ترک سگریٹ نوشی کی مخالفت کیوں؟


پاکستان سن 2002 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او ) کے فریم ورک کنوینشن آن ٹوبیکو کنٹرول (FCTC) کا رکن بنا تھا، تب سے اب ( 2023 ) تک اکیس سال گزر چکے ہیں پاکستان (اور دنیا بھر) میں سگریٹ نوشوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایک رائے کے مطابق دو کروڑ نوے لاکھ ( 29,000,000 ) جبکہ بعض رپورٹس تین کروڑ دس لاکھ ( 31,000,000 ) سگریٹ نوشوں کی موجودگی کی بات کرتی ہیں، اگر پچیس کروڑ کی آبادی مان لی جائے تو پاکستان میں 12 فیصد آبادی تمباکو استعمال کرتی ہے۔

تمباکو کا ایسا استعمال جس سے دھواں پیدا نہ ہو قدرے کم نقصان دہ ہے لیکن سگریٹ کے سلگنے سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے وہ انتہائی نقصان دہ ہے۔ تحقیق کے مطابق سگریٹ کے دھویں میں قریباً سات ہزار کیمیکلز ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند کیمیکلز یہ ہیں : کاربن مونو آکسائڈ (carbon monoxide) ایک انتہائی مہلک گیس ہے اس میں زیادہ دیر تک سانس لینے سے انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ امونیا (Ammonia) ، یہ بہت تیز بو والا کیمیکل ہے جو گھروں میں صفائی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

سنکھیا (Arsenic) ، یہ زہر کی ایک قسم ہے جو چوہے مار ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسیٹک ایسڈ (Acetic acid) ، یہ بہت تیز ڈائی ہے جو بال رنگنے کی مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔ بینذین (Benzene) ، یہ کیمیکل ربڑ سے بنی سیمنٹ مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تارکول (Tar) ، ایسیٹون (Acetone) ، بیوٹین (Butane) ، کیڈمیم (Cadmium) ، سیسہ (Lead) ، نیفتھالین (Naphthalene) ، میتھینول (Methanol) اور فارمیلڈیہائیڈ (Formaldehyde) جو مردہ جانداروں کی لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لئے بطور محلول استعمال ہوتے ہیں۔

یہ چند کیمیکلز ہیں جب کہ سگریٹ کے دھوئیں میں سات ہزار تک کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ سلگنے والے سگریٹ (combustible cigarettes) سے دل اور سانس کی بیماریوں کے علاوہ کینسر جیسا موذی مرض بھی لا حق ہو جاتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کے علاوہ سگریٹ کے استعمال سے انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصانات میں بالوں کی جڑوں تک دوران خون میں کمی، جگر کی بیماریاں، دانتوں کا خراب ہونا، نظر کمزور ہونے کا خدشہ، پھیپھڑوں کی بیماریاں، ہڈیوں کا کمزور ہونا، جلد اور دل بیماریاں شامل ہیں۔

ٹوبیکو کنٹرول کے تحت جو کامیابیاں اکیس برسوں میں حاصل کی گئی ہیں ان سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس کا کیا کیا جائے!

پاکستان میں سگریٹ سے پیدا ہونے والی بیماریوں (دل و پھیپھڑوں کی بیماری اور کینسر) کے سبب 2022 میں 337,500 لوگ لقمۂ اجل بنے۔

٭ کینسر، دل اور سانس کی بیماریوں کے علاج معالجے پر پاکستان 437.76 بلین روپے (US$ 2.74 billion) سالانہ یا تمباکو نوشی سے متاثر ہونے والے کل اخراجات کا 71 فیصد خرچ کرتا ہے جو صحت کے کل بجٹ کا 8.3 فیصد ہے۔

پاکستان میں بارہ سو ( 1200 ) سے زیادہ بچے روزانہ سگریٹ نوشی کا شکار ہوتے ہیں۔ ملک میں بیس ملین سے زیادہ کم عمر یا چھوٹے بچے سگریٹ نوش ہیں، قانوناً اٹھارہ سال سے کم عمر افراد سگریٹ نوشی نہیں کر سکتے۔

اب تک جو بھی قوانین بنائے گئے ہیں اگر ان پر عمل درآمد صدق دل سے کیا جاتا تو آج صورتحال مختلف اور قدرے بہتر ہوتی، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال اور ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کی جو صورت ہے وہی ٹوبیکو قوانین پر عملدرآمد کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں بھی کھلے سگریٹ فروخت ہو رہے ہیں۔ دکاندار اور خریدار دونوں ہی اٹھارہ برس سے کم عمر کے ہوتے ہیں۔ پبلک پارکوں میں لوگ سگریٹ نوشی کر رہے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں پشاور میں تعلیمی اداروں کی حدود میں سگریٹ بیچنے پر ایکشن لیا گیا تھا، غرض یہ کہ قانون جیسا بھی ہے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ذمہ داری متعلقہ محکوموں کی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن فریم ورک کنوینشن آن ٹوبیکو کنٹرول ( ڈبلیو ایچ او FCTC) کے کل 38 آرٹیکل ہیں، یہاں ان میں سے چیدہ چیدہ آرٹیکلز کا طائرانہ جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جو اس مضمون کا تقاضا ہے۔ پاکستان 27 فروری 2005 سے ڈبلیو ایچ او ۔ FCTC کا رکن ہے۔

آرٹیکل : 5.3 ”ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن فریم ورک آن ٹوبیکو کنٹرول ( ڈبلیو ایچ او FCTC) کے اس آرٹیکل کا مقصد مضبوط ٹوبیکو کنٹرول پالیسیوں سے تمباکو کی صنعت کے نقصان دہ اثرات سے لوگوں کو بچانا ہے“ ۔

آرٹیکل : 6 تمباکو کی مانگ کو کم کرنے کے لئے قیمت اور ٹیکس کے اقدامات
آرٹیکل: 8 تمباکو کے دھوئیں کی نمائش (افشا) سے تحفظ
آرٹیکل: 13 تمباکو کی تشہیر، پروموشن، اور سپانسر شپ کے بارے میں ہے
آرٹیکل: 14 تمباکو پر انحصار اور اس کے خاتمے سے متعلق اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے

” ہر فریق قومی حالات اور ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے سائنسی شواہد اور بہترین طریقوں پر مبنی مناسب، جامع اور مربوط رہنما خطوط تیار کرے گا، پھیلائے گا اور موثر بنائے گا“ ۔

مذکورہ تمام آرٹیکلز تمباکو اور سگریٹ کے نقصانات کی بات کرتے ہیں اور یہ کہ تمباکو کے پھیلاؤ، اس کے نقصانات سے بچاؤ اور اسے محدود تر کرنے کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔ البتہ آرٹیکل 14 تمباکو کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔ اسی بات کو سائنسی انداز میں کہنے اور موجود نسل سے تمباکو کے مکمل خاتمے کی بات کی مخالفت سمجھ سے بالا تر ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے چارٹر کے مطابق تمباکو کے خاتمے کی بات کو پسندیدگی سے دیکھنے اور اس آواز میں اپنی آواز شامل کرنے کی بجائے اس کی مخالفت چہ معنی دارد! تمباکو اور سگریٹ سازی کی صنعت کے پھیلاؤ اور منافع کی ایک مختصر تصویر ملا حظہ ہو:

﴾ 2018 میں دنیا کی چھ بڑی سگریٹ ساز کمپنیوں کا انکم ٹیکس ادا کرنے سے پہلے کل منافع 55 بلین ڈالر تھا

﴾ دنیا کی سب سے بڑی سگریٹ بنانے والی کمپنی ’چائنا نیشنل ٹوبیکو کارپوریشن‘ ہے۔ اس کی سالانہ آمدنی 273 بلین امریکی ڈالر ہے

﴾ 2021 میں گلوبل ٹوبیکو مارکیٹ کا حجم 849.9 بلین امریکی ڈالر تھا، ماہرین کی توقع کے مطابق 2022۔ 2030 تک مرکب سالانہ نمو کے ریٹ سے یہ حجم 2.4 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے

﴾ پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے مطابق تمباکو کی صنعت پاکستان کی معیشت میں سالانہ 200 بلین روپے ادا کرتی ہے

اور سگریٹ نوشی کے سبب دنیا میں سالانہ اسی لاکھ لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک طرف چند سرمایہ داروں کا انتہائی منافع بخش کاروبار اور حکومتوں کو ملنے والا ریونیو ہے اور دوسری طرف انسانی جانوں کا یوں کھپت جانا! آج کی مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں ان بیماریوں کے سبب انسانوں کا لقمۂ اجل بن جانا جن بیماریوں کا علاج ممکن ہے، باعث تشویش ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ڈبلیو ایچ او اور ایف سی ٹی سی کا رکن ہونے کی حیثیت میں آرٹیکل 14 پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائے، قومی صحت پالیسی کی تشکیل میں تمام سٹیک ہولڈرز خصوصاً سگریٹ نوشوں کو شامل کرے، دیگر ترقی یافتہ ممالک جنہوں نے اپنے ہاں سے سگریٹ نوشی کو بہت محدود کر دیا ہے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترک سگریٹ نوشی کے لئے متبادل مصنوعات کے لئے قانون سازی کو جلد از جلد ممکن بنائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments