اشفاق احمد۔ تعلیمات، اصلیت اور افسانہ
یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ، جب انسان بیمار پڑتا ہے تو علاج کی خاطر کسی طبیب کا رخ کرتا ہے، تاکہ جلد سے جلد صحت یاب ہو کر دوبارہ کاروبار زندگی کی طرف لوٹ سکے۔ تاہم یہ طبیب کی قابلیت پر منحصر ہے کہ وہ مرض کی تشخیص کیسے کرتا ہے، اور اس کا علاج کیا تفویض کرتا ہے۔ اگر وہ ایک حاذق طبیب ہے، ماہر نباض ہے، تو مرض کی ظاہری علامات کی بجائے، اس کی حقیقی وجوہات کو تلاش کر کے، ایسا علاج تجویز کرے گا جو اس بیماری کو جڑ سے ختم کردے۔ لیکن اس کے برعکس طبیب ایک ایسا شخص ہو جو محض ظاہری علامات کو دیکھ کر ، مریض کے لئے نسخہ تجویز کردے تو وہ مریض بظاہر بہت جلد شفایاب تو ہو جائے گا، لیکن یہ شفا نہ صرف عارضی ہوگی بلکہ درون خانہ مرض کو اور زیادہ بڑھا دے گی۔
کچھ یہی حال پاکستان کے ان نیم جاہل بابوں کا بھی ہے، جس میں ایک نام اشفاق احمد کا ہے، جو اپنے تئیں حکیم الامت اور شمس العلماء بن کر ، پاکستان کی پریشان حال عوام کے مسائل کا علاج تجویز کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر چونکہ ان کی نظر محدود اور بصیرت نامی صفت سرے سے ناپید ہوتی ہے، سو یہ ظاہری علامات دیکھ کر ، نسخہ جات تجویز کر دیتے ہیں کہ یہ مرض کا علاج ہے۔ لیکن وہ علاج نہیں ہوتا۔ اور آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اشفاق احمد و مثلھما کے نصائح اور پند، جو بہت خوبصورت انداز میں اقوال زریں کی شکل میں بیان کیے جاتے ہیں، لیکن وہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کی وجہ جاننا چنداں مشکل نہیں ہے۔
اشفاق احمد کے افکار کا آپ مطالعہ کریں، ان کا ریکارڈ شدہ پروگرام زاویہ دیکھ لیں یا ان کے ڈرامے جن میں بالخصوص من چلے کا سودا شامل ہے، وہ ملاحظہ فرما لیں، وہ آپ کو نہایت عمدہ پیرائے میں مثالوں کی صورت میں سمجھا کر ، نیکی کی تلقین کرتے نظر آئیں گے۔ ان کے یہاں قصوں، کہانیوں، کرامات اور معجزات کی کوئی کمی نہیں ہے، اور وہ پورے شد و مد کے ساتھ مخاطب کو تصوف کی راہ سے سمجھاتے ہوئے، قائل کرتے نظر آئیں گے کہ، کیسے ہم چھوٹی چھوٹی اور آسان نیکیوں کی مدد سے معاشرے کو جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں۔ اور مخاطبین اس پہ سر دھنتے یوں نظر آتے ہیں کہ گویا اشفاق احمد نے کائنات کے سارے سربستہ خوشی کے راز، ان کے سامنے کھول کے رکھ دیے ہیں۔
اگر ہم اشفاق صاحب کے ان افکار کا جائزہ عقلی لحاظ سے لیں، اور پھر اس کائنات کے میکنزم پہ غور کریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اشفاق صاحب دراصل نہ صرف اپنے مخاطبین کو گمراہ کرتے رہے ہیں بلکہ انہیں حقیقت سے بھی دور کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ اشفاق صاحب تصوف کے زیر اثر جو باتیں کرتے ہیں، وہ کائنات کے نظام اور اس کے اندر کارفرما قوانین کے خلاف ہیں۔ مگر اشفاق صاحب ان سے الگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے، متبعین کو تصوف کے گورکھ دھندے اور فرضی کہانیاں سنا کر ، ایک الگ ہی دنیا بنائے بیٹھے رہے۔
یہ کائنات ایک نظام کے تحت چل رہی ہے، جس میں کچھ قوانین کارفرما ہیں۔ اور وہی اقوام اور ممالک یہاں غالب ہوتے ہیں جو ان قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ نظام فرد پہ غالب ہو کر، اس کی ثقافت، زبان، تہذیب و تمدن، اخلاقیات، معاملات اور عبادات کا رخ متعین کرتا ہے۔ چنانچہ جیسا نظام ہو گا، اخلاقیات، معاملات اور تہذیب وغیرہ بھی ویسی ہوگی، جو ہر فرد کو متاثر کرے گی۔ مگر بدقسمتی سے اشفاق صاحب کے یہاں سوچ اس کے الٹ ہے۔
ان کے نزدیک فرد کے اعمال و افکار انفرادی حیثیت میں اتنے موثر ہوتے ہیں کہ وہ مجموعی حیثیت سے سماج کی حرکیات، اس کے افعال، اس کے معاملات اور اخلاقیات کا رخ بدی سے نیکی کی جانب موڑ سکتے ہیں۔ یہ وہ دھوکہ ہے جس کی وجہ سے ہم اس مغالطے میں پڑے ہیں کہ فرد کی اصلاح سے معاشرے کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ چاہے نظام کیسا بھی ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اشفاق احمد کے افکار اس دھوکے پر مبنی کیوں ہیں؟
یہ لوگ دراصل طبقہ اشرافیہ کے نمائندے اور ان کے مفادات کے محافظ ہوتے ہیں، مگر عوام کی نظر میں ان کی شخصیت کا تاثر ایک حکیم، عالم اور دانا کے طور پہ یوں کروایا جاتا ہے، جو مسائل کے حل اور بے سکونی کے لئے نسخہ جات تفویض کرنے میں ماہر مانے جانتے ہیں۔ چونکہ یہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، لہذا ان کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سامنے لاکر، عقل و شعور سے پیدل خلقت کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے، جہاں یہ نیکی، خشیت الہی، تقویٰ، رہبانیت، زہد، پاکیزگی اور تصوف کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں۔
اشفاق احمد اور اس کے قبیل کے دوسرے اشخاص، ان سب کی ذاتی زندگی پر اگر ایک نظر ڈالیں تو یہ لوگ، ہر آمر کے ہدی خواں بن کر ، مالی منفعت سمیٹتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان کا رہن سہن عمدہ، خوراک پوشاک بہترین، مادی نعمتیں وافر مقدار میں موجود، اور زندگی مسائل سے پاک ہوتی ہے، لہذا یہ سب بابے آپ کو ایک شاہانہ زندگی گزارتے نظر آئیں گے۔ خود یہ لوگ لگژری قسم کی زندگی سے لطف اندوز ہو کر، جب بڑھاپے کی منزل پہ پہنچ جاتے ہیں، تو اپنے یہاں مجالس سجا کر ، وہاں نئی نسل کو گزرے زمانے کے بابوں کے فرضی قصے، جھوٹ سے مزین کہانیاں، تقویٰ کے کھوکھلے معیارات اور زہد و تقویٰ کی تلقین کر کے گمراہ کرتے نظر آئیں گے۔
آپ ان کی مجالس میں بیٹھیں اور وہ تمام مسائل جن میں غربت، لاقانونیت، کرپشن، سماجی، معاشی اور عدالتی نا انصافی، معاشی ناہمواری، جہالت، غربت، بے روزگاری وغیرہ شامل ہیں اس پہ ان کے واعظ سنیں تو یہ آپ کو انفرادی نیکی، انفرادی راست گوئی، انفرادی خشیت الہیٰ، انفرادی صدقہ و خیرات، انفرادی نیک چلنی اور انفرادی تزکیہ کی تلقین کریں گے اور یہی ان کے نزدیک اصل علاج ہے۔ جو بظاہر کتنا خوشنما اور حقیقی نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ غیر حقیقی ہونے کے ساتھ ساتھ، ناپائیدار اور کھوکھلا بھی ہے۔ کیونکہ انفرادی افعال سے سماج کے اجتماعی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اگر سماج کے اجتماعی مسائل انفرادی افعال سے حل ہوسکتے تو پھر قانون اور عدالت کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔
اشفاق احمد ایک بھرے ہوئے پیٹ والے شخص کے مسائل کا حل تو پیش کرتے نظر آئیں گے، مگر ہمارے سماج میں جو بھوک ننگا ناچ رہی ہے، ناخواندگی کا جو سیلاب ہے، معاشی ترقی سست روی یا جمود کا شکار ہے وغیرہ وغیرہ ان کا حل کیا ہے، اس کا جواب اشفاق احمد کے ہاں ناپید ہے۔ آخر کیوں یہاں چند خاندان ہی امیر ہیں اور ملک کے وسائل پہ قابض ہیں؟ اس ملک میں جمہوریت کو کیوں نہیں چلنے دیا جاتا؟ یہاں کے عوام کی رائے کو اسٹیبلشمنٹ تسلیم کرنے کی بجائے، کیوں اپنے فیصلے مسلط کرتی ہے؟
یہاں کیوں چند خاندانوں اور اداروں کو سبسڈی دے کر ، اس کی قیمت عوام سے وصول کی جا رہی ہے؟ ہمارا بچہ بچہ جو قرض کے بوجھ تلے دبا ہے، یہ قرض کہاں خرچ ہوا؟ کون اس سے مستفید ہوا؟ کون ہے جو اس ملک کی ترقی نہیں چاہتا؟ یہ سوالات اور ان کے جوابات آپ کو اشفاق احمد کے ہاں کہیں بھی نہیں ملیں گے۔ آخر کیوں؟ اس لئے کہ جس طبقے کی وجہ سے یہ مسائل ہیں، اشفاق احمد اسی طبقے کا ترجمان اور نمائندہ ہے۔ اور جو یہی چاہتے ہیں کہ سچ کو مصنوعی لفاظی کے سہارے یوں چھپا لیا جائے کہ لوگ، اس طرف سوچنے کو بھی گناہ سمجھیں۔
اشفاق احمد اور اس جیسے کردار ہر دور میں آپ کو ملیں گے اور یہ وہ کردار ہیں جو ہر دور کے آمروں نے اپنے دربار میں اسی غرض و غایت سے رکھے ہوتے ہیں، جن کا مقصد اور کام اپنی چرب زبانی، قصہ گوئی اور کذب بیانی سے عوام کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہر دور کے آمر کو ہمیشہ سے اس بات کا خدشہ لاحق رہا ہے کہ کہیں عوام اس کے خلاف بغاوت نہ کر دیں، سو اس بغاوت کے جراثیم کو کچلنے اور عوام کے اندر سوچنے کی صلاحیت کو تلف کرنے کے لئے جو نسخہ ہر آمر کے ہاں ہر دور میں آزمودہ رہا ہے، وہ اشفاق احمد جیسے بابے ہیں، جو عوام الناس کو جابجا تلقین کرتے نظر آئیں گے، کہ زندگی کی یہ مشکلات سیاسی عدم استحکام، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، جمہوریت کے قتل، قانون کے عدم نفاذ، آمروں کی لوٹ کھسوٹ، آئین شکنی کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہارے اپنے گناہوں اور مذہب سے دوری کی وجہ سے ہیں۔
اب بات جب مذہب پہ آ جائے تو کون بے وقوف ہو گا جو اس سے ہٹ کر یہ سوچنے کی کوشش کرے گا کہ ان مسائل کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟ کیا یہ خدا ہے جو اپنے بندوں پہ سختی اور ظلم کرتا ہے؟ کیا یہ مذہب کی تعلیمات ہیں جو آمر کو آئین شکنی کرنے کا جواز فراہم کرتی ہیں؟ کیا یہ خدا کی تعلیمات ہیں کہ وسائل پہ چند لوگ قابض ہو کر، دنیا کے ایک بڑے حصے کو بھوک سے ماریں؟ لیکن یہ درباری قصہ گو اور واعظین اس بات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اگر ان تلخ حقائق کو عوام الناس کے سامنے لایا گیا، تو پھر وہ سوچنا شروع کر دیں گے، جس کا نتیجہ بغاوت کی صورت میں برآمد ہو گا۔
چنانچہ اشفاق احمد جیسے درباری بابے اور قصیدہ گو، عوام الناس کے جذبہ حریت کو کچلنے، سوچ کو منتشر کرنے اور عقل کو گمراہ کرنے کے لئے ایسی فرضی کہانیاں تراشتے ہیں جن کا مقصود فکری گمراہی اور جہالت پھیلا کر ، اس ممکنہ بغاوت کے جذبے کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب عوام الناس کے اندر سے یہ سوچ ہی ختم کردی جائے، کہ ان کے یہ مسائل چند ہوس پرستوں کی وجہ سے نہیں بلکہ قدرت کی طرف سے ہیں تو پھر وہ کسی اور طرف کیوں سوچیں۔
- محبت کی ایک کہانی - 20/09/2023
- اشفاق احمد۔ تعلیمات، اصلیت اور افسانہ - 14/09/2023
- بھول - 09/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).