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی قومی سیاست میں ان کی دوبارہ کامیابی کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ اس روز ہونے والے واقعات کی مذمت کریں، اس روز ہونے والے توڑ پھوڑ سے لاتعلقی کا اعلان کریں اور کسی بھی طریقے سے اس سانحہ میں تحریک انصاف کے کردار پر شرمندگی کا اظہار کریں تاکہ انہیں نئی سیاسی حکمت عملی تیار کرنے میں آسانی ہو۔ یہ کہہ دینے سے کہ ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر انہیں جیل میں بند کر دیا جائے گا، وہ ملکی سیاست میں کوئی بڑا طوفان برپا نہیں کرسکیں گے البتہ اپنی سیاسی پوزیشن اور سودے بازی کی حیثیت کو ضرور نقصان پہنچائیں گے۔

بعینہ حکومت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان سمیت کسی بھی شہری کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلا کر سزائیں دلوانے سے حکومت کی کا اعتبار ختم ہو گا، ملک کا نظام انصاف مذاق بن جائے گا اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ رانا ثنا اللہ ایسی باتیں کر کے جو سیاسی ’فائدہ‘ اٹھا چکے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔ اب شہباز شریف کو کابینہ میں اس حوالے سے باقاعدہ پالیسی طے کر کے اعلان کرنا چاہیے کہ قصورواروں کو ان کے جرم کی سزا ضرور ملے گی لیکن منتخب لیڈر کے طور پر وہ کسی صورت شہریوں کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کریں گے۔

شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) اگر یہ دو ٹوک اعلان نہ کر سکے تو اس کا نقصان عمران خان اور تحریک انصاف سے زیادہ مسلم لیگ کی سیاست کو پہنچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments