انسانیت کا احترام اور دعوت دین


چند برس پہلے کی بات ہے، سات آٹھ افراد کے ہمراہ مجھے ایک دعوت پر سرکاری وفد کے ساتھ ہندستان جانے کا اتفاق ہوا۔ جب ہم دلی ائرپورٹ پر اترے تو وہاں بہت زیادہ ہجوم تھا۔ تاہم، پاکستانیوں کے لیے ایک ہال مخصوص تھا، لیکن وہاں پہنچنے کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اب آگے کہاں جانا ہے؟ ایک خالی کاؤنٹر نظر آیا، تو میں وہاں جاکر کھڑا ہو گیا۔ سامنے ایک صاحب ماتھے پر تلک لگائے بیٹھے تھے۔ تلک ان کی مذہبی پہچان کرا رہا تھا۔ وہ چھوٹتے ہی بولے: ”یہاں کہاں کھڑے ہو؟“ میں نے کہا کہ ”میں سمجھا کہ ہمیں یہاں کھڑے ہونا ہے“۔ تو موصوف نے عجیب زہریلے لہجے میں کہا : ”آپ کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟“ یہ بات سن کر مجھے غصہ سا آ گیا اور پلٹ کر اس سے کہا: ”بھائی، آٹھ سو برس تک تو ہمارے سمجھنے سے ہی سب کچھ ہوتا تھا۔ اب کوئی سو ڈیڑھ سو برس ہوئے ہیں کہ آپ کے سمجھنے سے بھی کچھ کچھ ہونے لگا ہے“۔ اس پر وہ صاحب تلملا کر رہ گئے اور جواب نہ بن پڑا تو بلند آواز میں کہنے لگے: ”ہاں، دیکھ لیں گے“۔ اور ان کے کہنے کا انداز بھی بازاری سا تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ واپس بھیج دیں گے تو کیا؟ مجھے بھی وہاں جانے کا کوئی شوق نہ تھا۔ بالکل بے فکر ہو کر میں یہ سب تماشا دیکھتا رہا۔

اتنے میں وہاں پر ائرپورٹ مینیجر آ گیا، جو ایک سکھ تھا۔ اس نے شور شرابا کرنے والے اس مہاشے کو ڈانٹ کر کاؤنٹر سے ہٹا دیا اور بڑے احترام سے مجھے کہا کہ ”آپ ادھر آ جائیے۔ آپ کو کچھ فارم بھرنا ہیں، وہ ذرا پر کر لیجیے“۔ اس فارم میں کچھ معلومات تھیں کہ آپ کون ہیں؟ آپ کو کس نے بلایا ہے اور کہاں جانا ہے؟ وغیرہ۔ ہم لوگ فارم پکڑے پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک نوجوان لڑکا ہمارے پاس آ کر پوچھنے لگا کہ ”آپ کو کیا پریشانی ہے؟“ ہم نے کہا کہ ”سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس فارم کو کیسے پر کریں؟“ اس نے کہا کہ ”کوئی بات نہیں۔ لایئے میں پر کر دیتا ہوں“۔ وہ ہم سات آٹھ افراد کو ایک کونے میں لے گیا اور بڑی احتیاط اور نرمی سے پوچھ پوچھ کر، ایک ایک کا فارم پر کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں اس کا کچھ وقت بھی لگا۔ میں نے اس کی خدمت میں کچھ پیسے نذر کرنا چاہے۔ اس نے ایک نظر پیسے دیکھے اور پھر میری طرف دیکھا تو اس کے چہرے سے یوں عیاں ہوا کہ جیسے اسے دھچکا لگا ہو کہ اس کے اخلاص کی قدر نہیں کی گئی۔ میں گھبرا گیا اور اسے کہا کہ آپ کی بڑی مہربانی اور پھر وہ چلا گیا۔

میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا کہ ”کیا یہ کوئی مسلمان تھا؟“ میں نے اس کے پلٹتے ہی وہاں کھڑے سامان اٹھانے والے سے پوچھا کہ ”ان صاحب کا نام کیا تھا؟“ اس نے جو نام بتایا وہ واضح طور پر ہندوانہ نام تھا۔ یہ سنتے ہی میرے ذہن کے اندر کچھ نئے تناظرات پیدا ہونے لگے اور آن واحد میں کچھ پرانے تناظر ٹوٹ گئے۔ وہ تناظر یہ تھا کہ ہم انسان کی قدر نہیں کرتے۔ اللہ نے اس کو احترام اور فضیلت کی سند دی ہے۔ سب سے پہلے وہ صرف بنی آدم ہے، اور پھر کوئی دوسرا حوالہ!

احترام آدمیت کی بنیاد

ہر انسان، اللہ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ ہم انسان کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی غیرمسلم ہے وہ گویا ہمارے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ ہمارا ذہن اس طرح کا بن گیا ہے، حالانکہ ہماری فقہ میں ہے کہ محارب سے جنگ کرو، لیکن غیرمحاربین کو نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس کے لیے واضح طور پر ہدایات دی تھیں۔ ہمارے ہاں چیزوں کو دیکھنے کا انسانی حوالہ الا ماشاءاللہ ختم ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا ایک داعی جو غیرمسلموں میں تبلیغ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس میں بنیادی خیرخواہی کی کمی ہوتی ہے۔ حالانکہ آپ کی محبت اس تک پہنچے گی تو جبھی وہ آپ کی دلیل تک پہنچے گا۔ اگر وہ بنیادی انسانی قدر، یعنی خیرخواہی سے کٹ کر محض دلیل ہی پر آ جائے تو آپ کیسے اس کو قائل (convince) کریں گے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے ذہن میں منطق اور ابلاغ کی یلغار غالب آ چکی ہے، اور یہ جدید ذہن سمجھتا ہے کہ اب لوگ صحیح یا غلط کی جس عالم گیر منطق پر چیزوں کو قبول یا رد کرتے ہیں اور ہم بھی اسی منطق پر استوار دماغ کے مالک بن گئے ہیں۔ یہ دین کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت پیش کرنے کا کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔

اسوۂ صحابہ کرامؓ

صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے مکالمہ یا مناظرہ کر کے دین نہیں پہنچایا بلکہ وہ خود مجسم اور متحرک، حق کی کنونسنگ دلیل بن گئے تھے۔ انھوں نے اپنے مفتوحین کو یہ تاثر دینے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ ہم نے تمھیں شکست دی ہے اور تم پر فتح پالی ہے، اس لیے تم غلام اور ہم آقا ہیں۔ نہیں، انھوں نے اس سے بڑھ کر جو اگلا قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ ”ہم تمھارے خیرخواہ ہیں اور تمھارے ساتھ برابری کی سطح پر رہنا چاہتے ہیں اور ہم تمھیں اپنے سے کم تر نہیں سمجھتے، یعنی تم ایک فرد اور ہم ایک فرد۔ تم اسلام نہیں لائے اور ہم مسلمان ہیں۔ اللہ کی طرف سے جو احترام آدمیت تفویض کیا گیا ہے، ہم اس کی بنیاد پر تمھیں مساوات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مساوات، مواخات میں بدل جائے اور تمھارا سماجی مرتبہ ہم سے بھی بڑھ جائے“۔ بجا طور پر اس جذبے پہ اعتبار دلوا دینے کے نتیجے میں اسلام پھیلا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو بالاتر سمجھیں اور دوسروں کو حقیر سمجھ کر انھیں تبلیغ کریں تو یہ موثر نہ ہوگی۔ لوگوں میں حق پہنچانے کا سارا کام جذبۂ خیر اور حکمت سے ہوتا ہے نہ کہ احساس برتری کے تحت۔

فرض کیجیے کہ اگر یہودی طاقت پکڑ لیں اور ان کا ایک فرقہ جو تبلیغ کو مانتا ہے، حالانکہ کلاسیکل یہودیت میں تبلیغ کا تصور موجود نہیں ہے، وہ فرقہ ہمیں کہے کہ تم ایمان لے آؤ، ورنہ ہم تمھیں بھنگی بنا دیں گے تو کیا ہم مانیں گے؟ انھیں ایک نسلی تیقن ہے کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں، اور مسلمانوں نے بھی اور قرآن کریم نے ان کے اس مریضانہ نسلی تفاخر کی تصدیق کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم دھونس پر مبنی ان کی اس بات کو نہیں مانیں گے۔

بلا امتیاز مذہب احترام آدمیت

اس پس منظر میں لوگوں کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ انسان ایسی مخلوق ہے کہ جس کے وجود میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ مطلب یہ کہ بنی آدم کی صورت میں اللہ نے ایک مخلوق بنائی اور اس میں کوئی ایسی چیز پھونک دی جو اپنی کسی اور مخلوق میں نہیں پھونکی۔ لہٰذا ہر آدمی جو روح اللہ کا مظہر ہے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔

غیرمسلموں کے عقائد یقیناً غلط ہیں۔ جو بھی رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر نہیں ہے، وہ یقیناً خسارے اور گھاٹے کے راستے پر ہے، اور اس بات میں ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے۔ پھر یہ دین ہی واحد دین الٰہی ہے اور قیامت تک یہی شرط نجات ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی بخشے جائیں گے وہ مشیت حق کی بنا پر بخشیں جائیں گے، کسی استحقاق کی بنیاد پر نہیں۔ استحقاق مغفرت یا استحقاق جنت وغیرہ محمد رسول اللہ ﷺ کو ماننے سے نسبت رکھتا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ ہم اسی عقیدے کے ماننے والے ہیں۔ ہر مسلمان اس پر متفق ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر مسلمان باقی عالم انسانیت سے تعلق کے مسنون ادب اور مخصوص تقاضے پورے نہیں کر رہا۔ مسنون ادب یہ ہے کہ اسوۂ رسول اللہ ﷺ کے مطابق اگر غیرمسلموں نے کوئی خدمت انجام دی ہے، یا اچھا کام کیا ہے، تو آپ ﷺ نے اس کی تحسین فرمائی ہے۔ حلف الفضول کے واقعے کی آپ ﷺ نے تحسین فرمائی ہے اور فرمایا: اب بھی مجھے کوئی ایسا موقع ملے تو ایسے معاہدے کے لیے تیار ہوں۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں کہ جن میں اچھائی کرنے والا مرتے دم تک مسلمان نہیں ہوا مگر رسول اللہ ﷺ جب بھی اس کا تذکرہ فرماتے تھے تو بھلائی اور ممنونیت سے ذکر فرماتے تھے۔

نبی کریم ﷺ نے ہر ایک کی بھلائی کو یاد رکھا اور اس کی بھلائی کو اپنے ساتھ اختلاف پر ترجیح دی۔ حاتم طائی کی بیٹی آئی تو اس کے لیے آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر اپنی چادر بچھائی۔ اس وقت جب آپ ﷺ اس کی تعظیم کر رہے تھے تو وہ مسلمان نہیں ہوئی تھی۔

انسان دوستی کا تقاضا

یہ بات کہتے ہوئے دکھ محسوس کرتا ہوں کہ عمومی طور پر ہم لوگ، انسان دوست نہیں ہیں۔ اگر اس حقیقت کو زبردستی جھٹلائیں تو اور بات ہے۔ خاص طور پر پچھلی دو صدیوں میں ہم کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ یہ کہ مسلمانوں نے سب انسانوں کی سہولت کے لیے کوئی چیز ایجاد کی ہو، یا زندگی میں آسانی پیدا کرنے والا کوئی طریقہ ایجاد کیا ہو۔ بدلتے ہوئے معاشی ڈھانچے میں کوئی معاشی نظریہ ایجاد کر کے واقعی دنیا کے سامنے پیش کیا ہو، جو سب کے کام آئے۔ اس سے پہلے کی صدیوں میں بلاشبہ مسلمانوں نے بہت سے کارنامے انجام دیے ہیں جو انسانیت کی میراث ہیں، لیکن پچھلے دو سو برسوں کی تاریخ میں کوئی نمایاں کارنامہ نہیں نظر آتا۔ ہم مواقع سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں، مگر ساتھ ہی احسان فراموشی کرتے ہیں، اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس احسان فراموشی کو دینی حمیت کا نام بھی دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ ”گنگا رام [1851ء۔ 1927ء] ایک مشرک اور بت پرست ہی تو تھا، وغیرہ۔ یہ گویا ایک خاص اسلوب اور تحقیر میں اس کے سارے احسان پر پانی پھیر دینا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہاں کے لوگوں پر گنگا رام کا احسان ہے۔ اگر اس ہسپتال کا نام بدل کر بو علی سینا [ 980ء۔ 1037 ء] ہسپتال رکھ دیا جائے تو کیا یہ اسلام کا تقاضا ہو گا؟ ہرگز نہیں اور اگر پنجاب کا مسلمان سر گنگا رام کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتا، تو یہ عمل اتباع سنت کے منافی ہے۔ اسی طرح اگر کراچی میں پارسیوں کی خدمات کو وہاں کے شہری تسلیم نہیں کرتے تو وہ متبع سنت نہیں بلکہ احسان فراموش ہیں۔ احسان فراموشی کی روش، رسول اللہ ﷺ سے کوئی مزاجی نسبت نہیں پیدا ہونے دیتی۔

ہندستان کے سفر کے دوران صرف اس ایک واقعہ نے، بغیر بحث مباحثہ کے مجھے ایک بہت ہی بنیادی کمزوری اور ہلاکت سے نکال دیا۔ وہ ہندو لڑکا اور ایک دوسرا فرد مجھے روز احسان مندی کے ساتھ یاد آتے ہیں۔ محسن کا حق دوست سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس نے چونکہ احسان کیا ہے، لہٰذا اس کو دوستوں سے بلند درجہ دینا ضروری ہے۔ دوستوں میں بھی اصل خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ ہمارے محسن ہوتے ہیں۔ دوستی میں بھی اصل وجۂ فضیلت احسان ہی ہے۔

ایک ناقابل فراموش واقعہ

اس سفر ہند میں ہمیں دہلی سے حیدرآباد دکن بھی جانا تھا۔ جب ہم حیدرآباد پہنچے تو رات ہو گئی تھی۔ ہمیں جس ہوٹل میں ٹھیرایا گیا، وہ ایک مسلمان کی ملکیت تھا اور اس کا سارا عملہ بھی مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ استقبالی کاؤنٹر پر کلمہ لکھا ہوا تھا۔ کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے سے میں نے پوچھا کہ ”بھئی، یہاں مسجد کہاں ہے؟“ مجھے مسجد دیکھنے کا شوق ہوا اور یہ بھی کہ وہاں جماعت سے نماز پڑھوں، حالانکہ میں ایک مسافر تھا، کمرے میں بھی نماز پڑھ سکتا تھا اور باقی ساتھیوں کے ساتھ وہیں جماعت کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتا تھا۔ جس طرح سیاحوں کا ایک جذبہ ہوتا ہے کہ مسجد دیکھی جائے، یہی شوق میرے اندر پیدا ہو گیا۔ اس نوجوان نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز کے لیے چلوں گا۔

سردیوں کا موسم تھا۔ جب نماز فجر سے کچھ پہلے اٹھا تو رات کے وقت یہ پوچھنا بھول گیا کہ فجر کی نماز کا وقت کیا ہے؟ خیر، جب نماز کے لیے اٹھا تو دیکھا کہ وہی لڑکا کاؤنٹر پر سر رکھ کر گہری نیند سو رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اسے اب کیا اٹھاؤں؟ اکیلا خود ہی نکل پڑا۔ ابھی فجر کا وقت نہیں ہوا تھا، تہجد کا وقت تھا۔ قریب ہی سڑک پر بس اسٹینڈ تھا، وہاں ایک صاحب داڑھی اور لمبے لمبے بالوں والے کھڑے نظر آئے۔ میں نے انھیں السلام علیکم کہا اور انھوں نے بھی وعلیکم السلام کہا۔ میرے لاشعور میں یہی تھا کہ یہ مسلمان ہی ہو گا۔ میں نے پوچھا کہ ’یہاں مسجد کہاں ہے؟‘ اس نے کہا کہ ’مسجد تھوڑی دور ہے اور اگر میں راستہ بتاؤں تو تم وہاں پہنچ نہیں سکو گے۔ کیا تم یہاں نئے ہو؟‘ میں نے کہا: ’جی ہاں‘۔ پھر وہ شخص مجھے لے کر گلیوں میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے مسجد کی طرف لے چلا۔ اندازہ ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر ضرور فاصلہ طے کیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے پوچھا: ’کیا آپ واپسی پر بھی ساتھ ہوں گے؟‘ اس نے کہا: ’نہیں، البتہ میں واپسی کا راستہ بتا دیتا ہوں، وہ سیدھا ہے‘۔ جب ہم مسجد کے قریب پہنچے تو فجر کی اذان ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: ’آپ کی بڑی مہربانی، آپ اپنا نام تو بتا دیجیے‘۔ اس نے اپنا نام رام داس بتایا۔ جیسے ہی میں نے یہ نام سنا تو مجھے یوں لگا جیسے ڈھیروں پانی پڑ گیا ہو۔ میں نے سوچا کہ یہ تو بس کے انتظار میں کھڑا تھا اور یہاں آنے میں کم از کم 40 منٹ لگے اور کچھ وقت اسے واپسی میں بھی لگے گا، اس پر میں حیران رہ گیا۔ پھر اس شخص نے مجھ سے صرف یہ کہا کہ ’آپ میرے لیے دعا کرنا‘ اور یہ کہہ کر اور واپسی کا راستہ سمجھا کر وہ چلا گیا۔

اسوۂ رسول ﷺ کا ایک پہلو

جب کبھی میرے اندر ان دونوں افراد کی یاد اٹھتی ہے، تو وہ یاد احسان مندی کے جذبے کے ساتھ ہی اٹھتی ہے، حالانکہ میں ان کے ساتھ آشنا بھی نہیں تھا اور یہ تعلق محض انسانی تعلق کے جذبے کا نتیجہ تھا۔ بالکل یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھے رسول ﷺ اللہ کی اتباع کا راستہ مزاجاً مل گیا ہو، وہ بھی بغیر کسی کوشش اور کسی مجاہدے کے۔ لہٰذا، اس پر مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح اسوۂ رسول ﷺ اللہ کا ایک اسوہ مل گیا ہے اور اللہ نے اس سے ایک مناسبت پیدا کردی ہے۔

یہ چیزیں ہم کو احساس تو دلاتی ہیں کہ ہم نے اس دین سے نسبت تو پیدا کرلی ہے، لیکن اس دین کی راہ میں رکاوٹ بھی ہم خود ہی ہیں۔ ہمارے دین میں بظاہر جو بھی ضعف پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہ دین میں نہیں بلکہ وہ ہماری معاشرت میں، علم میں، مذہبیت میں ہے۔ ہم نے ان کو رسول ﷺ اللہ کے ’مزکی‘ پیدا ہونے کے پہلو سے اپنایا ہی نہیں، نبی ﷺ سے مزاجی مناسبت کو کوئی اہمیت نہیں دی اور آپؑ کی ان سنتوں سے جو رحمۃ للعالمینی سے اظہار پاتی ہیں، ان کو سیکھا سکھایا، اپنایا ہی نہیں۔

جذبۂ خیرخواہی کا تقاضا

اس لیے یہی درخواست کرتا ہوں کہ انسان کی قدر کرو کہ انسان کی ناقدری کر کے اللہ کی تعظیم نہیں کی جا سکتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک عجیب طرح کا activism، اور جارحانہ مزاج، ایک عجیب طرح کی لاتعلقی یا غیرمسلموں کے ساتھ ایک تحقیری رویہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں گہری جڑ پکڑ چکا ہے۔

اب دیکھیے، کیا کبھی رمضان کے دوران میں یہ خیال آیا کہ جو عیسائی ہمارے ہاں کام کرتے ہیں ان کی کچھ خبر گیری بھی ہو؟ ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ رمضان بہت بابرکت ہوتا ہے۔ اپنے حسن سلوک سے ان سے یہ تو کہلوا دیں کہ مسلمانوں کا رمضان، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سب انسانوں کے لیے بھی بابرکت ہوتا ہے۔ اگر زکوٰۃ انھیں نہیں دے سکتے، مگر انفاق کا حکم تو زیادہ بڑا ہے۔ انفاق میں تو کوئی قید نہیں ہے۔ نبی ﷺ غیرمسلموں کی مدد بھی فرماتے تھے اور ان سے قرض بھی لیتے تھے۔ معاشرت میں مساوات کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ میں آپ سے قرض لوں کیونکہ قرض لینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میں نے آپ کو مساوی سمجھا ہے۔ اس طرح صحابۂ کرامؓ نے بھی غیرمسلموں سے قرض لیا اور ان کی مدد بھی کرتے تھے۔

رمضان کی برکت سے ہمارے اندر رقت قلبی پیدا ہو جائے کہ ہمارا دوسرے سے تعلق خیرخواہی کی بنیاد پر استوار ہو۔ گویا دوسرے کی خیرخواہی ایک جوہر اخلاق ہے، وہ ہمارے اندر پیدا ہو جائے۔ اس فرد کو باطل پر سمجھتے ہوئے اور اسے گمراہی پر مانتے ہوئے بھی یہ تعلق انسانیت اور ہمدردی کا عنصر رکھتا ہو۔ یہ خیرخواہی اس طرح کی نہیں ہے کہ ”تم بھی ٹھیک ہو، اور ہم بھی ٹھیک ہیں“۔ یہ کہنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا لازم ہے کہ اگر تمھیں ضرورت ہے تو میں اپنی ضرورت چھوڑ کر تمھاری ضرورت پوری کردوں گا۔ یہ رویہ اگر مسلمانوں کا ہوتا تو آج دنیا میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی۔

عیسائی مشنریوں کا جذبۂ خدمت اور ہمارا رویہ

عیسائی مشنریوں نے اپنا مذہب پھیلانے کے لیے جیسی قربانی دی ہے، ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی خدمت خلق کی وجہ سے، ان کی شفقت کی وجہ سے اور اسی سطح کی زندگی اختیار کرنے کی وجہ سے، جس سطح پر بسنے والوں کو وہ اپنا دین منوانے آئے تھے، ساری ساری زندگی افریقہ کے غیرشہری لوگوں اور افریقہ و ایشیا کے مرطوب علاقوں میں گزار دی۔ ایک جرمن نژاد خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ [ 1929 ء۔ 2017 ء] جنھوں نے شادی بھی نہیں کی اور 40 سال سے وہ پاکستان میں جذام کا علاج کرتی رہی تھیں اور 1995 ء میں جذام کو پاکستان سے ختم کرنا ان کا بڑا احسان ہے۔ جذامیوں کے لیے بنائے گئے ہسپتال کے ایک کمرے میں انھوں نے 40 سال گزارے اور کہا کہ میں جرمنی واپس نہیں جاؤں گی۔ یہیں فوت اور یہیں دفن ہوئیں۔

مدر ٹریسا [ 1910 ء۔ 1997 ء] کی سماجی خدمات دیکھیں تو ہند میں گاندھی [م: 1948 ء] کے اتنے سماجی اثرات نہیں، جتنے مدر ٹریسا کے ہیں۔ وہ ایک آشرم میں رہتی تھیں۔ کبھی کوڑھیوں کو نہلا رہی ہوتیں، اور خدمت خلق کے عجیب عجیب کام کرتیں۔ ظاہر ہے کہ میں ان کے مذہب کو حق نہیں سمجھتا، لیکن اس دنیا میں رہنے کے لیے جو خوبیاں درکار ہیں اور اس دنیا میں جس نظام مراتب کے تحت لوگ کسی کو بڑا سمجھتے ہیں اور کسی کو چھوٹا، وہ ایک آفاقی اور اخلاقی نظام کے خد و خال پر قائم ہے۔ اس نظام کے تحت مدر ٹریسا جیسی مثالیں اپنی طرف سے فی زمانہ پیش کرنے میں خاصی دقت محسوس ہوتی ہے۔

یہ باتیں صرف اس وجہ سے ہیں کہ ہم اپنے دین کی بنیادی انسانی، آفاقی اور اخلاقی قدروں سے وفاداری کا ثبوت نہیں دے رہے۔ ہم رسول ﷺ اللہ کے متبع بننے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ایک حتمی، قطعی اور ابدی فضیلت کو اہمیت نہیں دیں گے تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ ذرا سی کوئی بات کرو تو سوال اٹھا دیتے ہیں کہ یہ جنت میں جائے گا، اور یہ نہیں؟ جنت کا اصول اور فیصلہ تو خالق حقیقی نے کرنا ہے، میرے فتوے نے نہیں کرنا۔ ہمیں اسلام اور شریعت کے قانون جنت کے ساتھ خود جنت جانے اور دوسروں کو جنت میں لے جانے اور دنیا کو جنت بنانے کے لیے ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کہ یہی چیز اسلام کے قانون دعوت کی بنیاد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments