اگر آپ ڈاکٹر نا بنے تو کیا ہو گا؟


پورے پاکستان میں میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے ایم ڈی کیٹ ہو چکا ہے۔ آفیشل رزلٹ بھی آ گیا ہے۔ پاکستان بھر میں تقریباً 20 ہزار سیٹوں کے لئے دو لاکھ طلبا و طالبات نے یہ ٹیسٹ دیا۔ جبکہ پنجاب میں تین ہزار سیٹوں کے لیے کوئی باسٹھ ہزار سٹوڈنٹس نے ٹیسٹ دیا۔

پاکستان میں ہر شعبہ زوال کا شکار ہے، لیکن پچھلے چند سالوں میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی بہتات اور بیرون ملک سے ڈاکٹر بن کر آنے والوں کی وجہ سے پاکستان میں میڈیسن کا شعبہ شدید زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ نا ہی ڈاکٹرز کے لیے سرکاری نوکری ہے اور نا ہی کوئی سروس اسٹرکچر۔ ٹریننگ سیٹس نا ہونے کے برابر ہے، اسی وجہ سے نوے فیصد پاکستانی ڈاکٹرز بیرون ملک دھڑا دھڑ جا رہے ہیں۔ ناکام حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے آج کا ڈاکٹر اس سسٹم سے مایوس ہو چکا ہے، اسی وجہ سے برین ڈرین ہو رہا ہے۔

جن کے داخلے ہوں گے، ان کو پیشگی مبارکباد۔ یہاں سے آپ ٹینشن، انگزائٹی، ڈاکٹرز کے مستقبل کے بارے میں مایوسی کے ایک ایسے سائیکل میں گھومیں گے، جس کا کوئی علاج نہیں۔ تو آپ پہلے دن سے ہی یہ سوچ لیں کہ میں نے ڈاکٹر بنکر باہر نکلنا ہے، اگر نہیں نکلیں گے تو مزید مایوس ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ جن کا سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلہ نہیں ہو گا وہ کیا کریں گے؟ کیا پرائیویٹ /فارن میڈیکل کالجز میں داخلہ لینا چاہیے؟

اس کا ایک ہی جواب ہے، نہیں۔ ہرگز نہیں لینا چاہیے۔ فارن میڈیکل کالجز میں داخلہ لینا تو گویا عذاب عظیم کو خود دعوت دینا ہے۔ پتا نہیں کہ کب NEB/NRE کا امتحان پاس ہو، کب ہاؤس جاب ملے گی، کب rmp (پریکٹس کرنے کی اجازت) ملے، نوکری ملنا تو بہت دور کی بات ہے۔ بیرون ملک کی کافی میڈیکل یونیورسٹیز کو پاکستان اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) بلیک لسٹ کر چکی ہے۔ ان یونیورسٹیرز کے فارغ التحصیل طلبا پاکستان میں پریکٹس نہیں کر سکتے۔ لیکن عوام الناس کم فیس کے لالچ اور ایجنٹوں کی باتوں میں آ کر یہاں پھنس جاتے ہیں اور بعد میں روتے ہیں۔ ایسی گھوسٹ یونیورسٹیز کے طلبا بعد میں پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے میڈیکل کے مطلقہ کسی بھی امتحان میں بیٹھ نہیں سکتے۔

اب آتے ہیں پرائیویٹ ایم بی بی ایس کی طرف۔ سال کی کم سے کم فیس 25 لاکھ ہے، اور بعد میں نوکری ملے گی بھی یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز پاکستان میں اب مافیا کا روپ دھاڑ چکا ہے۔ جو کسی کو بھی جواب دہ نہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) نے اس مافیا کو لگام ڈالنے کی کوشش کی تھی، فکس فیس سمیت سینٹرلازیڈ داخلے کیے تھے۔ لیکن جیسے ہی پی ایم ڈی سی بحال ہوئی، یہ مافیا ماضی کی طرح پھر شتر بے محال ہو گیا۔ اب ایک ایک سال کی فیس تیس لاکھ ہو چکی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بعد میں یہی مافیا ہاؤس آفیسرز (اپنے ہی کالج کے گریجوایٹس) کو پوری تنخواہ نہیں دیتا، ان پیڈ ٹرینگ دیتا ہے۔ جب یہی ڈاکٹر جب فیلڈ میں آتے ہیں تو اتنی زیادہ سیچوریشن دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں اور پھر خود کو کوستے ہیں۔

اب جب ایم ڈی کیٹ ہو چکا تو پاکستان کی 90 فیصد سرکاری یونیورسٹیز کے داخلے بند ہو چکے ہیں۔ ایم ڈی کیٹ کی تیاریوں میں مصروفیت کی وجہ سے اسٹوڈنٹس کوئی متبادل نہیں رکھتے، یوں سرکاری یونیورسٹیز میں داخلوں کی تاریخ بھی گزر جاتی ہے، اب جن کا داخلہ نہیں ہو گا یا تو وہ پانچ چھے مہینے ویلے رہیں گے، یا پھر مہنگی اور غیر معیاری پرائیویٹ یونیورسٹیز میں داخلہ لیں گے، یہ بھی پاکستانی نظام تعلیم اور پالیسی میکرز کی ناکامی کی جیتی جاگتی مثال ہے، لیکن کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

پاکستان میں اب ڈاکٹر بننا صرف ایک سیٹیٹس سمبل بن کر رہ گیا ہے۔ بذات خود ایک ڈاکٹر ہو کر بھی ڈاکٹرز کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ ہمارے بڑوں کی فضول پالیسیوں کی وجہ سے ایک نوبل پروفیشن کا کیا حال ہو کر رہ گیا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ لوگ ڈاکٹر بنکر پچیس ہزار پر ایم او شپ کر رہے ہیں۔ بیرون ملک ٹیسٹوں کی فیس دینا اب تنخواہ سے ممکن ہی نہیں۔ بعد میں سنٹرل انڈکشن پالیسی کے نام پر ٹریننگ سیٹیس نا ہونے کے برابر ہیں۔

اسی وجہ سے ینگ ڈاکٹرز میں بے اضطرابی بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی پرائیویٹ اور فارن میڈیکل کالجز میں لوگ دھڑا دھڑ داخلہ لیکر، ہر سال ڈاکٹری کی ڈگری لے کر مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکٹرز میں بے روزگاری اور مستقبل کے بارے میں پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب تک پرائیویٹ اور فارن میڈیکل کالجز کے بارے میں کوئی حکومتی پالیسی نا بنائی گی، تب تک اس صورتحال میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں۔

ایف ایس سی پری میڈیکل کے وہ طلبا و طالبات جو سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلہ نہیں لے سکے، ان کے لیے تجاویز درج زیل ہیں۔

1۔ پرائیویٹ اور فارن میڈیکل کالجز میں ایم بی بی ایس میں داخلہ ہر گز نا لیں، یقین مانیے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانے کے لیے کروڑوں لگانا ہرگز عقل مندی نہیں۔

2۔ اگر آپ کو فارن یا پرائیویٹ ایم بی بی ایس کرنے میں فیصلہ کرنا ہو تو ہمیشہ پاکستان میں پرائیویٹ ایم بی بی ایس کریں۔ اس سے آپ مستقبل کی کئی پیچیدگیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اگر کسی فارن میڈیکل کالج میں داخلہ لینا یہ ہے تو اس میں لین جو کہ پی ایم ڈی سی کی A لسٹ میں ہو۔ B یا c لسٹ والے کالجز میں ہرگز داخلہ نا لیں۔

3۔ آپ کا کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلہ ہو، سال اول سے ہی بیرون ملک کے ٹیسٹوں کی تیاری کریں

4۔ اس وقت سب سے زیادہ ایمرجنگ فیلڈ بائیو ٹیکنالوجی ہے، جس کی مانگ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس میں داخلہ لینے کی لازمی کوشش کریں۔

5۔ ڈی فارمیسی، ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی اور ڈی وی ایم کی مانگ بیرون ملک بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں آپ ڈی فارمیسی کے بعد کامیاب بزنس مین بن سکتے ہیں۔

6۔ الائیڈ ہیلتھ سائنسز خصوصاً میڈیکل لیب ٹیکنالوجی اور آپریشن تھیٹر ٹیکنالوجی کے بعد آپ کو پاکستان میں نوکری آسانی سے مل سکتی ہے۔

7۔ ڈگری سے زیادہ سکلز پر زور دیں۔ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔ تو فری لانسنگ لازمی سیکھیں۔
8۔ تعلیمی گریڈز سے زیادہ ریسرچ پر فوکس کریں۔
9۔ جون سی بھی فیلڈ میں داخلہ لیں، سکالرشپ حاصل کر کے، اعلی تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک لازمی جائیں۔

10۔ ایم بی بی ایس اب پاکستان میں صرف ایک عام ڈگری بن کر رہ گئی ہے۔ اس کو اپنی ضد مت بنائیں۔ یقین مانیے it ’s not worth it now۔ اس پر اپنی انرجی، وقت اور دولت ہرگز ضائع مت کریں۔ ڈاکٹروں کے حالات حد سے زیادہ خراب ہیں۔ ڈاکٹر بنکر آپ ایک ایسے چکر ویو میں پھنسیں گے، جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ اگر ڈاکٹر بن گئے تو بیرون ملک جانے کی لازمی کوشش کریں۔ کیونکہ پاکستان میں آپ کی ڈگری اور ٹیلنٹ کی اب کوئی قدر نہیں۔ اور یہی سچائی ہے۔

(مضمون نگار اس وقت سر گنگا رام ہسپتال لاہور میں، آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments