تیرا جو راستہ میرا وہ راستہ، مزہ اور ڈر
مجھ سے کوئی گناہ ہو جائے تو مجھے باتیں سنانا مجھے چھوڑنا مت۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ دعا ہے اور خدا کا ترلا کر رہا ہوں۔ اپنا ترلوں منتوں کا کوئی تعلق نہیں بیسٹی سے یاری دوستی ہے۔ اس میں بھی ڈیل یہ ہے کہ میں جا رہا، جب میں پھنس جاؤں بزتی کرنا پر زیادہ بزتی نہ کرانا، چھڑانے بروقت پہنچنا۔ میری فلم ہی نہ دیکھتے رہنا۔ ہے نہ مزے کا تعلق؟ اور وہ بھی ڈر خوف کے بغیر۔
بندہ یہاں سے اٹھے اور سیدھا جا کر کسی نہ ماننے والے کے پاس بہہ جائے۔ جو کہے کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ آپ سوچیں کہ یار اتنی بڑی دنیا یہ اک اکیلا بغیر آسرے اور خدا کے یہ زندگی منانے نکلا ہے۔ یہ پھنسے گا تو دعا بھی نہیں مانگے گا۔ لاجک سوچتا رہے گا دوست دشمن محبت تعلق اور انہونیوں کے جواز بھی نہیں ڈھونڈ سکے گا۔ کرے گا کیا؟ اسے تسلی دینا تو ضروری ہے کہ تیرا جو راستہ میرا وہ راستہ۔ مشکل بہت آئے گی دل مت چھوڑنا۔ ساتھ بیسٹی کو آنکھ مار دینی کہ اس کا دھیان رکھنا۔
اک لڑکی ہو جس نے عشق کے شہر میں قدم رکھا ہو۔ اپنا دل تو اسے دعا دیتا ہے کہ تمھیں کبھی یک طرفہ محبت نہ کرنی یا سہنی پڑے۔ جب بھی محبت ہو دو طرفہ ہو۔ محبت اک مزہ رہے کبھی ڈر نہ بنے۔
جو اپنی بجائے لوگوں کی زندگی آسان بنانے نکلے۔ اسے بتانا ہے کہ اس سفر میں پریشانی بہت ہے۔ تم بہت نادانیاں کرو گے۔ گھبرا مت جانا۔ تمھیں سکھا تو دوں کہ صبر کیسے کرنا ہے۔ چلتے کیسے اور کیوں رہنا ہے۔ پر اپنے سبق خود سیکھو میں بس تمھیں چلتے دیکھنا چاہتا ہوں۔
ہم خفا ہوں یا خوش اپنوں کو اپنے اردگرد دیکھنا چاہتے ہیں۔ جنہیں قدرت سے یار انعام ہوئے ہیں۔ وہ جب ڈوبتے یا ڈولتے ہیں تو یہ یار ان کے دکھ درد کا علاج ان کی سرجری کر کے کرتے ہیں۔ تکلیف بڑھ جاتا ہے آنسو اور ہنسی اکٹھے آتے ہیں۔ پر علاج ہو جاتا ہے۔
دل میں لگی ان ساری محفلوں کے ساتھ اردگرد رش لگا ہونا چاہیے تھا۔ ہوا یہ ہے کہ اکیلے رہنا اچھے لگنے لگا ہے۔ چپ رہنے کا زیادہ مزہ آتا ہے۔ بولنے سے ڈر لگتا ہے۔ چپ زیادہ باتیں کرتی ہے۔ باتیں اکثر بکواس لگتی ہیں۔ نکے نے ایک بار کسی سے خبردار کیا تھا کہ اسے نہ ملنا، اس نے بیسٹ فرینڈ بن جانا ہے پھر بھگتیں گے۔ تو ایسے اور ہر طرح کے دوستوں سے بھی رج گئے ہیں، نہیں چاہئیں۔
چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا۔ کوئی دندناتا آتا یا آتی ہے۔ ساری رکاوٹیں گراتے ہوئے پاس آ کر بہہ جاتا ہے۔ میری بات نہیں سنو گے، سننی پڑتی ہے۔ نہ بھی سنائے تو دل خود ہی سن لیتا ہے کہ یہ کدھر کدھر سے خجل ہوتا آیا ہے۔ ننگے پیر پھرنے والوں کا ایک رولا ہوتا۔ انہوں نے دھول اڑائی ہوتی ہے۔ بارش کے بعد گیلی مٹی پیروں کو لگی ہوتی ہے۔ کانٹے پیروں میں چبھے ہوتے ہیں۔ کانٹے نکالے ہوں تو لہو مہکتا نکلا ہوتا ہے۔ پتھریلی زمین پر چلے ہوں تو پیروں نے چھالے پھوڑے ہوتے ہیں۔ ایسے جب پاس آ کر بیٹھتے ہیں تو مہک ساتھ آتی ہیں۔ وہی بات کہ جدھر جاویں مہکتے جاویں۔
ایسا سا کوئی کہیں ہو دل خود ہی اس کے پاس جا کر بہہ جاتا ہے اور ساتھ ٹیک لگا لیتا ہے۔
پھر یہ بولیں یا چپ رہیں، فرق کیا پڑتا ہے؟ ، چپ ہی کتنی باتیں کرتی ہے۔ اپن بھی بس اب چپ ہی رہنا چاہتا ہوں۔ کئی زبانیں سمجھ آتی ہیں، کئی زبانوں میں گیت سنے ہیں جو روح تک گئے ہیں۔ اپنے لیے لکھا کرتے تھے۔ خود کو خوش کرتے تھے۔ یہ سب بہت دور کسی کو اپنی باتیں لگنے لگی، وہ ساتھ دل جوڑ کر بہہ گیا۔ اس نے اپنا سمجھا ہے، اچھا سمجھا ہے۔ ہم نہ اپنے بن سکے اور نہ اچھے تھے۔ اپنے نکے کا ویسے بھی سارے دوستوں کے نام پیغام ہے کہ تم ہو گے میرے دوست میں تمھارا دوست ووست کوئی نہیں۔ نکے کا یہ ڈائلاگ بھی چل گیا، اپنا نہیں چلتا۔
اپنے تعلق واسطوں کو جو دور رہتے ہیں۔ کبھی ملے ہیں یا نہیں ملے کبھی۔ ان سب سے کہتا تو یہی ہوں کہ تیرا جو راستہ میرا وہ راستہ۔ ڈر لگا رہتا ہے کہ منافقت پہچان نہ لے اور مزہ ختم نہ ہو جائے۔ اس لیے اب کچھ کہنے سے چپ رہنا زیادہ بہتر لگتا ہے۔ رولا یہ ہے کہ تعلق بلوچ سے ہو، مہران سے افغان سے یا باڈر پر کسی افغان سے، حوالہ انسان ہونا ہی ہیں۔ دکھ اصلی ہیں تسلیاں جھوٹی ہیں۔ ایک کے ساتھ چلو یا اس کے لیے بولو تو دوسرے سے دور ہوتے جاؤ۔ ایسے میں چپ تعلق بنائے رکھتی ہے، اور پردہ رہ جاتا ہے کہ یہ اپنا ہی ہے۔
- تیرا جو راستہ میرا وہ راستہ، مزہ اور ڈر - 24/06/2023
- کپتان افغانستان کے حوالے سے کیوں فکرمند ہیں؟ - 20/12/2022
- النہیان کزنوں کی اسرائیل سے پاکستان تک بچھائی بساط – ولاگ - 01/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).