وارث علوی: ناقدوں کے ناقد


اب تو اس واقعے کو کئی برس ہو چلے ہیں، رات گئے منشا یاد کا فون آیا اور چھوٹتے ہی پوچھا تھا: ”آپ ای میل کا جواب کیوں نہیں دیتے؟“ حملہ اتنا اچانک تھا کہ میں ایک لمحے کو بھونچکا رہ گیا، سوچا لیکن سمجھ میں کچھ نہ آیا تو الٹا سوال کر دیا :

” کون سی میل کا جواب منشا صاحب؟“
”میں ساجد رشید کی میل کا ذکر کر رہا ہوں، ساجد نے ایک میل تین بار بھیجی آپ کو ۔“

میرا میل اکاؤنٹ میرے سامنے کھلا پڑا تھا اور وہاں ساجد رشید (افسانہ نگار :مدیر ”نیا ورق“ ممبئی، انڈیا) کی کوئی میل نہیں تھی۔ خیر، منشا یاد نے ساجد رشید کی میل مجھے فارورڈ کر دی۔ اس میں میرے حوالے سے شکایت تھی اور اس کے ساتھ وہ ٹیکسٹ بھی لف تھا جو ساجد رشید بھیجنا چاہتے تھے۔ میری سرزنش کے دورانیے میں منشا یاد نے مجھے مبارک دی تھی کہ میرے افسانے نے وارث علوی جیسے ”ٹیڑھے نقاد“ سے تحسین پائی تھی۔ واضح رہے کہ ”ٹیڑھا“ منشا یاد نے کہا تھا۔ ساجد رشید نے لکھا تھا:

”وارث علوی نے تمہارے افسانے“ مرگ زار ”کو پڑھ کر اس کی تیکنیک کو بہت سراہا ہے اور خوش ہو کر کہا ہے کہ افسانہ تو پاکستان میں لکھا جا رہا ہے۔“

میں نے فوراً ساجد رشید کو معذرت کا فون کیا۔ فوری فون کرنے کے پیچھے یہ بھی تھا کہ میں سارا قصہ ان کی زبانی سننا چاہتا تھا۔

اگلے روز میں نے وارث علوی کو فون کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں ان سے بات کر رہا تھا اور پھر گاہے گاہے ان سے باتیں ہوتی رہیں۔

Mansha Yaad

یہ 2011 کا برس تھا جولائی کا مہینہ۔ ساجد رشید کے اچانک مرنے کی خبر آ گئی۔ منشا یاد نے مجھے فون کر کے بلایا تھا اور ہم دیر تک مرحوم کو یاد کرتے رہے تھے۔ اسی سال اکتوبر میں منشا یاد بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ جی یہ سانحہ بھی اچانک ہوا تھا۔ ایسے میں ایکا ایکی مجھے وارث علوی یاد آ گئے۔ میں نے انہیں فون کیا۔ ان تک منشا یاد کی وفات کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ دیر تک منشا یاد کی باتیں کرتے رہے۔ کچھ عرصہ پہلے دونوں کو عالمی فروغ ادب ایوارڈ دیا گیا تھا اور اس سلسلے کی تقریب میں دونوں دوحہ میں ملے تھے۔ وارث علوی نے اس ملاقات کو بہ طور خاص یاد کیا اور کہا ؛اگر صحت نے اجازت دی تو وہ منشا یاد پر کتاب لکھنا چاہیں گے۔ افسوس ان کی صحت بگڑتی چلی گئی اور 9 جنوری 2014 ء کو ان کی سناؤنی بھی آ گئی۔

وارث علوی کی تنقید کی جانب میری توجہ ان رابطوں سے بہت پہلے کی ہے۔ اول اول میں نے شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب ”افسانے کی حمایت میں“ پڑھی تو دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا ردعمل کیا رہا۔ سو وارث علوی کی ”فکشن کی تنقید کا المیہ“ پڑھی۔ پھر ”حالی مقدمہ اور ہم“ ، ”تیسرے درجے کا مسافر“ ، ”خندہ ہائے بے جا“ ، ”کچھ بچا لایا ہوں“ ، ”جدید افسانہ اور اس کے مسائل“ اور منٹو اور بیدی پر کتابیں پڑھتا چلا گیا۔ وارث علوی کو سمجھنے کے لیے پہلے ان کا تنقید کے حوالے سے نقطۂ نظر بھی جان لیجے! فرماتے ہیں :

”تنقید رابطہ ہے قاری اور قاری کے درمیان۔ اپنی آخری شکل میں تنقید گفتگو ہے اہل علم کی اہل علم سے، اہل دل کی اہل دل سے۔ خوش طبعی ہے یاروں کے بیچ۔ بے تکلفی ہے احباب کے درمیان۔ بحث و تکرار ہے ہم مشربوں سے۔ چھینا جھپٹی ہے مخالفوں سے۔ پھکڑ اور ٹھٹھول ہے حریفوں سے۔“

مجھے یاد آتا ہے جب میرے اور محمد عمر میمن کے درمیان ماریو برگس یوسا کے حوالے سے مکالمہ چل رہا تھا تو میمن صاحب نے لکھا تھا:

”ہمارے یہاں فکشن پراس طرح بہت کم لکھا گیا ہے۔ اچانک وارث علوی کا خیال آتا ہے جو میرے دوست ہیں اور مجھے ان کی ذہانت پر پورا اعتماد ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب وہ تنقید کرتے ہیں تو گو وہ کافی غلبہ آور لگتی ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ ساری باتیں کسی کلیے کی پابند نہیں کہ ان سے چند قابل عمل اصول وضع نہیں کیے جا سکتے۔“

Varis Alavi

اس باب میں محمد عمر میمن کو فاروقی صاحب کا منطقی طریقہ پسند تھا۔ وارث علوی کے بارے میں یہ خیال لگ بھگ مستحکم ہو چکا ہے کہ بات کرتے ہوئے وہ حملہ آور ہو جاتے ہیں ؛ سنجیدگی اور دھیمے پن سے بات آگے نہیں بڑھاتے۔ میں، میمن صاحب اور اس عمومی خیال کو درست نہیں سمجھتا لہٰذا جواب میں لکھا تھا:

”پیارے! جب یہی منطقی شمس الرحمٰن فاروقی ’افسانے کی حمایت میں‘ میں منطقی وتیرے کو ایک طرف دھر کر شاعری کے مقابلے میں فکشن کو نیچا دکھانے کے لیے زور قلم صرف کر رہے ہوتے ہیں یا پھر غلبہ آور تنقید والے وارث علوی منٹو کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے منطقی ہو جاتے ہیں تو کیا تب بھی آپ کا فیصلہ یہی رہتا ہے؟“

حقیقت یہ ہے کہ ہر حال میں منطقی رہنا ادب کے باب میں کوئی بہت بڑی خوبی نہیں بنتی؛ بسا اوقات تہذیبی تناظر منطق کو مات دے جایا کرتا ہے۔

اب جب کہ وارث علوی کی تنقید کے تنقیدی طریقۂ کار کی وضاحت ہو چکی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ذکر ”فکشن کی تنقید کا المیہ“ کا ہو جائے۔ وارث علوی نے ”افسانے کی حمایت میں“ میں لگ بھگ اتنی ہی شدت سے شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید پر سوالات قائم کیے ہیں جتنی شدت سے فاروقی صاحب نے افسانے کی صنف کے حوالے سے منفی سوالات اٹھائے تھے۔ جب فاروقی صاحب نے افسانے کو شاعری کے مقابل رکھ کر اس کا موازنہ کیا اور اس باب میں درجات قائم کیے تو وارث علوی نے اسے ”ناقدانہ خون خرابا“ سے تعبیر کیا۔

ایک ایسا خون خرابا جس میں افسانہ تو اپنے حقوق، ناقد سے مانگتا پھرتا ہے، محض اپنے حقوق نہیں، اپنی شناخت بھی اور اس پر فاروقی جیسا نقاد بلا سبب بھڑک اٹھتا ہے۔ اس طیش میں ناقد صاحب انیس کو شیکسپیئر اور پریم چند کو گورکی اور سوگندھی کو ایناکارے نینا اور سلطانہ کو مادام بواری ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں ہے جو اس ناقد سے باز پرس کرے۔ اگر کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو ناقد کسی جاگیردار کی طرح آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔

تو یوں ہے کہ وارث علوی نے نہ صرف اس ناقدانہ طرز عمل پر گرفت کی، اسے صاف لفظوں میں بے معنی اور مضحکہ خیز بھی قرار دے دیا اور یہاں تک کہ گزرے :

”فکشن ان کے بس کا روگ نہیں۔ دراصل فکشن میں وہ ڈوبے نظر آتے ہی نہیں تو تیریں گے کیا؟ ڈوبے اور وہ بھی افسانے کے چلو بھرپانی میں۔“

وارث علوی

وارث علوی نے ”فکشن کی تنقید کا المیہ“ میں خوب خوب چوٹیں لگائیں اور بہ قول محمد عمر میمن اپنی ”غلبہ آور زبان“ میں بڑھ بڑھ کر حملے کیے ہیں، یہاں تک کہہ دیا کہ فاروقی صاحب کے پاس تو بیدی، منٹو، عصمت، قرۃ العین حیدر، غلام عباس اور انتظار حسین پر لکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ خیر فاروقی صاحب نے وارث علوی کی اس چوٹ کے جواب میں منٹو صاحب پر حال ہی میں ایک کتاب لکھ دی ہے۔ وارث علوی کی چوٹ اور فاروقی صاحب کی کتاب کا ایک ساتھ ذکریوں آیا ہے کہ فاروقی صاحب اس تازہ کتاب میں بھی وارث علوی کو نہیں بھولے۔ یہاں وارث علوی کی تحریر ”فکشن کی تنقید کا المیہ“ سے ایک دل چسپ ٹکڑا مقتبس کرنا چاہتا ہوں :

”ترقی پسند تنقید کار اسی افسانے پر منڈلاتا ہے جس میں سماج کی بھینس ڈکراتی ہے اور جدید تنقید کا گدھ اسی افسانہ پر لپکتا ہے جس میں افسانہ نگار اسطور کی گائے کے تھنوں سے منہ بھڑائے ہوئے ہے۔ ہمارے نقادوں نے ہمارے افسانہ نگاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا وہ تو ہماری ادبی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ دوسروں کے تفاعل کی تلافی فاروقی کی نظر عنایت نے اس طرح کی کہ افسانہ کو تھرڈ کلاس صنف سخن اور افسانہ نگاروں کو گھٹیا ادیب بنا کر رکھ دیا۔“

وارث علوی نے اسے بھی نادرست کہا کہ ترقی پسندوں نے افسانے کو اپنے مقاصد کے لیے فروغ دیا اور یہ کہ افسانہ پروپیگنڈے کے لیے موزوں ترین صنف تھا۔ ان کے مطابق یہ شاعری ہی ہے جس سے آج تک دنیا بھر میں ہر نوع کا کام لیا گیا ہے حتیٰ کہ طب اور کھیتی باڑی کی کتابیں بھی اس میں لکھی گئیں۔ پہلے شاعری اور بعد میں نثر پروپیگنڈے میں استعمال ہوئی۔ اور یہ بھی کہ شاعری میں پروپیگنڈے کے لیے تک بندی سے بھی کام چلا یا جاسکتا ہے جب کہ افسانے میں کہانی، پلاٹ اور کردار کو نہ نبھایا جائے اور افسانہ نگار اس میں ناکام ہو تو افسانہ ٹھپ ہوجاتا ہے ۔

خیر! اس کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی ”افسانے کی حمایت میں“ ، جس کی لگ بھگ سطر سطر اور نقطہ نقطہ وارث علوی نے رد کر دیا تھا اور ”وارث علوی کی“ فکشن کی تنقید کا المیہ ”جو محمد عمر میمن کی زبان میں“ غلبہ آور ”نثر کا نمونہ اور بہ قول فضیل جعفری“ مناظراتی ”ہو گئی تھی، دونوں کتابیں، فکشن کے مسائل کو سمجھنے میں بہت مددگار ہو جاتی ہیں۔ مثلاً دیکھیے وارث علوی اسی مناظرانہ کتاب میں نشان زد کر رہے ہیں کہ:

1۔ ”کسی بھی فن کے میڈیم، طریق کار اور تکنیک کی حدود کو اس فن کے معائب بتانا حد درجہ غیر تنقیدی اور غیر عقلی رویہ ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہر فن اور ہر صنف سخن اپنی حدود میں رہ کر کون سی تخلیق، معجزے دکھاتی ہے۔ افسانہ بیانیہ کا غلام سہی لیکن اس غلامی میں رہ کر اس نے کیسی بادشاہی کی ہے۔“

2۔ ”زبان کا تناؤ اور زبان کا اجمال موضوع اور مواد سے الگ کوئی چیز نہیں اور مواد کو افسانے میں ڈھالنے کا ذریعہ تکنیک ہے۔ چونکہ ناول اور افسانے کا مواد زندگی کی مانند پھیلا ہوتا ہے اسی لیے بیانیہ بھی تکنیک کی مناسبت سے پھیلتا اور سمٹتا ہے۔“

3۔ ”ناول میں لفاظی بالکل نہیں چل پاتی۔ لفاظ ناول پیدا ہوتے ہی دم توڑ دیتا ہے، جبکہ شاعری میں لفاظی چلتی رہتی ہے۔ ناول زبان کا اسراف نہیں کرتا۔ محض قدرت زبان کی بنا پر کوئی ناول نگار ادب میں نہیں چلتا۔ جن کے پاس افسانوی تخیل نہیں ہوتا اور محض قدرت زبان ہوتی ہے، وہ افسانے اور ناول نہیں لکھتے بلکہ انشائیے، سفرنامے، یادداشتیں، آپ بیتی، ڈائری یا خطیبانہ مضامین لکھتے ہیں۔ اس لیے میں ناول یا افسانے کو شاعری سے کم تر نہیں سمجھتا۔“

وارث علوی

4۔ ”نئے افسانہ نگاروں کی پیٹھ ٹھونکنے کی بجائے انہیں ڈانٹ پلانی چاہیے کہ تم جس چیز کے خلاف انحراف کر رہے ہو وہ تو خود حقیقت پسند افسانے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ فاروقی ایسا کرتے تو پھر انہیں سینہ کوٹنے کی ضرورت نہ رہتی کہ نئے افسانہ نگاروں نے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش نہیں کی جو تجسس کی عدم موجودگی سے پیدا ہوا۔ اب سینہ کوبی سے کچھ فائدہ نہیں، کیوں کہ جو خلا پیدا ہوا ہے وہ تجسس کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس انسانی مواد کے فقدان کی وجہ سے ہے جس میں ایک ذہین قاری کو تھوڑی بہت بھی دل چسپی ہو سکتی ہے۔“

5۔ ”جدید افسانہ انحراف تھا پریم چند اور منٹو کے دور کے افسانے سے۔ لہٰذا فاروقی کو اس دور کے افسانے سے بے اطمینانی تو دکھانی ہی ہے اور وہ اطمینان سے بے اطمینانی دکھاتے ہیں اور تنقید کی لٹیا بھی بڑے اطمینان سے ڈوبتی ہے۔ نئے افسانے سے بھی وہ مطمئن نہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے دل چسپ بنانے کے لیے کیا پیش کریں۔ افسانوی لوازمات مثلاً واقعہ، کہانی، کردار کے نام لینا نہیں چاہتے کہ نیت تجریدی امام کے پیچھے باندھی ہے۔“

6۔ ”افسانہ کی صفت ذاتی افسانویت ہے، شعریت نہیں البتہ شعریت من جملہ دوسری صفات کے افسانہ کی صفت اضافی ہو سکتی ہے۔ ہماری تنقید نے شاعری کی کیسی ہوا باندھی کہ پورا جدید افسانہ شاعری بننے پر کمربستہ ہو گیا اور شاعرانہ اسلوب کے چاؤ میں اسالیب کے ان تمام ذخائر سے خود کو محروم کر لیا جنہیں نثری فکشن نے پروان چڑھایا تھا۔“

جب وارث علوی یہ سطور لکھ رہے تھے، تو اس وقت تک فاروقی صاحب کے ”سوار اور دوسرے افسانے“ منظر عام پر آئے تھے، نہ ”کئی چاند تھے سر آسماں“ اور قبض زماں ”جیسے ناول ؛ اگر ایسا ہو چکا ہوتا تو یقیناً وہ اس میں ردو بدل کرتے کہ دیکھا جائے تو یہاں فاروقی صاحب اپنی تخلیقی روش میں فکری روش سے کچھ ہٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اپنے نظری مضامین میں وارث علوی لگ بھگ ہر مضمون میں اس نقطے سے جڑے نظر آتے ہیں کہ ادب ہرحال میں مرکز میں رہنا چاہیے۔ انہوں نے ترقی پسندوں اور جدیدیوں کو وہاں وہاں رد کیا ہے جہاں جہاں تخلیقی عمل پر مواد اور موضوع حاوی ہوتا رہا ہے۔ ان کی نظر میں تخلیقی عمل اپنی آخری شکل میں لفظ کی تلاش ہے اور یہ کہ لفظ کی نزاکت، لطافت، جلال، جمال کا احساس فن پارے میں استعمال کے بعد ہی ہوتا ہے۔ لفظ رنگ نہیں ہوتے مگر لکھنے والا اس سے تصویر بنا سکتا ہے، یہ سنگ نہیں مگر اس سے مجسمہ تراشا جا سکتا ہے۔

تاہم یہ بھی وارث علوی کا کہنا ہے کہ لفظ کا یہ جادوئی استعمال ادب کے آدرشی تصور والے آدمی سے ممکن نہیں ہے کہ فن کار آدمی کو محض کھال میں نہیں دیکھتا بلکہ اس کے سماجی اور سیاسی رشتوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے ؛لیکن دیکھتا ہے وہ آدمی ہی کو ۔ اس آدمی کو جو ایک فرد ہے ؛ اس خیالی پرچھائیں کو نہیں جو کسی سیاسی، مذہبی یا فلسفیانہ آدرش کی تخلیق ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ادب آدمی جو کچھ ہے وہ تو بیان کر سکتا ہے۔ آدمی کو کیا ہونا چاہیے وہ بیان کرنے سے قاصر ہے۔

وارث علوی کے مطابق ادب ایک شخصی تجربہ اور ایک انفرادی عمل ہے۔ ادب محض سکل نہیں جسے سیکھا جا سکے بلکہ یہ تو منفرد شخصیات کی تخیلی معجز نمائیوں کا نتیجہ ہوتا ہے ادب کا آہنگ اور اس کی تکمیلی صورت بعض اوقات متضاد اور متناقض عناصر کی موجودگی کے باوجود چند ایسی اقدار کے کیمیائی عمل سے پیدا ہوتا ہے جنہیں ہم حسن و مسرت کی جمالیاتی قدریں کہتے ہیں۔

تو یوں ہے کہ یہ تنقید بالکل ایک الگ لحن بناتی ہے۔ ایسا تنقیدی لحن جس کا تصور وارث علوی کی اپنی ذات سے جڑے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یاد آتا ہے کہ وارث علوی نے ”حالی، مقدمہ اور ہم“ کے آغاز میں کہا تھا کہ ”مقدمہ شعر و شاعری“ پڑھنے سے پیش تر بہتر ہو گا کہ حالی کی وہ تصویر ذہن میں حاضر رکھی جائے جو وحید قریشی والے ایڈیشن میں شامل تھی۔ اس میں وارث علوی کو حالی ایسے لگے تھے جیسے ایک نفیس، مہذب اور شائستہ شخص نے کسی اہتمام کے بغیر تصویر بنوا لی تھی۔

ایسے آدمی کی تصویر جس میں نہ خود نمائی تھی، نہ نمائشی خود آگاہی، نہ بناوٹ، نہ پوز اور تصویر ایسی بنی تھی کہ وہ حالی کی فطرت ثانیہ ہو جانے والی شائستگی کا مظہر ہو گئی تھی۔ اسی تصویر سے جوڑ کر وارث نے حالی کے مقدمہ کو دیکھا تھا۔ اب میرا جی کرتا ہے کہ کہہ دوں ؛وارث علوی کی تنقید کو بھی اس کی تصویر سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا تاہم یوں ہے کہ یہ تصویر کسی کیمرے نے نہیں بنائی خود اپنی فطرت کے عین مطابق وارث علوی کی تحریروں سے بن گئی ہے۔

یوں تو ایک تصویر اور بھی ہے جس میں وارث ٹیلی فون کے اس طرف سے رنگ بھرتا ہے۔ ایک عام آدمی جو اپنی ستائش سن کر کہہ سکتا ہے کہ ’مجھے تو محلے کے لوگ بھی نہیں پہچانتے۔ ‘ یہ محض اوپر سے اوڑھی ہوئی انکساری نہیں ہے، ایسے جملے ان کی زبان سے بے ساختہ ادا ہوتے رہتے تھے اور یہ ان کے اپنے مزاج کے عین مطابق تھا۔ وارث علوی کا کہنا تھا:

’ نہ جانے لوگ مجھے کیوں خود پسند کہتے ہیں حالانکہ میں سول لائنز کی کسی کوٹھی میں نہیں رہتا، مسلمانوں کے ایک غریب محلے میں رہتے ہوں اور روزانہ گندی گلیوں پر فراغت پاتے بچوں کی قطار کو پھلانگتے لائبریری تک پہنچتا ہوں تو کتاب پڑھنے کا لطف اور بڑھ جاتا۔‘

وارث علوی کا کہنا تھا؛ یہی گندگی اور حسن ان کی زندگی کا حصہ ہو گیا ہے۔ میں نے وارث علوی کی آواز میں زندگی کے اس چلن کی تصویر دیکھی تھی مگر جس تصویر سے وارث علوی اور اس کی تنقید کو بہتر طور پر دیکھا جا سکتا ہے وہ ان کی تحریروں سے بنتی ہے۔

جی، وہی تحریریں جن میں کہیں وہ تنقید نگاروں کو زد پر رکھے ہوئے ہیں اور کہیں تخلیق کاروں کے فن کا تجزیہ ہوتا ہے۔ منٹو اور بیدی کے فن پر جس پائے کی کتابیں وارث علوی نے لکھیں، کون ہے جو اس کا معترف نہیں۔ ان کتابوں میں غلبہ آور نثر کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور تجزیہ اور تعبیر کی ایک دل نشیں صورت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح اقبال، جوش، فراق، مجاز، ن م راشد، فیض احمد فیض، سردار جعفری، ساحر، اخترالایمان، کرشن چندر، غلام عباس وغیرہ کی تخلیقات پر وہ جس اعلٰی عملی تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ شمس الرحمٰن فاروقی ہوں یا ان سے پہلے حسن عسکری اور ادھر ہمارے وزیر آغا، وہ سب سے مکالمہ کرتے رہے اور سوال اٹھاتے نظر آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments