طلبا کی ذلت، مشکلات اور استحصال


ہر سال کالجوں، یونیورسٹیوں، بورڈز اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلباء بشمول بچیوں کو داخلوں اور امتحانی فیس داخل کرنا پڑھتا ہے۔ ایسے داخلوں کے لیے اکثر متعلقہ محکموں نے ملک کے کچھ بنکوں یا دیگر اداروں کے ساتھ معاہدے کیے ہوتے ہیں اور وہ ان کے لیے داخلہ رقوم جمع کراتے ہیں۔ بنک شہروں مصروف برانچوں کے تیز ترین کاروبار کو متاثر نہ ہونے کی خاطر اس کے لیے مخصوص برانچز مقرر کرتے ہیں۔ وہ بھی ایسے برانچز جہاں بزنس تھوڑا کم ہوتا ہو۔ ظاہر ہے ایسے برانچز شہروں کے اندر کم اور زیادہ تر قرب و جوار میں کہیں واقع ہوتے ہیں۔

اس قسم کے داخلوں کے لیے رقوم بنکوں میں جمع کرانے کے لیے زیادہ تر نہیں بلکہ سب بچے اور بچیاں ہوتے ہیں۔ جن میں ہر ایک کو گاڑی یا موٹر سائیکل کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی۔ جبکہ سب کو کسی کونے کھدرے میں پڑے مطلوبہ برانچ کا اتا پتا بھی معلوم نہیں ہوتا۔ یوں یہ بچارے پتہ پوچھ پوچھ کے اور رکشوں ٹیکسیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سارا دن دھکے کھا کے وقت اور پیسوں کے ضیاع کے بعد اگر وقت پر مقررہ برانچ تک پہنچ بھی جائیں۔ تو تھکن کے مارے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ اور پھر اگلا مشقت طلب اور صبر آزما مرحلہ قطار میں کھڑے ہونے کا شروع ہوجاتا ہے۔ جو شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا ہے۔ اور نہ آگ برساتی دھوپ سے حفاظت کا، نہ ہی شدت پیاس کے مداوا کا اور نہ ہی خون منجمد کرنے والے موسم سے بچنے کا کوئی معقول انتظام ہوتا ہے۔ ساتھ ہی پرائیویٹ بنک کے پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کی وقت بے وقت بلا جواز اور بلا ضرورت جلی کڑی بھی سننے پڑتے ہیں۔ اور جس طرح ہمارا معاشرہ اجتماعی طور پر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے ایسے میں بچیوں کو جا بجا اور قطاروں میں کھڑے کھڑے نہ جانے کتنی گندی نگاہوں کا سامنا کرنا، کڑھنا اور کراہت محسوس کرنا پڑتی ہے۔

ان سارے اور دیگر لاتعداد مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جب ائر کنڈیشن سے یخ بستہ کمروں میں بیٹھے ہوئے بنک سٹاف کی جانب سے حکم شاہی سنا دیا جاتا ہے کہ بنک میں رقم جمع کرانے کا وقت ختم ہو گیا۔ اس وجہ سے یا جیسا کہ اب بنکنگ کا سارا نظام آن لائن ہے تو ایسے میں اگر سسٹم میں کوئی فالٹ پیدا ہو، حسب عادت بلکہ غیر علانیہ طویل لوڈشیڈنگ یا کسی فالٹ کی وجہ سے بجلی بند ہو اور ساتھ ہی جینریٹر بھی ناراض ہو کر منہ بسورے بیٹھا ہو۔ تو چار و ناچار بچے بچیاں نامراد واپس لوٹنے لگتے ہیں۔ اور پھر اگلے دن آنے اور دوبارہ ایسے اذیت سے گزرنے کے احساس ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔

خدا نخواستہ اگر یہ ایسے داخلہ رقوم کی آخری تاریخ ہو تو معماران قوم کا ایک قیمتی سال ضائع ہی ہو جاتا ہے۔ جس کی نہ تو تلافی ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی جواب دھی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر تھوڑا سا بھی سوجھ بوجھ سے کام لیا جائے اور ذمہ دار شہری کے طور پر سوچا جائے تو اس بات میں کوئی دو رائے ہو نہیں سکتیں کہ جو کوئی بھی تعلیمی ادارہ کسی بھی بنک یا مالیاتی ادارے کے ساتھ ایسا معاہدہ کرتا ہے۔ تو ان کو ان کی خدمات کا باقاعدہ۔ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ایسے میں تعلیمی اداروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ معاوضے کے بدلے کتنی اور کیسی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ جن کے پیسوں سے ایسے ادارے چل رہے ہیں اور جن کے پیسوں سے ایسی خدمات مہیا کی جا رہی ہیں۔ ان کے لیے بنک کون کون سی اور کتنی سہولیات فراہم کرے گا۔ اور طلباء اور طالبات کی تمام تر ضروریات، مجبوریوں، مشکلات کا مداوا آسانیوں اور سہولیات باقاعدہ تحریری طور پر معاہدوں میں درج کرائیں اور اس کو قانونی شکل دے دی۔ اور اس ہر عمل درآمد کرائیں اور بصورت خلاف ورزی ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔ اور ایسے شرائط معاہدہ ہر تعلیمی ادارہ اپنے اپنے متعلقہ فارم کے پشت پر باقاعدہ لکھ لیں تاکہ کم از کم ان بچوں بچیوں جن کے پیسوں سے ان کا اور بنک کا کاروبار چلتا ہے کو علم ہونا چاہیے اور اپنے حق کی باز پرس تو کر سکیں۔

ایک عام فہم رکھنے والا عام سا بندہ بھی جانتا ہے۔ کہ ایسے تعلیمی ادارے کسی بھی بنک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تو شہر کیا ریجن کی سطح پر بھی نہیں بلکہ صوبے کی سطح پر کرتے ہیں کیونکہ ان کے سٹوڈنٹس سارے صوبے بلکہ ملک سے ہوتے ہیں۔ اس لیے بنکوں اور مالیاتی اداروں کو چاہیے بلکہ ان کا فرض بنتا ہے۔ کہ صوبہ بھر میں اپنے ہر ہر برانچ میں ایسی خدمات فراہم کیا کریں۔ اس سے مخصوص برانچوں پر بے جا بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور معماران قوم کو بھی آسانی ہوگی اور کئی مالی معاشی معاشرتی تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور وقت اور تعلیمی سال کے ضیاع سے بھی بچ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments