میرے دل کے تار


اچانک کچھ یوں محسوس ہوا کہ دل کی دھڑکن کچھ پکار رہی ہے۔ بس، دھڑک دھڑک دل دھڑکے اور دل ماہی بے آب ہے اور بلیوں اچھل رہا ہے جیسے محاوروں کی طرح اچانک تیز اور پھر ہلکا دھک دھک دھک کرتا یا اس کی گھڑی ٹک ٹک ٹک کرنا شروع کر دیتی حالانکہ رات کے بارہ نہیں شام کے پانچ ہی بجے تھے۔ توجہ بدلنے کو ٹی وی پر یوٹیوب کھولا تو اسی دل کی جوانی کے زمانے کا گیت گونج رہا تھا۔

” میرے دل کے تار بجیں بار بار۔“

اب ہمارا دل بھی دنیا بھر کی آبادی میں سے چنیدہ محض چند لاکھ انسانوں کی طرح واقعی تاروں پہ بجتا ہے۔ وہ بھی آئی۔ سی۔ ڈی ( امپلانٹ ایبل کارڈیک ڈی فبلی ایٹر یعنی دل کی دھڑکن کو متوازن رکھنے والا آلہ ) پہ جس کے تین تار شریانوں سے گھومتے گھامتے نہاں خانۂ دل میں پہنچ اس کی دھڑکن تال میں رکھتے ہیں۔ ہر تین ماہ بعد معائنہ کروانے ٹورنٹو کے سنی بروک ہسپتال میں حاضری دینا ہوتی ہے۔ نرس دل کے اوپر ( ہاتھ نہیں ) مقناطیس سا لٹکا دیتی ہے اور دل گزشتہ تین ماہ کی کہانیاں اور تار اپنے پہ گزری وارداتوں کو کمپیوٹر کو سنانا شروع کر دیتا ہے۔

اور آج صبح جب معائنہ شروع ہوتے ہی نرس بولی کہ اس دل کو سنبھل کے چلنا سمجھائیں۔ اب یہ عمر ایسے کاموں کی نہیں، تو ایک مرتبہ تو ہم گڑبڑا گئے کہ بیگم کی آنکھوں کے دو اتنے جدید سی سی ٹی وی کیمرے ہوتے ہم تو کوئی ایسی جراءت کر ہی نہیں سکتے۔ مگر اگلا فقرہ تھا۔ دس دن پہلے صبح دس بجے سے گیارہ بجے تک کیا بھاری کام کیا تھا۔ اوہ تو اس پگلے نے یہ بھی بتا دیا کہ اس دن کیاریوں میں پودے لگانے اور پریشر واشر سے دیوار کے پتھر دھونے کے احکام پہ عمل کیا تھا۔

یہ بتاتے ہم نے ساتھ ہی اب سیڑھیاں چڑھتے سانس پھولنے اور سیر کرتے کچھ سستانے کی ضرورت کا ذکر کیا تو اس نے کمپیوٹر پر آئی سی ڈی اور دل کو جاتے تاروں کی کچھ سیٹنگ تبدیل کرنا شروع کی۔ مجھے ویسے ہی لگا جیسے سارنگی نواز سارنگی یا اپنے سائیں مرنا اک تارہ بجانے سے پہلے سرے پہ لگے لٹو گھما گھما تار سر میں لاتے۔

اوہ۔ لگتا ہے دل ناداں کو یہ چھیڑ چھاڑ پسند نہیں آئی۔ ابھی یہ شکوہ سمجھ ہی پائے تھے کہ یوٹیوب نے اگلا گیت شروع کر دیا اور وہ تھا۔

تم تو دل کے تار چھیڑ کر، ہو گئے بے خبر۔

اور ہمیں مسئلہ پڑ گیا کہ اب بے خبر کو خبر کیسے کی جائے کہ یہ جمعہ کی شام تھی اور اگلے دو روز ہسپتال کا یہ شعبہ مکمل بند۔ اب کہ دل دھڑکنے کا سبب یاد آ گیا تھا۔ صبح چھیڑے تھے تار، اب یاد آ گیا تھا، فیصلہ ہوا کے برامپٹن کے ہسپتال کے ایمرجنسی شعبہ کی طرف دوڑا جائے۔ نکلتے نکلتے، بیتابی دل حد سے بڑھی تو گھبرا کے ( محبت نہیں جی ) دھڑکن متوازن رکھنے والی گولی بھی نگل لی۔ ایمرجنسی سٹاف نے ہاتھوں ہاتھ لیا کہ یہاں بھی دل کے معاملہ کو دل لگی نہیں سمجھا جاتا، اور فوری ٹیسٹ کے بعد دل کی فوری نگہداشت کے کمرہ میں پہنچا دیا گیا۔

اب پتہ نہیں یہاں پانچ سات ملکوں کے پس منظر رکھنے والی نرسوں ڈاکٹروں اور عملہ کی محبت ( بھرے سلوک ) کا کرشمہ تھا یا وہ گولی عارضی بھید چھپا گئی تھی کہ دل کا چین واپس آ چکا تھا اور چھ گھنٹہ اس چاہت کے گن گاتے صبح تین بجے، فی الحال سب ٹھیک ہے، کی رپورٹ اور اپنے کارڈیالوجسٹ سے فوری معائنہ کرانے کی نصیحت لئے واپس گھر آ چکے تھے۔

ہفتہ کی سہ پہر کے بعد پھر سینے میں دھڑکن، دھڑکن، یہ دھڑکن، اونچی نیچی دھڑکن، کا شور بلند ہوتا محسوس ہوا اور ”دل آج بھی سینے میں دھڑکتا تو ہے لیکن، کشتی سی تہہ آب ہے معلوم نہیں کیوں“ والی کیفیت شروع تھی۔ اب آئی پیڈ کھولا تو چچا غالب پوچھ رہے تھے

دل نادان تجھے ہوا کیا ہے
اور پھر لتا جواب دینے لگ گئیں
انتظار اور ابھی اور ابھی اور ابھی۔

اب پتہ تھا کہ دو دن تو صبر کرنا ہو گا لہٰذا یہ دو دن ”دل یہ بے چین وے، گزرے نہ رین وے، آ تال سے تال ملا۔ او۔ تال سے تال ملا“ گنگناتے گزرے اور منگل کی صبح ایمرجنسی وقت ملنے پہ لیبیا سے آ یہاں بسنے والے اپنے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ابو بکر علی گیلانی کے سامنے اکڑوں بیٹھے اونچے نیچے سانس لے رہے تھے۔ نبض پہ ہاتھ رکھتے ہی ڈاکٹر صاحب چونک اٹھے مجھے ساتھ والے کمرے میں ای سی جی کے لئے جانے کا ارشاد فرمایا اور خود فون گھمانے لگے، چند منٹ بعد ای سی جی رزلٹ کی کاپی ہاتھ میں پکڑے آئے اور فرمایا۔

”تمہارے دل کی دھڑکن جو ساٹھ فی منٹ پہ فکس کی گئی ہے بری طرح غیر متوازن چل رہی ہے۔ بس آئی سی ڈی کام دکھا رہی ہے اور بڑھتی دھڑکن کو واپس دھکیل لاتی ہے۔ سنی بروک ہسپتال ایک بجے سے پہلے پہنچو وہ تمہارا انتظار کر ہے ہیں۔“ ڈیڑھ گھنٹہ کا وقت تھا اور اتنی ہی دیر کا رستہ۔ چنانچہ بیٹے نے کار بھگائی اور ہمارے لب پروفیسر انور نقوی مصرعہ، دھڑکنیں نغمہ سرا ہیں بج رہے ہیں دل کے تار، گنگناتا اور آنکھیں ٹورنٹو شہر کے وسط میں بھی ہائی وے کی دونوں جانب دور تک پھیلتے سکڑتے درختوں کے جھنڈ اور، موسم گل کے نکھار، دیکھنے میں محو رہیں۔

اب نرس ہمیں کرسی پہ بٹھا مقناطیس دل کے اوپر لٹکا کمپیوٹر پر نئی سیٹنگ سے اس کی محبت ناکام ہونے کی کہانی پڑھ رہی تھی۔ اچانک ادھر ہمیں کچھ سر سنسناتا اور دل بیٹھتا لگا ادھر دھیمے لہجے میں پوچھا گیا ”کچھ کچھ ہوتا ہے نا“ ابھی چونک ہی رہے تھے کہ بتایا گیا کہ دل کی رفتار بہت کم کی ہے۔ ظاہر ہے ہمارا جواب یہی تھا کچھ بیٹھا بیٹھا سا لگ رہا ہے اور میٹھا میٹھا ارتعاش اٹھ رہا ہے۔ کوئی پون گھنٹہ تاروں کو سر تال میں لانے کے بعد وہ کہہ رہی تھی کہ اب سب ٹھیک ہے، جائیے اب جلد ہی آپ کے بے قرار دل کو قرار آ جائے گا۔ احتیاطاً ہسپتال کے ساتھ ہی جڑے سنی بروک پارک میں ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد ہم واپس گھر کو لوٹ رہے تھے۔ دل کے تار مدھر نغمے بکھیرنا شروع تھے اور ہم موبائل فون پہ طلعت محمود کی آواز ڈھونڈ سن رہے تھے

جو ساز سے نکلی ہے صدا، سب نے سنی ہے
جو تار پہ گزری ہے بھلا کس کو پتا ہے

اور پھر جو آواز ابھری تو ہم تہتر برس قبل بچپن میں چنیوٹ کی ٹورنگ ٹاکیز میں دیکھی پہلی فلم پکار کی کا گیت سن رہے تھے۔ پری چہرہ نسیم کی ستار پر چلتی انگلیاں سامنے تھیں اور وہ گا رہی تھی

لے نہ پوچھو زندگی کے ساز کی
زندگی آواز ہی آواز ہے۔

تراسی سالہ جوان کا دھیان ”لیتا ہے دل انگڑائیاں“ پر تھا۔ جی ہاں تراسی سال سے چلتے دل کی انگڑائیاں تو ایسی ہی ہوں گی ۔

نوٹ۔ یہ واردات حالیہ بارہ مئی سے سولہ مئی تک کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments