دیپ سے دیپ جلاتے چلو


اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کسی ایک موضوع پر کچھ لکھنا ہو تو قلم کی جنبش تھم سی جاتی ہے، زمانہ طالب علمی میں بھی یہی کمزوری آڑے رہی۔ سوچوں اور تخیلات کا ایک سمندر موجزن، ایک سے ایک لہر سوچ کے ساحل سے آ ٹکراتی ہے اور پھر سوچ کے دھارے کو کہیں سے کہیں بہا لے جاتی ہے۔

بچپن میں ریڈیو سے اکثر ایک گانا سنتا تھا ”جوت سے جوت جلاتے چلو۔ پریم کی گنگا بہاتے چلو“ ۔ لیکن اس وقت شاید شعور کی عمر تک نہیں پہنچے تھے۔ پھر وقت کے ساتھ اس کا مفہوم سمجھ میں آیا کہ دیپ سے دیپ جلانے سے کیا مراد ہے۔

میں تو اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا

آج ماضی کے دریچوں سے جھانکنا ہوں تو اسکول کے دن یاد آتے ہیں کہ اساتذہ کرام درس و تدریس کے ساتھ اخلاقیات کو بہت اہمیت دیتے تھے خاص طور پر خدمت خلق، والدین و اساتذہ کی عزت، ایمانداری، وغیرہ وغیرہ۔

دیپ سے دیپ کہنے کو تو تین الفاظ لیکن مفہوم کے اعتبار سے ایک گہرا سمندر۔ ایک انسان کا خوبصورت اور نیک اعمال اپنانے سے جو نیکیوں کا سلسلہ چلتا ہے وہ دور رس نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ ایک بہترین اور برائیوں سے پاک اور خیر و برکت سے بھر پور معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی اچھائیاں اور نیکیاں جمع ہوتے ہوتے پہاڑ بن جاتی ہیں اور یوں دیپ سے دیپ جلاتے جلاتے روشنی کے مینار ہر سو اپنی روشنی بکھیر دیتے ہیں۔

اور بر عکس کو سوچیں تو دور حاضرہ میں دیپ سے دیپ تو جل رہا ہے لیکن اندھیروں میں ڈوبا ہوا، گناہ آلود سوچ انسانیت سے عاری رویے، خود غرضی میں لپٹے ہوئے رشتے ناتے، زہر آلود مزاج، غرض ایک ایسے معاشرے کی تشکیل جو ہر سو اندھیروں میں ڈوبا ہوا اور بغض سے بھر پور۔ یہ بھی دیپ سے دیپ ہی جل رہا ہے۔

یہ ہم پر منحصر کہ دیپ سے دیپ تو جلانا ہے لیکن کون سا۔ نیکی کے تیل (جیسے زیتون کا تیل ) جس کی روشنی پر نور اور جلنے میں مہک سے بھر پور یا پھر بدی کے تیل سے جو بے نور اور اندھیروں اور ظلمتوں کی سڑاند کا ناسور۔
دیپ سے دیپ جلاتے چلو۔

طارق محمود، مشیگن، امریکہ
Latest posts by طارق محمود، مشیگن، امریکہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments