ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی تحریر اور ردعمل
گزشتہ دنوں مشہور مضمون نگار خاتون ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے عورتوں کی زبوں حالی اور بے چارگی کو موضوع بنایا تھا۔ اور پورے وثوق سے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عورتوں کی پاکدامنی کو یقینی بنانے کے لیے مرد ان کے جنسی عضو کو تالا لگاتے ہیں۔ اس کو انہوں نے مویشیوں کی نکیل سے تشبیہ دی۔ ان کے بقول جنسی عضو کو تالا لگانے کا مقصد مرد کی بالادستی، عورت کی غلامی اور جنسی بے راہ روی کی روک تھام ہے۔
جب میں نے یہ مضمون دیکھا اور پڑھا تو حیران رہ گیا کیونکہ قبائلی علاقوں کے بارہ میں ایسی ہوشربا اطلاع میرے لئے بالکل نئی تھی۔ میں نے کچھ افریقی ممالک میں زنانہ جنسی عضو کے بارے میں ضرور سنا تھا۔ لیکن مجھے ذرا بھی شائبہ نہ تھا، کہ ایسی قبیح رسم ہمارے ہی قبائلی علاقوں جاری و ساری ہوگی۔ لیکن یہ کہنا ضروری ہوجاتا ہے۔ کہ ڈاکٹر صاحبہ کی یہ اطلاع درست نہیں ہے۔
یہ یقینی ہے کہ قبائلی علاقوں کے بارے میں بہم پہنچائی گئی معلومات نادرست ہیں۔ ان کی اساس پر ایک غلط فہمی نے جنم لیا اور یہی غلط فہمی مضمون کی کج روی کی بنیاد بنی۔
ان کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے، کہ لوگ بیوی کی اوقات گھریلو مویشیوں گائے اور بھینس کے برابر بلکہ بعض اوقات اس سے بھی کمتر اور اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ تبھی مالک ضروری سمجھتا ہے کہ اپنی عورت کے جنسی عضو کو تالا لگائے، اور اس کی پہرے داری کرے۔ تا کہ کوئی اٹھا کر نہ لے جائے، یا اس کی عدم موجودگی میں اس کے عضو خاص کی تالابندی کے سبب اس کی عفت کی حفاظت یقینی بنی رہے۔ اور کوئی غیر اس کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔ موصوفہ اس شوہر کے متعلق یہ خیال آرائی کرتی ہیں۔ کہ ہو سکتا ہے تالابندی سے مراد شوہر کی اپنی بیوی پر بے اعتمادی بھی ہو، کہ کیا پتہ اس کی غیر موجودگی میں وہ ناہنجار عورت کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے، جس سے شوہر کی عزت پر حرف آئے۔ لہٰذا تالا لگا کراس کی چابی جیب میں رکھنا بہت ضروری ہے۔
ان کے بقول شوہر چابی جیب میں رکھ کر دوبارہ اس وقت استعمال میں لائے گا، جب اس کو اس عورت کے ساتھ جنسی فعل قائم کرنا ہو گا۔ اس کے بعد پھر تالا لگا کر چابی جیب میں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے تالابندی کے اثرات کی جو منظرکشی کی ہے۔ وہ نہایت اندوہناک اور تشویشناک ہے۔ صنف نازک کے ساتھ ایسا سلوک بہت دکھی کرنے والا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ نے مصر، شمالی اور وسطی افریقہ کے کچھ ممالک میں جاری کسی ایسے ہی ظلم و ستم کا ذکر کیا ہے۔ وہاں ایسا ہوتا ہو گا۔ کیونکہ شمالی افریقہ کے حبشی ملکوں کے بارے میں ہم نے بھی ایسی قبیح اور ظالمانہ رسم کا سنا ہے۔ مگر پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بارے میں ایسی اطلاع اور تشویش غلط فہمی پر مبنی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں بڑی حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کہ موصوفہ نے ہوشربا انکشافات کہاں سے اکٹھے کیے ہیں۔
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے علاقے میں جاری اس ناپسندیدہ رسم سے قطعاً بے خبر ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کے بقول یہ اطلاع ان کو ایک ایسی لیڈی ڈاکٹر نے بہم پہنچائی۔ جو قبائلی علاقوں میں کام کرتی رہی ہے۔ اور جس کو عورتوں کی بے کسی اور بدحالی پر بہت دکھ تھا۔
فرض کریں، کہ ایک جنونی اور ذہنی مریض شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ تالابندی والی ناگوار حرکت کی ہو، جو کہ اس ڈاکٹر کے مشاہدہ میں آئی ہو، تو کچھ نہیں کہہ سکتے۔
یاد رہے پاکستان میں شہری اور دیہی علاقوں میں عورتوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے حوالے سے فرق ہے۔ پاکستان عورتوں کے لئے جنت تو ہرگز نہیں۔ شہری علاقوں میں بھی مجموعی طور پر عورتوں کے ساتھ بہت زیادہ مثالی سلوک نہیں کیا جاتا۔ تا ہم شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں عورتوں کے ساتھ بہت امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک پسماندہ معاشرہ ہونے کے ساتھ ایک پدرسری معاشرہ بھی ہیں۔ یہاں عورتوں کے لئے حالات اتنے سازگار نہیں ہیں یہاں چاہے شہری ماحول ہو، چاہے دیہی، یہاں عورتیں قدم بہ قدم مصائب جھیلتی ہیں۔ قدیم اور منجمد رسم و رواج کے علاوہ چادر اور چار دیواری کی سماجی بندشوں کی وجہ سے عورتوں کو نوکری، تعلیم اور کاروبار کے وہ مواقع میسر نہیں ہیں جو مردوں کو میسر ہیں۔
اگرچہ شہری علاقوں میں بھی عورتوں کے لئے آئیڈیل حالات نہیں ہیں۔ مگر دیہی علاقوں میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ اس طرح دیہی علاقوں کے مقابلہ میں قبائلی علاقوں کے دیہات میں حالات اور بھی مخدوش اور دلخراش ہو جاتے ہیں۔ جہاں قدیم قبائلی کلچر صدیوں سے سخت گیری کے ساتھ قائم و دائم ہے۔ جس کی بنیادی خصوصیات میں سے ہے کہ عورت کو ہر حوالے سے جکڑ کر رکھا جائے۔ دور دراز واقع قبائلی دیہات میں قدامت پرستی کے سختی کے ساتھ رائج ہونے کی وجہ سے عورتوں کے لئے تعلیم اور روزگار تو کجا، عورت گھر کی چاردیواری میں بھی قید زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اسے جائیداد میں بھی حصہ نہیں دیا جاتا۔ تعلیم اور شعور و آگہی کی کمی کی وجہ سے نہ عورت کو اپنے شہری حقوق کا پتہ ہے نا مردوں کو۔ وہاں ریاستی سطح پر بھی نظرانداز کرنے کی پالیسی چل رہی ہے۔
ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ تالابندی کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ کے مضمون کا ردعمل آنے کی صورت میں ڈاکٹر صاحبہ کی وضاحت بھی سامنے آ چکی ہے۔ کہ قبائلی علاقوں سے مراد ان کا مطلب پختونوں کے قبائلی علاقے نہیں ہیں۔ بلکہ سندھ اور بلوچستان کے اندرونی اور پسماندہ علاقے ہیں۔ لیکن شاید سندھ اور بلوچستان میں بھی صورتحال اس قدر دگرگوں نہ ہو۔ کہ تالابندی تک نوبت آئے۔ ہاں اگر کسی پاگل شخص نے انفرادی طور پر ایسا کچھ کیا ہے۔ تو اسے باقی سارے معاشرے ہر محمول نہیں کر سکتے۔
- ارشد ندیم اور سیاسی کھلاڑی - 17/08/2024
- شیخ حسینہ واجد کے فرار پر بنگلہ دیش میں جشن کا سماں - 06/08/2024
- شیخ حسینہ واجد ایک بے رحم ڈکٹیٹر کے روپ میں - 05/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).