کوچہ بغداد سے براہ راست


سوشل میڈیا پہ کوا کان لے گیا کے محاورے کی بہت پذیرائی ہوتی ہے۔ عقل تو کہتی ہے کہ خدا کے بندے پہلے اپنے کان تو چیک کر پھر واویلا مچانا مگر کیا مجال کہ بندا عقل کے گھوڑے کو گھاس ڈالے اور ذرا سی سوچ بچار ہی کر لے۔ دماغ بے چارہ تو پہلے ہی پچاسیوں الجھنوں میں گرفتار ہے اسے بلا وجہ کی زحمت کیوں دی جائے؟ ارے بھئی اگر کسی موضوع پہ معلومات نہیں ہیں اور کسی عقل والے سے پوچھنے میں سبکی محسوس ہوتی ہے تو گوگل بابا تو ہمہ وقت ہتھیلی میں ہوتے ہیں ان سے ہی پوچھ تاچھ کر لو مگر یہاں تو ہر کس و ناکس اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہی عقل کل ہے اور اسی کا فرمایا ہوا درست ہے چاہے وہ عقل کی کسوٹی پہ پورا اترتا ہو یا نہیں۔

ملا تو فساد فی سبیل اللہ کے سلسلے میں بہت پہلے سے بدنام ہے مگر اب پتہ چل رہا ہے کہ دیگر طبقات بھی اس معاملے میں خاصے خود کفیل ہیں۔ بات بے بات سر پہ کفن باندھ میدان کارزار میں کود پڑتے ہیں۔ بات نہ ہوئی غزوہ ہند ہو گیا جس میں حصہ لینے کو ہر کوئی بحر ظلمات میں گھوڑا دوڑانے کو بیتاب ہے۔ شوق شہادت عروج پہ پہنچ جاتا ہے۔ علامہ اقبال تو کہہ گئے ہیں کہ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔ یہاں تک تو درست ہے مگر اگلے مصرعے میں علامہ فیل ہو گئے کہ کشور کشائی کی طلب تو ہر دل میں ہے اور مال غنیمت مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے اس لیے کر کر لمبے ہاتھ ہر کوئی سمیٹتا ہے۔

ہمارے ہاں کریٹیکل تھنکنگ اسکول اور کالج کے لیول پہ سکھائی نہیں جاتی۔ یہی وہ سٹیج ہوتی ہے جب بچے سوال و جواب کا فن سیکھتے ہیں۔ ہم نہ سوال کرنا جانتے ہیں نہ جواب دینا۔ سوال کرنے کی اول تو اجازت ہی نہیں، بالفرض محال سوال کر بھی لیا جائے تو خشمگیں نگاہوں اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں بال کی کھال نکالنے کی عادت تھی اماں مرحومہ ہمارے بے سروپا سوالات سے تنگ آ کر کمر پہ ایک دھموکا جڑ کر کہتی تھیں کہ چپکی رہو۔

جوابات کا تو اس سے بھی برا حال ہے۔ لکھے لکھائے جواب موجود ہیں ان سے ایک حرف کا بھی انحراف ممکن نہیں وگرنہ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ ان حالات میں ذہنی نشو و نما کیسے ہو سکتی ہے؟ انگریزی میڈیم اسکولوں میں یہ مضمون قریباً پندرہ سال پہلے متعارف ہوا تھا وہ بھی اے لیولز میں، موجودہ دور کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ کیا حالات ہیں۔ لاجک اور کریٹیکل تھنکنگ یونیورسٹی لیول پہ تو شاید ہوں مگر کتنے لوگ اس مضمون کو پڑھتے ہیں اس کے اعداد شمار بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

اس مضمون سے عدم واقفیت بہت سے مسائل کا سبب بنتی ہے۔ جب بھی کوئی تحقیق یا نئی بات سامنے آتی ہے تو پبلک لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور ایسی ایسی غیر منطقی اور بیہودہ باتیں سامنے آتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بات چھیڑنے والے کا ہوم ورک مکمل نہیں ہوتا اور وہ لاجیکل دلائل کا جواب نہیں دے پاتا۔ سنجیدہ مسائل کو افسانوی رنگ دینا بھی لاجیکل رویہ نہیں۔ نیت اچھی بھی ہو تو یہ بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ معاشرتی بگاڑ اس نہج پہ پہنچ چکا ہے کہ بات بے بات جگت بازی ہوتی ہے۔

تضحیک کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں۔ اس ماحول میں بیچارے اہل علم دانتوں میں انگلی دابے فریقین کا بے بسی سے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے ہار مان لی ہے۔ ہم خدائی فوجدار تو ہیں نہیں کہ ہر کس و ناکس کو سمجھاتے پھریں۔ یہ قلم اٹھتا ہی اس وقت ہے جب حالات بہت زیادہ دگرگوں نظر آتے ہیں۔ یوں بھی ہمارے لکھنے یا نہ لکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ کمزور سی آواز تو اس توتی کے مصداق ہے جس کی نقار خانے میں کوئی نہیں سنتا۔

بھیڑ چال کا محاورہ اسکول کے زمانے میں پڑھا تھا اس کا عملی مظاہرہ کینیا میں جانوروں کی ریور کراسنگ کے موقع پہ دیکھا۔ یہ بہت خوبصورت نظارہ ہی نہیں بلکہ اس میں سمجھنے کو بھی بہت کچھ ہے۔ میلوں پھیلے رقبے پر بھانت بھانت کے ہزاروں جانور گھنٹوں دریا کے کنارے خاموش کھڑے رہتے ہیں ایسے کہ جیسے کسی گہری سوچ میں مستغرق ہوں یا انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ ہمارے گائڈ نے بتایا تھا کہ کبھی کبھار یہ عمل کئی دنوں پہ محیط ہوتا ہے اور سیاحوں کو مایوس لوٹنا پڑتا ہے۔

ہم خوش قسمت تھے کہ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد محظوظ ہونے کا موقع ملا۔ ان میں سے کوئی ایک عاشق نامراد جی کڑا کر یاہو کا نعرہ لگا کر آتش عشق میں بے خطر کود جاتا ہے۔ اس کے بعد دے مار ساڑھے چار کے مصداق سب کے سب یاہو کے نعرے لگاتے بنا سوچے دریا میں کود پڑتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ اسی یاہو کے انتظار میں تھے۔ یہ تمام کارروائی بہت جلد مکمل ہو جاتی ہے۔ ڈر انسانوں کی ہی نہیں جانوروں کی فطرت کا بھی حصہ ہے۔

بس یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ یہاں کوئی بحث چھڑ جائے تو دنوں چلتی رہتی ہے بالکل اسی طرح جیسے کبھی گزرے زمانے میں بغداد کے گلی کوچوں میں ایسے مباحث ہوا کرتے تھے کہ کوا حلال ہے یا حرام۔ آج نجانے کیوں قلم کے ہاتھوں کوے کی شامت آئی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہر معاملے میں مذہب کو گھسیٹا جاتا ہے چاہے در معقولات میں اس کی دخل اندازی کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ مطالعہ پاکستان ہر سبجیکٹ میں پڑھایا جائے گا تو اثرات بھی ہوں گے۔

ہم کس مضمون کا در پردہ ذکر کر رہے ہیں یہ تو آپ سمجھ ہی جائیں گے۔ ڈرتے ورتے تو خیر نہیں بس اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آ جاتا۔ بات ہو رہی تھی کوے کی تو شنید یہ بھی ہے کچھ لوگوں کا کوا کالا ہوتا ہے کچھ کا سفید۔ ارے بھئی کچھ ملکوں میں سفید رنگ کے کوے بھی پائے جاتے ہیں اور ہم اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ اب یہ نہ پوچھنے بیٹھ جائیے گا کہ ہمارا کوا کالا ہے یا سفید؟ ہمارا تو کوا بس کوا ہے کائیں کائیں کرتا ہوا۔ دشمنی پہ اتر آئے دنوں تاک میں لگا رہتا ہے، ٹھونگیں مارے بغیر اسے چین نہیں پڑتا، ہم نے اپنی شرارتوں کے کارن بچپن میں اس کی بہت دشمنی بھگتی ہے۔

سنسنی پھیلانا یا بھس میں چنگی ڈال تماشا دیکھنے کا کبھی شوق نہیں رہا اور نہ ہی شعور اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ اس محاورے سے بھی اتفاق نہیں کہ بد نام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔ اس سے زیادہ ہمیں کچھ نہیں کہنا کہ آپ ہم سے کہیں زیادہ سمجھدار ہیں۔ سوچتے رہیے کہ سوچنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم تو چلے اپنی بکری کو دانہ پانی ڈالنے کہ کافی دیر سے ممیا رہی ہے۔ انسانوں کے دانہ پانی کی تو ریاست کو ہی فکر نہیں تو جانوروں کا کیا خاک خیال ہو گا۔

ہم ہی اس کا خیال کر لیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس گفتگو میں کوچہ بغداد کہاں ہے۔ ہم نے سوشل میڈیا کو کوچہ بغداد کا نام دے رکھا ہے اور فی الحال تو براہ راست یہی کچھ ہے۔ متنازع امور کے پچڑے میں ہم نہیں پڑتے بس اتنا کہے دیتے ہیں اچھی خاصی گولہ باری کے بعد اب سرد جنگ جاری ہے۔ ہم منتظر ہیں کہ کوچہ بغداد میں اگلی بار کس موضوع کی شامت آتی ہے پھر اس کی رپورٹ کے ساتھ حاضر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments