الیکشن کا التوا اور سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی
آخر وہی ہوا جس کے بارے کئی سیاسی پنڈت کافی عرصے سے پیشین گوئیاں کر رہے تھے کہ عام انتخابات نوے دن میں نہیں ہوں گے۔ نگران سیٹ اپ زیادہ عرصہ کے لئے چلے گا مگر کچھ لوگ اس لئے اس بارے شکوک و شبہات کا شکار تھے کہ آئین میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ان آئین پرستوں کو جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہے ہیں ان کی اپنی ان سیاسی جماعتوں نے ان کے ان شکوک و شبہات ختم کرنے کے لئے جاتے جاتے کچھ خاص اقدامات کیے ایک تو نگران حکومت کو اضافی اختیارات سے نوازا گیا۔
پھر مشترکہ مفادات کونسل کا ایک اجلاس طلب کیا گیا اور ڈیجیٹل مردم شماری پر ایم کیو ایم سمیت کئی جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود اس مردم شماری کی منظوری دے دی گئی تاکہ الیکشن کے التوا کے لئے جواز پیدا کیا جا سکے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر موجود کچھ آئین پرست اراکین نے جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ان اقدامات کی مخالفت میں آواز بھی اٹھائی مگر یہ آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔ حتی کہ سینٹ نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعہ الیکشن نوے دن کے اندر کرانے کا مطالبہ کیا حالانکہ اسی سینٹ کے کئی اراکین کابینہ کے ارکان ہیں جو مردم شماری کی منظوری میں پیش پیش رہے۔
تو کیا مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کے التوا کا جواز پیدا ہو چکا ہے؟ کم از کم الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اس بات پر پورا یقین ہے اس لئے الیکشن کمیشن نے پرانی حد بندیوں کو مسترد کرتے ہوئے نئی مردم شماری کے مطابق نئی حد بندیوں کا اعلان جاری کر دیا اور اس مردم شماری کے مطابق صوبوں کے درمیان قومی اسمبلی کی سیٹوں کی ازار نو تقسیم ہو گی اور صوبوں کے اندر صوبائی آ اسمبلیوں کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔
نئی مردم شماری کے بعد نئی حد بندیاں کرنا ایک آئینی مجبوری بھی ہے۔ مگر کیا نوے دن کے اندر الیکشن کروانا بھی آئینی مجبوری نہیں ہے؟ اس حوالہ سے آئین کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آخر سپریم کورٹ کے اپنے مسائل ہیں ان کو اور زیادہ مسائل میں الجھانا شاید مناسب نہیں سمجھا گیا۔ مگر الیکشن کے التوا سے قبل آنر ایبل چیف جسٹس آف پاکستان سے محترم چیف الیکشن کمشنر کی دو گھنٹے کی ملاقات کی ضرور خبر آئی۔ مگر وہاں جو معاملات زیر بحث آئے ان کے بارے کوئی خبر نہیں آئی۔
اب ایک بات تو واضح ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل کم ازکم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نوے دن سے آگے الیکشن لے جانے پر برضا و رغبت راضی ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف جلد از جلد الیکشن کا انعقاد چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کچھ دوسرے درجے کے رہنما الیکشن وقت پر کرانے کی دہائی دے رہے ہیں مگر مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کی منظوری سے عیاں ہے کہ پیپلز پارٹی کی ہائی کمانڈ کو فوری الیکشن کی کوئی جلدی نہیں۔ اب مردم شماری کے بعد حد بندیوں کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد کیا سیاسی صورتحال پی ڈی ایم کے لئے موافق ہوگی اور وہ الیکشن کے لئے تیار ہوں گی اس حوالے سے مسلم لیگ کا زیادہ انحصار سپریم لیڈر نواز شریف کی وطن واپسی پر ہے تاکہ وہ اپنے ووٹرز کو موبلائز کر سکیں۔
مگر ان کی واپسی میں بھی مختلف آئینی و قانونی مشکلات حائل ہیں۔ یہ اگلے چند ماہ میں واضح ہو جائے گا۔ کیا نگران حکومت معیشت کو مستحکم کر پائے گی موجودہ نگران حکومت کی غیر جانبداری اور غیر سیاسی کردار پہلے سے ہی زیر بحث ہے۔ عمومی طور پر نگران حکومت میں شامل شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی جانبداری کے حوالے سے مختلف پارٹیاں اعتراض نہ اٹھائیں اور ان کی زیر نگرانی جو الیکشن ہوں اس کے نتائج کو تمام جماعتیں تسلیم کر لیں مگر اس بار صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کچھ جماعتوں نے اپنے وفاداروں کو مختلف وزارتوں پر براجمان کروا لیا ہے اس لئے مستقبل قریب میں اگر الیکشن ہوتے ہیں تو ان کے نتائج سے تمام جماعتوں کو مطمئن کرنا بہت مشکل ہو گا جس سے ملک میں جاری عدم استحکام مزید بڑھ سکتا ہے سیاسی محاذ آرائی اور جمہوری قدروں کے فقدان کے ماحول میں معاشی استحکام قائم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
سرمایہ اس ماحول میں نہیں ٹکتا اور سرمایہ کہیں بہتر جگہ پر ہجرت کر جاتا ہے لگتا ہے اس طرح عوام کو مہنگائی کے عذاب مزید کافی عرصہ بھگتنا پڑے گا۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت الیکشن کروانے کے لئے حکومت پر پریشر ڈالنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی جیسا کہ عمران خان کی گرفتاری پر وہ کوئی بڑا احتجاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس لئے لگتا ہے معاملات عدالتوں میں جائیں گے۔ نئے چیف جسٹس کے لئے الیکشن کا معاملہ حل کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا اور وہ اس پر کیا رائے رکھتے ہیں اور کیا وہ سپریم کورٹ متحد کر لیتے ہیں تاکہ اس کے فیصلوں پر عمل درآمد سنجیدگی سے ہو یہ خاصی اہمیت کا حامل ہو گا۔
اس دوران حکومت لوکل گورنمنٹ الیکشن کی طرف بھی جا سکتی ہے اور جس کے انعقاد پر عام انتخابات اور کچھ دیر کے لئے التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس دوران لگتا ہے جوں جوں انتخابات تاخیر کی طرف جائیں گے پاکستان تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی جائے گی۔ اس کے کئی ایسے ارکان جو اپنا ووٹ بنک رکھتے ہیں ان پر پریشر بڑھتا جا رہا ہے اور وہ اس شش و پنج میں ہیں کہ ان مشکل حالات میں تحریک انصاف سے اپنی وابستگی جاری رکھیں یا تحریک انصاف کے بطن سے نکلنے والی دو پارٹیوں استحکام پاکستان پارٹی اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرین میں شامل ہو جائیں۔
لگتا ہے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف کیسز کی جو بھر مار کی گئی ہے ان کا جلد جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا اور ابھی کچھ مزید عرصہ ان کو شاید پابند سلاسل رہنا پڑ جائے۔ بہرحال سیاسی و معاشی استحکام حاصل کرنے کے لئے اس انتہائی سیاسی محاذ آرائی کے ماحول کو ٹھنڈا کر نا پڑے گا۔ ملک کو درپیش بڑے بڑے مسائل پر سوچ بچار اور ان کے حل کے لئے اقدامات اس موجودہ ماحول میں ممکن نہیں لگتے۔
- جنرل الیکشن اور پارٹیوں کی صف بندی - 07/12/2023
- نواز شریف کی واپسی اور انتخابات - 01/11/2023
- انتخابات، احتساب اور معیشت - 17/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).