ڈاک خانے سے کتاب بھیجنے کی روداد


 یاد نہیں پڑتا کہ آخری بار ڈاک خانے کب گئے تھے۔ شاید بیس برس تو ہو گئے ہوں گے۔ بلکہ کبھی کبھی تو ان کی ’پرشکوہ‘ عمارات کو دیکھ کر یہ خیال آتا تھا کہ اب آخر ان کا کام ہی کیا رہ گیا ہے؟ خط لکھنا لکھانا کب کا قصہ پارینہ ہوا۔ لوگ ضروری کاغذات اور ساز و سامان نجی کوریئر کمپنیوں سے بھیجتے ہیں جو رفتار و کردار میں اللہ کی برہان لگتی ہیں۔

پھر سر جھٹک کر خود کو تسلی دے لیتے کہ اس ملک میں جب سب کچھ ہی بے مقصد ہو رہا ہے تو ہمیں ایک ڈاکخانے پر ہی اعتراض کیوں ہے؟ آخر متوسط و غریب طبقہ اس سے مستفید ہوتا ہے۔ اس کے نرخ کم ہیں۔ اور پھر اب حکومت نے اسے جدید دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی تو کر دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستانی ہے۔ اس سے ہماری حکومت کو فائدہ ہوتا ہے۔ وہ جو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی عوام امیر جبکہ حکومت غریب ہے وہ اسی وجہ سے تو ہے کہ لوگوں کا اپنی حکومت سے اعتبار ہی کچھ ایسا اٹھ گیا ہے کہ وہ نجی اور غیر ملکی کمپنیوں کو دگنے پیسے دے دیتے ہیں مگر حکومتی کمپنی کو نصف پیسہ دے کر کام لینا گوارا نہیں کرتے۔

بس یہ خیال آنا تھا کہ ہم بے چینی سے اس دن کا انتظار کرنے لگے کہ کب ہمیں کوئی ڈاک بھیجنی پڑے اور کب ہم پاکستان پوسٹ کے ذریعے بھیج کر ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ خدا خدا کر کے آج وہ دن آیا۔ ہمیں ایک دوست کو ملتان ایک کتاب ارسال کرنی تھی۔ آج تک چونکہ ٹی سی ایس اور لیوپارڈ کوریئر استعمال کرتے آئے تھے جن کے دفتر فقط سامان پہنچانا ہی کافی ہوتا ہے بلکہ اب تو وہ اپنی مخصوص سروسز میں ایک فون کال پر مطلوبہ جگہ سے بھی سامان اٹھوانے اپنی گاڑی مع عملہ بھیج دیتے ہیں۔

ان کمپنیوں نے چونکہ ہماری عادتیں خراب کر رکھی تھیں لہذا ہم بھی کتاب بغل میں داب کر منہ اٹھا کر چل دیے اور مرکزی پوسٹ آفس پہنچ گئے۔ ایک ادھیڑ عمر دربان مرکزی دروازے پر کچھ اس طرح سے حالت مراقبہ میں تھا کہ اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھیں۔ سر دیوار سے لگائے خدا جانے کن جہانوں کی معراج پر پہنچا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اسی کی عمر کا ایک میٹل ڈکٹیٹر تھا  ہم اس سے پہلو بچا کر نکلنے ہی والے تھے کہ یکایک اس میں سے ’ٹیں‘ کی آواز آئی اور چلہ کش بزرگ نے غیض کے عالم میں لال انگارہ آنکھوں سے ہمیں دیکھا گویا کہتے ہوں ’شرم نہیں آتی ملنگوں کو ڈسٹرب کرتا ہے؟ ‘

ہم کچھ کہے سنے بغیر آگے چل دیے تو پیچھے سے زور سے پکارے۔
’بیگ چیک کرا۔ اس میں کیا ہے؟‘
’پپ پانی ہے انکل۔ ٹھنڈا پانی۔ سادہ پینے کا پانی۔ گرمی ہے ناں بہت۔‘
’بہت پیاس لگی ہے۔ ادھر پلاؤ ذرا‘

ہم نے بیگ سے بوتل نکال کر دی تو چاچے نے غٹاغٹ ساری بوتل پی کر ایک ڈکار ماری۔ اور بوتل میں بچا آخری گھونٹ ہماری طرف بڑھا کر نیم وا آنکھوں سے کہا

’پانی پیانا ثواب دا کم اے ( پانی پلانا ثواب کا کام ہے ) ‘
اور دوبارہ محو مراقبہ ہو گئے۔

میں ڈاک خانے کے اندر داخل ہوا تو وکٹورین عہد کی اس قدر وسیع و عریض عمارت دیکھ کر حیران و پریشان ہو گیا۔

حیران تو اس لئے کہ اپنی عظمت رفتہ کی یاد دلاتی اس عظیم الشان عمارت میں کم و بیش ڈیڑھ سو ٹی سی ایس کے دفاتر سما سکتے تھے۔ اور پریشان اس لئے کہ سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ کدھر کو جانا ہے۔ یہ اپنے آپ میں کسی پلیٹ فارم یا ہوائی اڈے کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ایک کشادہ ہال کمرا جو کئی حصوں پر مشتمل تھا۔ ہر حصے پر الگ الگ کاؤنٹر بنے ہوئے تھے۔ ارجنٹ پارسلز اور بڑے حجم کا ساز و سامان پیک کرنے کے لئے سلائی مشین اور کپڑے موجود تھے۔

کپڑا اس قدر وافر مقدار میں تھا کہ محسوس ہوتا تھا گورنمنٹ نے کسی ٹیکسٹائل مل سے ٹھیکہ کیا ہوا ہے اور ڈاک بھیج کر جو کپڑا شام کو بچ رہتا ہو گا وہ ڈاک کے ملازمین گھر لے جاکر اہل خانہ کو سلوا دیتے ہوں گے۔ سنگ مرمر سے آراستہ ایک اونچی ریسپشن خالی پڑی تھی۔ دیواروں پر مسجدوں میں لگے ڈیجیٹل وال کلاکوں کی طرح کے ڈسپلے چل رہے تھے جن پر بیرون ملک ڈاک روانگی، ان کے اوقات کار، ارجنٹ میل سروس، ایکسپریس میل سروس، اندرون ملک ڈاک ڈلیوری، مختلف شہروں میں موجود پاکستان پوسٹ کی سروس اور کچھ جدید ترین سروسز جو پاک پوسٹ نے متعارف کرائی ہیں ان کی مشہوری چل رہی تھی۔ ان میں سے ایک ’سیم ڈے ڈلیوری‘ بھی تھی۔ اس کے نرخ سب سے زیادہ یعنی عام ڈاک سے چار گنا اور ارجنٹ میل سے دوگنا تھے۔ مگر اس کے لئے تین شرائط بھی تھیں۔

اول۔ منزل مقصود بیس کلومیٹر کے احاطے میں ہو۔
دوم۔ اس روٹ پر اسی دن میں آپ کے بعد بیس سے زائد ڈاکیں بک ہوجائیں۔
سوم۔ ڈاکخانے کی موجودہ گاڑیوں میں سے کوئی ایک اس دن اپنا مقررہ روٹ جلدی نمٹا کر واپس آ جائے۔

بصورت دیگر آپ کا سیم ڈے ڈلیوری میں بک کیا گیا پارسل نارمل ڈلیوری میں جائے گا۔ ابھی ہم کھڑے یہ چیزیں پڑھتے کہ پیچھے سے کوئی زور سے آ ٹکرایا۔

’بھائی سائیڈ پر ہو لے۔ دکھتا وکھتا نہیں اے کیا؟‘

سوری کہہ کر ایک طرف کو چل پڑے۔ بندے پر بندا چڑھا ہوا تھا۔ حبس کے مارے برا حال تھا۔ پنکھے برائے نام چل رہے تھے۔ لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ ہم چکرا گئے۔

الہی! جاؤں کدھر کو میں؟
ایک کاؤنٹر پر نظر پڑی۔ ایک خوب صورت خاتون شاید بیٹھی فیس بک چلا رہی تھیں۔
میڈم!
جی سر؟
میں : یہ کتاب بھیجنی ہے۔
خاتون : تو بھیج دیں۔
میں شاید اس جواب کے لئے تیار نہ تھا۔ اس لئے سوچنے لگا کہ اب کیا کہوں۔
میں : کیسے بھیجوں؟
خاتون : جیسے مرضی بھیج دیں۔
مجھے ہنسی آ گئی۔ ساتھ میں ان کو بھی آ گئی۔

خاتون: نارمل بھیجنی ہے یا ارجنٹ؟
میں : دونوں میں فرق کیا ہے؟
خاتون : ادھر ادھر دیکھ کر قدرے آہستہ بولیں، پیسوں کا۔ پہنچنی ایک ہی ٹائم پر ہے۔
میں : بس پھر نارمل بھیج دیں۔ پہنچ تو جائے گی ناں؟

خاتون : دعا کریں۔ آپ یوں کریں وہ جو کاؤنٹر نمبر 9 پر بابا جی بیٹھے ہیں ان سے اس کا وزن کرائیں۔ وہ آپ کو باقی کا پروسیجر سمجھائیں گے۔

میں ان کا شکریہ ادا کر کے کاؤنٹر 9 پر آیا۔

ایک بابا جو شاید نصف صدی کے پیٹے میں تھے کرسی پر ادھ موئے ہوئے پڑے تھے۔ میں نے بغیر کسی تمہید کے کتاب ان کی طرف بڑھا دی۔ انہوں نے لے کر اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پھر با آواز بلند اس کا نام دہرایا۔ پھر بار دگر ان کی جلد کا جائزہ لیا اور پھر اسے کھول کر پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔ میں سمجھا شاید فہرست دیکھتے ہوں گے۔ مگر تا بہ کے؟ جب ایک کے بعد ایک صفحہ پڑھتے ہوئے تیسرے صفحہ پر پہنچے تو میں نے کھنگار کر آواز دی

’ بابا جی! ‘
عینک کے اوپر سے غصیلی نظر سے دیکھتے ہوئے فوراً کتاب بند کی۔ گہری سانس لے کر بولے اچھی کتاب ہے۔
’جی مجھے معلوم ہے۔ یہ بھیجنی ہے۔ ‘
کہاں؟
ملتان۔

اچھا تو آپ اسے وہ سامنے کاؤنٹر نمبر پانچ پر لے جائیں۔ کیا ہے کہ میرا ترازو کل سے خراب پڑا ہے۔ صاحب کو بتایا ہوا ہے۔ وزن ہو نہ پائے گا۔

میں کتاب لے کر پانچ نمبر کاؤنٹر پر آیا۔ یہاں والا چاچا ذرا مستعد تھا مگر نو نمبر کا ’ترازو‘ خراب ہونے کے بعد اوور لوڈڈ تھا۔ وزن کرایا۔

اس نے ترش روئی سے پوچھا
ایسے ننگی کیسے بھیجوں؟ تھیلا نہیں لائے؟
ایں؟ تھیلا؟
ہاں ہاں تھیلا۔ بیگ۔ لاؤ تیس روپے دو جلدی۔ رش بہت ہے۔
کس چیز کے؟
انہوں نے ایک لفافہ میری طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا۔
اس چیز کے۔

اب اس پر نام پتہ لکھ کر اور یہ بارہ ٹکٹیں چپکا کر سامنے والے کاؤنٹر پر جمع کروا دیں۔ ٹکٹ کے پیسے دیتے جائیں۔

کیسے چپکاؤں؟
وہ سامنے میز پر گوند پڑی ہے اس سے۔
میز پر گیا تو وہاں گوند کی کٹوری بالکل خالی پڑی تھی۔ واپس اسی کے پاس آیا۔
’وہ گوند کی پیالی بالکل خالی ہے۔ ‘

’پتہ نہیں بھائی اس میں گوند ڈالنا میرا کام نہیں۔ ویسے ٹکٹ کے پیچھے حکومت نے کچھ لگایا ہوا ہے آپ اسی پر تھوک لگا لو۔‘

میں دوبارہ اسی میز پر آیا۔ اور پتہ لکھتے ہوئے ٹکٹیں چپکانے کا کوئی معقول بندوبست سوچنے لگا۔ اتنے میں ایک شخص جو کافی دیر سے مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا میرے ہاتھ سے پنسل لیتے ہوئے بولا

’ایک منٹ مل سکتی ہے ذرا؟‘

اب میں اسے کیا بتاتا کہ آپ پہلے ہی لے چکے ہیں۔ اسی سے پوچھا یہ گوند کہاں سے ملے گی؟ وہ سامنے تیسری میز پر ایک پیالی میں تھوڑی سی رہ گئی ہے جلدی جا کر چپکا لیں۔ ٹکٹ چپکا لفافے کو بند کر سنی ہوئی انگلیاں لئے پہلی میز پر واپس آیا تو پنسل والا رفو چکر ہو چکا تھا۔ پارسل جمع کرانے والے کاؤنٹر پر پہنچا تو ایک طویل قطار تھی۔ اس میں ٹھہر گیا۔ ایک مدت کے بعد میری باری آئی تو کیا دیکھتا ہوں کمپیوٹر کے سامنے ایک پیر فرتوت اس قدر موٹے محدب عدسے کی عینک لگائے بیٹھے ہیں کہ اگر دھوپ میں نکل جائیں تو ان کی برف کی مانند سفید بھنویں آگ پکڑ لیں۔

انہوں نے لرزتے ہاتھوں سے پارسل لیا۔ ڈیڑھ منٹ پتہ پڑھنے میں لگایا۔ پھر ٹائپ رائٹر اور کی بورڈ کے درمیانی عرصہ کی ایک مشین کی مدد سے یہ پتہ سسٹم میں چڑھانے لگے مگر اس رفتار کے ساتھ کہ اتنی دیر میں آدمی آرام سے کھانا وغیرہ کھا کر بازار سے ہو کر اور دیگر حوائج ضروریہ سے فراغت پاکر آئے تو آنجناب کو پتے کے آخری الفاظ ٹائپ کرتا ہوا پائے۔ یہ ایک بار لفافے سے ایک لفظ پڑھتے، کی بورڈ پر مطلوبہ حرف ڈھونڈتے تو اس لفظ کے ہجوں کا دوسرا حرف بھول جاتے، دوبارہ لفافے سے رجوع فرماتے اور دوسرا حرف دیکھ کر کی بورڈ پر تشریف لاتے تو انکشاف ہوتا کہ پہلا حرف ٹائپ کرنا بھول گئے ہیں۔ سالم ایک منٹ سر مغزن کر کے پہلا حرف ڈھونڈتے اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا۔ میں پسینے میں شرابور کھڑا یہ تماشا دیکھتا تھا کہ اچانک انہوں نے گرج کر کہا

یہ نیچے پوسٹل کوڈ کون لکھے گا؟
میں نے کہا مجھے پوسٹل کوڈ یاد نہیں۔
پر جلال انداز میں فرمانے لگے 46000 ہے۔
’ جی بہتر مگر کوئی میری پنسل لے گیا۔ آپ لکھ دیجے۔ ‘
قطار میں کھڑا پچھلا شخص : ہو سکتا ہے بھول گیا ہو۔ الزام کیوں لگاتے ہیں؟
اس سے پچھلا : ہاں ہاں۔ بالکل ایسا ہے۔ حسن ظن رکھنا چاہیے۔
اس سے پچھلا : چل کوئی بات نہیں یار یہاں لے گیا اگلے جہان تو دے گا ہی۔ قیامت والے دن پکڑنا اس کو۔

اس سے پہلے کہ یہ اطلاع قطار کے آخری اینکر پرسن تک جاتی بابا جی نے پوسٹل کوڈ لکھ کر نہایت فاخرانہ انداز سے کمپیوٹرائزڈ سلپ یوں نکالی گویا مشہور امریکی فلکیاتی ادارے ناسا کو کوئی بیش قیمت سافٹ ویئر بنا کر دینے کے بعد اس کی سلپ نکال کر پیش کر رہے ہیں۔

سلپ جو دیکھی تو اس پر نام غلط۔
میں نے چیخ کر کہا بابا جی یہ کیا لکھ دیا؟

بابا جو اب دوسرے گاہک کے ایڈریس کے حروف کی بورڈ پر ڈھونڈ رہے تھے، انہوں نے نظریں اٹھائے بغیر جواب دیا

’تم نے لفافے پر نام پتہ درست لکھا ہے ناں؟‘
ظاہر ہے بابا جی میں نے تو درست ہی لکھا ہے۔
بس پھر تمہیں میرے لکھے سے کیا مطلب؟ کتاب اسی کو ملے گی جو تم نے لفافے پر لکھا ہے۔ ’

محمد علی افضل
Latest posts by محمد علی افضل (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments