پی ٹی آئی نجات دہندہ یا دہشت گرد


پی ٹی آئی کے ورکرز کو فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا ہے، تو کیا اس کا امکان بھی موجود ہے کہ تحریک انصاف کو بھی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا جائے گا؟ چند روز قبل ایک معاصر صحافی نے اس سوال پر بالواسطہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا اڈیالہ جیل یا کوٹ لکھپت جانا اب مہینوں کی نہیں بلکہ چند دنوں کی بات ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ 9 مئی کے واقعات دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں، مگر عمران خان نے ایک بیان میں یہ تسلیم کیا تھا کہ اگر انہیں رینجرز نے گرفتار کیا تھا تو ورکرز نے فوجی تنصیبات کے سامنے ہی احتجاج کرنا تھا کیونکہ رینجرز فوج ہی کا ایک ادارہ ہے۔

گو کہ ریاست پاکستان میں عدلیہ نے کبھی دہشت گردی کی واضح تعریف نہیں کی ہے مگر گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں دہشت گردی اور بم دھماکوں کے بے شمار واقعات پیش آئے، ہزاروں معصوم اور بے گناہ شہری شہید ہوئے اور بہت سارے لوگ ’دہشت گرد‘ قرار پا کر مارے بھی جاتے رہے، بہت سارے لوگ مشکوک دہشت گردوں کے طور پر غائب بھی ہوئے اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات بھی چلائے جاتے رہے۔

لیکن 9 مئی کے واقعات اس لئے زیادہ خطرناک تھے کہ ان واقعات میں حساس فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے تھے جن کے بارے میں جنگ کے کالم نگار عطاءالحق قاسمی صاحب (جو عموماً ہلکے پھلے اور مزاح پر مبنی کالم لکھتے ہیں ) نے بڑے سنجیدہ اور دکھ بھرے انداز میں لکھا کہ، ’9 مئی کو دیگر شیطانی حملوں کے علاوہ ایک انتہائی خوفناک اور گھٹیا حرکت میانوالی ائر بیس پر حملہ تھا جہاں ہمارے 80 لڑاکا طیارے کھڑے تھے جن کو آگ لگانے کے لئے ٹرالیاں بھر بھر کے ایندھن، بھوسہ اور کیمیکل ساتھ لایا گیا!

‘ میانوالی ائر بیس کی یہ خبر پہلی بار سامنے آئی ہے۔ اگر یہ اور اس نوع کے 9 مئی کے دیگر خطرناک حملوں کی فوٹیج کو فوجی عدالتوں نے سنجیدہ لیا تو کچھ بعید نہیں کہ تحریک انصاف کو واقعی ایک دہشت گرد اور کالعدم جماعت قرار دیا جا سکتا ہے جس کے بارے میں وزیر دفاع خواجہ آصف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ، ’پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ‘

عمران خان صاحب نے بھی اپنے عہد حکومت میں مخالف سیاستدانوں پر دہشت گردی اور غداری کے فتوے لگائے تھے اور ان کی حکومت کے دوران بھی سیاسی مخالفین ریاستی اداروں کی مدد سے گرفتار ہوئے تھے اور ریاستی اداروں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات بھی قائم ہوئے تھے، مگر آج خود سابقہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف مکافات عمل کا شکار ہے۔ کل عمران خان کی حکومت کے وزراء اور خاص کر پختون وزراء ’پختون تحفظ موومنٹ‘ کے عہدیداروں کو ملک دشمن قرار دیتے تھے اور ’مسنگ پرسنز‘ کے لئے آواز اٹھانے والوں کو دہشت گردی سے جوڑتے تھے آج وہ خود دہشت گردی کے الزامات کی زد میں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن تو پہلے ہی عمران خان کو ’ملک دشمن‘ اور ’یہودی ایجنٹ‘ کے القابات سے نوازتے تھے۔ اب ایک طرف پی ٹی آئی کہتی ہے کہ اس کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی جا رہی ہے اور دوسری طرف حکومت اور پی ٹی آئی کے نقاد کہتے ہیں کہ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی اب سیاسی جماعت نہیں رہی ہے!

پی ٹی آئی کے حق میں ایک بہت بڑی ٹوسٹ امریکہ اور مغرب کی طرف سے یہ آئی ہے کہ بی بی سی نے 9 مئی کے واقعات پر انگریزی زبان میں ایک ویڈیو جاری کی ہے جو بہت زیادہ وائرل ہو رہی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے خلاف عدم مزاحمت معنی خیز تھی اور ان واقعات کو دہشت گردی میں بدلنے کے لئے ہجوم میں خفیہ کے لوگ شامل تھے جو ہجوم کو کور کمانڈر ہاؤس اور دیگر حساس جگہوں کو نشانہ بنانے کے لئے مسلسل اکساتے رہے۔ یہ وہی امریکہ (اور مغرب ہے ) جس کو عمران خان Absolutely Not کہا کرتا تھا اور ان کی غلامی سے نجات کا نعرہ بلند کیا کرتا تھا۔ لیکن اب عمران خان پر دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے تو آئی ایم ایف (جو امریکہ کے زیر اثر ہے ) نے بھی پاکستان کو قرضہ دینے کے لئے عمران خان پر ہاتھ ہولا رکھنے کی شرط عائد کر دی ہے!

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ دہشت گرد کون لوگ ہوتے ہیں؟ دراصل، دہشت گردی انتہاپسندی کا دوسرا نام ہے یعنی آپ صرف اپنے نقطہ نظر کو درست کہتے ہیں اور باقی ہر کسی کی رائے کو غلط سمجھتے ہیں۔ عمران خان کے نزدیک تحریک انصاف کے علاوہ باقی سب ’چور‘ تھے۔ اب نہ صرف اسی الزام کا سامنا خود پی ٹی آئی کو ہے بلکہ اس پر دہشت گردی کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ پہلے عمران خان کہتا تھا، ’میں ان چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا‘ اب حکومت عمران خان سے مذاکرات کرنے سے انکاری ہے۔

اس پر مستزاد اس قضیے کا سب سے اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو توڑ بھی دیا جاتا ہے اور اسے دہشت گرد جماعت بھی قرار دے دیا جاتا ہے تو عوام میں عمران خان کی گہری مقبولیت کو کیسے ختم کیا جائے گا؟ عمران نے عوام کو ’سیاسی شعور‘ اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا سکھایا، اپنے دور حکومت میں ’اسلاموفوبیا‘ کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز بلند کی، ’ہیلتھ کارڈ‘ اور ’شیلٹر ہاؤس‘ جیسے اچھے کام کیے اور سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے ہمدرد 9 مئی کے واقعات کو ’سول بالادستی‘ سے جوڑتے ہیں اور عمران خان کو ’نجات دہندہ‘ سمجھتے ہیں۔

پھر واضح طور پر 13 جماعتوں پر مبنی پی ڈی ایم، جس میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں انتخابات سے بھاگتی رہی ہیں جس کا یہ مطلب ہے کہ منصفانہ انتخابات ہو جائیں تو ان جماعتوں کو عمران خان سے ہارنے کا خطرہ ہے۔ دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ فوجی عدالتیں یعنی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی پر پابندی لگاتی ہے تو وہ اس کے بدلے میں ملک و قوم کو کیا دینا چاہتی ہے، وہی نون لیگ اور پیپلز پارٹی جو تین دہائیوں سے قوم و ملک پر مسلط ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو عوام کے ذہنوں میں ہلچل مچا رہا ہے کہ 75 سالوں میں نئے چہرے نہیں آئے، 12 خاندانوں کی اشرافیہ رول کرتی رہی ہے اور ملک اس حالت کو پہنچ گیا ہے تو اب اس نام نہاد اشرافیہ کو چلتا کیا جانے چاہیے تاکہ وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments