خواتین کو با اختیار بنائیں


ویمن امپاورمنٹ یا خواتین کو با اختیار بنانا در اصل اعتماد، اختیار اور مساوی حقوق دینے کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال اور قدر و قیمت کو نمایاں کرنا بھی ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو خواتین کے معاشی، سماجی، سیاسی اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔

اگر آئین، قانون اور اخلاقیات کے مطابق ضروریات، ذمہ داریوں اور معمول کے کاموں کی انجام دہی کے لئے آپ کو اپنے عمل اور فیصلے میں آزادی اور خود مختاری حاصل ہے تو آپ با اختیار کہلاتے ہیں۔ با اختیار ہونے کا مطلب ہر گز حد سے تجاوز کرنا یا سرکشی نہیں ہے۔

گھر ہو یا دفتر، سیاست کا میدان ہو یا حکومتی عہدہ، مرد ہو یا عورت، بے اختیار یا با اختیار ہونا حقوق، حدود اور آزادی کا پتا دیتا ہے۔

یہ اور بات کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں
مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے

کچھ لوگ دوسروں کے لئے اختیار کے حامی نظر آتے ہیں اور کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو جبر کی طرف داری کرتے ہوئے دوسروں کے اختیار کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں، یعنی کہ وہ خود تو با اختیار ہونا چاہتے ہیں لیکن دوسروں پر جبر مسلط کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ خواتین کے ساتھ یہ سلوک اور حق تلفی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ دین اسلام میں جبر نہیں ہے۔ اگر اختیار کا وجود نہ ہو تو جزا، سزا، پچھتاوا، نیکی، بدی، صحیح، غلط اور مداوا بے مقصد اور بے معنی ہو جائیں۔ اللہ کی رضا سے مشروط، ہر انسان اپنے عمل پر با اختیار اور جواب دہ ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک کالم میں خواتین کے با اختیار ہونے اور دین اسلام میں ان کو دیے گئے حقوق پر میں مختصر بات کر چکا ہوں، آج تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔ ظہور اسلام کے ساتھ معاشرے میں ایک نمایاں تبدیلی آئی جس میں عورتوں کو ان کے حقوق دیے گئے، پہلے جس سے محروم رکھا جا رہا تھا۔ دین اسلام نے عورت کو مرد کی طرح با اختیار قرار دیا ہے۔ آج کے دور میں خواتین کی حق تلفی کرنے والے تو ملیں گے لیکن اسلام کی طرف سے عورتوں کو عطا کردہ حقوق سے انکار ممکن نہیں ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ النحل میں ارشاد ہوا ہے۔

جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے۔ جزا اور سزا کا انحصار اعمال پر ہے، مرد ہو یا عورت، البتہ جسمانی ساخت اور بناوٹ کی بنیاد پر کچھ ذمہ داریاں خاص طور پر مرد کے لئے مقرر کر دی گئی ہیں اور کچھ کام خواتین کے لئے مختص ہیں۔

قائد اعظم کے فرمان کی روشنی میں خواتین قوم کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں جن کی تربیت سے بچے قابل فخر شہری بن سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔

میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ حصول پاکستان کی طویل جدوجہد میں مسلمان خواتین اپنے مردوں کے پیچھے مضبوطی سے ڈٹی رہی ہیں۔ تعمیر پاکستان کی اس سے بھی سخت اور بڑی جدوجہد میں، جس کا ہمیں اب سامنا ہے، یہ نہ کہا جائے کہ پاکستان کی خواتین پیچھے رہ گئیں یا اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی کوششوں میں مردوں کی طرح خواتین کا کردار بھی بہت نمایاں رہا ہے۔ قائد اعظم قلم اور تلوار کے ساتھ خواتین کو تیسری طاقت کہا کرتے تھے اور عورتوں نے یہ ثابت کر کے دکھایا۔ فاطمہ جناح، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، بیگم رعنا لیاقت علی خان، شاہنواز بیگم، امجدی بانو، فاطمہ صغریٰ، بیگم شفیع اور بے شمار خواتین کے نام تاریخ میں موجود ہیں جو اس عظیم جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ نظر آئیں۔

پرانے دور کی روایات اور سوچ ہر گز درست نہیں ہیں کہ عورت کو گھر کے کام کاج کے علاوہ کچھ کرنے کے قابل نہ سمجھا جائے یا جبر کیا جائے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ میں کسی با اختیار اور تجارت میں سربراہی کرتی ہوئی عورت کا بہترین نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت اور سیرت اعلی مثال ہے۔

آج کے دور میں ایک ایسے معاشرے میں عورتوں کی خود مختاری کو تسلیم کرنا اور کروانا آسان نہیں ہوتا ہے جہاں مردوں کو ہر میدان میں غلبہ اور فوقیت حاصل ہو۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ایک مرد کو دوسرے مرد و خواتین کی سربراہی کا حق حاصل ہے اسی طرح عورت کی قابلیت کو تسلیم کیا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ وہ بھی اعلی مقام پر پہنچنے کا حق رکھتی ہے۔ عورت کو با اختیار بنانے کا یہ مقصد نہیں کہ مرد ٹی وی ڈرامہ بلبلے کے نبیل جیسا نکھٹو ہو جائے اور عورت کو اپنی لالچ اور غیر منصفانہ مقاصد کے لئے استعمال کرے، اس بات کو سمجھنے کے لئے قائداعظم کا یہ فرمان ذہن میں رکھیں کہ دنیا کی کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی ہے جب تک اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہ لیں۔ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں بند کرنے والے انسانیت کے مجرم ہیں۔

حال ہی میں جاری ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2023 میں پاکستان کو 146 ممالک میں سے 142 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جبکہ صنفی مساوات کی شرح 57.5 فیصد ہے جو کہ 2006 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ 2022 میں پاکستان 146 میں سے 145 ویں نمبر پر تھا۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صنفی بنیادوں پر تنخواہوں میں پایا جانے والا فرق اتنا زیادہ ہے کہ زیادہ تر خواتین کو سالانہ پانچ سو بلین روپے ادا کیے ہی نہیں جاتے ہیں، جو اصل میں ان کا حق اور جائز معاوضہ ہوتا ہے۔

سینئر جرنلسٹ فوزیہ کلثوم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جس طرح عورتوں کی اکثریت کو ایک قدم پیچھے رہتے ہوئے مجبوری کی

زندگی گزارنا پڑتی ہے، اسی طرح پیشہ وارانہ زندگی میں بھی اکثریت مردوں کی غالب ہے۔ عورتوں کو روزگار دینے والے بھی زیادہ تر مرد ہوتے ہیں کیونکہ اعلیٰ عہدوں پر عورتیں بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔

پاکستان میں کچھ ادارے ایسے ہیں جہاں واقعی عورتوں کے حقوق اور مساوی سلوک پر خاص توجہ دی جاتی ہے، ان میں سے اینگرو ایک مشہور گروپ ہے جہاں مختلف شعبوں کی سربراہی کرتی خواتین دیکھی جا سکتی ہیں، باقی کمپنیوں اور اداروں کو اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ دور کی پاکستانی با اختیار خواتین میں ایک پاکستانی ایرو اسپیس انجینئر ڈاکٹر سارہ قریشی ہیں جن کے مطابق ہوائی جہاز کا ایک ایسا انجن انہوں نے تخلیق کیا ہے جو فضا میں نقصان دہ گیسوں کا اخراج کم سے کم کر کے فضائی سفر کے ذریعے پھیلنے والی آلودگی کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کرکٹ میں ثنا میر کے نام سے سب واقف ہیں اور آرکیٹیکٹ یاسمین لاری بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں جو طویل عرصے سے پاکستان میں آرکیٹیکچر کے شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں حکومتی، تجارتی اور معاشی اداروں کے لئے بہت سی عمارتیں ڈیزائن کی ہیں اور اس وقت وہ کم قیمت، زیرو کاربن اور زیرو ویسٹ ماحول دوست تعمیرات کے لئے کام کر رہی ہیں۔ یاسمین لاری کو برطانیہ کے رائل انسٹیٹیوٹ آف برٹش آرکیٹیکٹس کی جانب سے ماحول دوست تعمیرات کے اعتراف میں رائل گولڈ میڈل سے نوازا گیا ہے جو آرکیٹیکچر کے شعبے میں جدت کے لئے متاثر کن کام کرنے والے افراد یا گروپ کو دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں ابھی بھی جینڈر ڈائیورسٹی اور ویمن امپاورمنٹ پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ مساوات اور خواتین کو با اختیار بنانے کا نظریہ صرف خواہشات، گفتگو یا تحریر تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ عملی زندگی میں اس کا نظر آنا بھی ضروری ہے۔ تعلیم اور عملی میدان میں خواتین کو بھرپور مواقع ملنے چاہئیں اور ان کو وہ اختیارات حاصل ہوں کہ اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کے ذریعے گھر، خاندان، نسل اور ملک کو بہتری کی طرف لے جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments