سندھ میں ترقی کی حرکیات
جاوید سوز سے میرا پہلا تعارف کپاس چننے والی عورتوں پر ان کے کام کے حوالے سے ہوا تھا۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ موصوف شاعر بھی ہیں۔ اور اب ان کے سندھ کی ترقی کے بارے میں انگریزی مضامین کا مجموعہ کتابی شکل میں ملا تو مزید حیرت ہوئی اور اس سے کہیں زیادہ خوشی ہوئی کہ یہ سندھ میں عملی طور پر ترقیاتی کام کرنے والے شخص کا نقطہ نظر ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے سندھ کے شہروں خاص طور پر کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم اور کلائمیٹ کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالی ہے۔
شہروں میں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں اضافے کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور گھٹن میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی پالیسی یا منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ وہ زمانے گئے جب شاعر حضرات نسیم صبح اور بہار کی تازہ ہوا کا ذکر کرتے تھے۔ اب تو ائر کوالٹی کے لحاظ سے پاکستان کا شمار بد ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں ائر کوالٹی کی مانیٹرنگ کو بہتر بنانے اور زمین سے نکالے جانے والے ایندھن یعنی پٹرول اور کوئلے کی بجائے صاف اور قابل تجدید توانائی کے وسائل کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے 2012 میں موسمیاتی تبدیلی کی قومی پالیسی بنائی تھی لیکن یہ مسئلے کا صرف ایک حصہ ہے کیونکہ اس کے لئے ہمیں اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ سندھ ایجنسی برائے ماحولیاتی تحفظ کو بہتر بنانا ہو گا۔ سندھ کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کے بہت سے مسائل جیسے سمندری مداخلت، درختوں کا ختم ہونا، ہیٹ ویو، سائیکلون، اربن فلڈنگ اور نکاسی کا ناقص نظام اور کچرے کے ڈھیر کا سامنا ہے۔ ہوا کی آلودگی نے شہریوں خاص طور پر عورتوں کی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
پاکستان نے 2013 میں آفات کے خطرے کو کم کرنے کی قومی پالیسی بھی بنائی تھی۔ دونوں پالیسیوں میں صنفی تناظر کا اچھی طرح احاطہ کیا گیا ہے۔ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے عورتوں کو بچانے پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے لئے کوئی واضح لائحہ عمل نظر نہیں آتا۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا جس سے محنت کشوں خاص طور پر زرعی مزدوروں پر زیادہ اثر ہوا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق 24 تا 26 سنٹی گریڈ سے زیادہ درجۂ حرارت کارکنوں کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتا ہے اور 33 تا 34 سنٹی گریڈ درجۂ حرارت میں استعداد کار 50 فی صد کم ہو جاتی ہے۔
درجۂ حرارت میں اضافے کی بڑی وجہ درختوں کو کاٹنا ہے۔ پاکستان ویژن 2025 میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ جاوید سوز نے اپنے مضامین میں سندھ میں ذہنی صحت کے مسائل پر بھی بہت زور دیا ہے۔ سندھ میں 2013 میں سندھ مینٹل ہیلتھ ایکٹ بن چکا ہے۔ جس میں ایکٹیو ہیلتھ اتھارٹی بھی قائم کرنے کی بات کی گئے ہے جو ابھی تک نہیں بنی۔ مصنف نے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے درپیش چیلنجز کا بھی جائزہ لیا ہے۔
سندھ پہلا صوبہ ہے جس میں مفت اور لازمی تعلیم کا قانون بنایا گیا اور تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا۔ مگر سندھ میں شرح خواندگی میں اضافے کی بجائے کمی ہوئی ہے۔ داخلوں میں اضافے کے لئے چلانے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں میں فرنیچر، کھیلوں اور لیبارٹری کا سامان فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اور سائنس کی تعلیم پر خاص طور پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں اور قصبوں کے اسکول لیبارٹریوں اور جدید سائنسی آلات سے محروم ہیں۔
لڑکیوں کے سکولوں کا تو اور بھی بڑا حال ہے۔ سندھ کا ایک بڑا مسئلہ کم عمری یا بچپن کی شادیوں کا ہے۔ گو کہ اس کی روک تھام کے لئے 2013 میں قانون بن چکا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کا کوئی موثر طریقہ نہیں بنایا گیا۔ سندھ کے نوجوان بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں 1۔ انتہائی غربت، 2۔ بے روزگاری، 3۔ ہنرمندی کا فقدان، 4۔ شناخت کا بحران، 5۔ مستقبل کے بارے میں خدشات اور نا امیدی، 6۔ تکنیکی مہارتیں کا فقدان، 7۔ مناسب سہولت کاری اور مشاورت کا فقدان، 8۔خاندانوں کی کم آمدنی کی وجہ سے کمپیوٹر لٹریسی تک رسائی نہ ہونا، 9۔ ثقافت، ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع سے دوری، 10۔ جمہوری نظم و نسق کی عدم موجودگی، 11۔ تولیدی صحت اور HIV/AIDS کے مسائل سے عدم آگاہی، 12۔ آمدنی پیدا کرنے والی سرگرمیوں میں کم شراکت، 13۔ بزرگوں کے نظر انداز کرنے سے نوجوانوں میں کجروی پیدا ہوتی ہے۔ یہ مسائل نوجوانوں کو تشدد اور جرائم کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی یوتھ پالیسی بن چکی ہے لیکن اس پر عملدرآمد کے لئے خاطر خواہ وسائل موجود نہیں ہیں۔
پاکستان میں صنفی تفاوت کے بارے میں اپنے مضمون میں وہ بتاتے ہیں کہ تعلیم کے میدان میں لڑکے اور لڑکیوں میں بہت زیادہ صنفی تفاوت نظر آتا ہے۔ مذہبی تعلیمات کی غلط تشریح کے باعث مرد اور عورت کی وسائل تک رسائی اور نقل و حرکت میں بہت زیادہ فرق دیکھنے میں آتا ہے۔ 2017۔ 2018 میں لیبر فورس میں چوالیس اعشاریہ اٹھائیس مردوں کے مقابلے میں سویلین لیبر فورس میں عورتوں کی شراکت صرف نو اعشاریہ اٹھانوے ہے۔ صحت کے حوالے سے زیادہ بچے اور خاندانی منصوبہ بندی کی معیاری سروسز کا فقدان اور عورتوں کو تولیدی حقوق نہ ملنا معاشرے میں نا برابری پیدا کرتا ہے۔
سندھ حکومت کا ایک اچھا قدم 2008 میں عورتوں میں زمین تقسیم کرنا تھا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی عورتوں کے لئے حوصلہ افزا ثابت ہوا۔ جب تک عورتوں کو ترقی، سیاست اور اقتصادی میدان میں سامنے نہیں لایا جائے گائیکی ترقی کی رفتار سست رہے گی۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ کپاس چننے والی عورتوں کے مسائل پر جاوید سوز نے بہت کام کیا ہے۔ سندھ میں پانچ لاکھ سے زیادہ عورتیں سال میں چار تا پانچ ماہ کپاس چننے میں مصروف رہتی ہیں۔
سانگھڑ سندھ کا سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والا ضلع ہے۔ اس کے علاوہ گھوٹکی، حیدرآباد، ٹنڈو الہ یار، خیر پور، بے نظیر آباد، اور مٹیاری بھی کپاس پیدا کرنے والے اہم اضلاع ہیں۔ کیڑے مار ادویات کے استعمال سے کپاس چننے والی عورتوں کو دمہ اور جلدی الرجی کی شکایت ہو جاتی ہے۔ ان عورتوں اور دیگر کسانوں کی یونینیں بننا بھی ضروری ہے۔ مختلف مضامین میں مصنف نے سندھ میں پانی کی فراہمی اور صفائی کے انتظامات پر بھی زور دیا ہے، اس کے لئے وہ کمیونٹی کی شراکت اور جدید سروس ڈلیوری پر زور دیتے ہیں۔
سندھ میں کسانوں کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سندھ ہمیشہ سے کسان تحریک کا نقطۂ آغاز رہا ہے۔ یہاں کلہوڑوں کے دور میں صوفی اور ہاری رہنما صوفی شاہ عنایت نے وڈیروں کے خلاف بغاوت کی تھی۔ بعد میں کمیونسٹ تحریک نے بھی ان کے طریقے کی پیروی کی۔ وہ ہاری کورٹ اور ٹریبونل بنانے کی تجویز بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے لاکھوں کروڑوں کسانوں کے دکھوں کا علاج زرعی اصلاحات میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے سندھ میں قبائلی تنازعات کی حرکیات اور لوکل گورنمنٹ کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ سندھ کی ترقی اور اس کے مسائل کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ کتاب کویتا پبلیکیشن حیدرآباد نے شائع کی ہے۔
- شاردا سنہا۔ بہار کی کوئل - 19/01/2025
- انور پیر زادو۔ پل دو پل کا ساتھ۔ صدیوں پر بھاری - 07/01/2025
- لو ہم نے دامن جھاڑ دیا - 31/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).