بلوچستان میں غربت کے شکار خاندان بیٹیاں بیچنے پر مجبور: ’بیٹی کو سمجھایا شادی کرنی پڑے گی کیونکہ بدلے میں ہمیں پیسے ملیں گے‘
سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، چوکی جمالی، بلوچستان
’پچھلے سال سیلاب کے دوران میری بیوی کا آپریشن ہونا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ یا تو بچہ ضائع ہو گا یا بیوی کی جان جائے گی۔ میں نے کمیشن پر ساڑھے تین لاکھ روپے قرض لیا اور جلدی سے آپریشن کروا دیا لیکن پھر قرض دینے والوں نے سُود پر پیسے واپس مانگے اور ساڑھے تین لاکھ کی بجائے اب مجھے پانچ لاکھ روپے بھرنے تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تو میں نے اپنی 10 سالہ بیٹی ایک کلومیٹر دور ایک پڑوسی کو بیچ دی۔‘
یہ کہانی بلوچستان کے علاقے چوکی جمالی کے ایک مزدور نے تب سنائی، جب میرا سیلاب کے ایک سال بعد وہاں جانا ہوا۔
پچھلے سال کے سیلاب کے دوران میرا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جانا ہوا تھا اور اُس وقت صوبے کے کئی علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ ان ہی علاقوں میں چوکی جمالی بھی شامل تھا۔
بلوچستان کے دور دراز جعفر آباد ڈسٹرکٹ کا حصہ ہونے کے باوجود یہ ایک ایسا علاقہ ہے جو باآسانی نظر سے اوجھل ہو سکتا ہے۔ یہاں پر ویسے تو حکام کا آنا نہیں ہوتا لیکن 2022 کے سیلاب کے بعد حکومتی اداروں کا چوکی جمالی اور دیگر علاقوں میں جانا ہوا، جس کے بعد متعدد حقائق سامنے آئے۔
مجھے یہاں پہنچ کر پتا چلا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد اس علاقے میں رہنے والے بہت سے خاندان شدید غربت کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں زیادہ تر اپنی بیٹیاں بیچ رہے ہیں۔
چوکی جمالی کا علاقہ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر قائم ہے اور یہاں کی آبادی کم و بیش 50 ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ یہاں پر زیادہ تر آبادی کسانوں اور دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کی ہے۔
2022 کے سیلاب کے دوران سابق وزیر برائے ماحولیات شیری رحمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس کے نتیجے میں تقریباً 32 لاکھ سے زیادہ خاندان در بدر ہو چکے ہیں اور یہ بھی کہ سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کو ہوا جبکہ علاقہ مکینوں کے مطابق اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب 1976 میں آیا تھا۔ اس کے بعد 2010 میں اور اب حال ہی میں 2022 میں۔
چوکی جمالی کی صورتحال سیلاب کے بعد ابتر ہو چکی ہے اور اس کی مثال کم عمر بچیوں کو بیچنے کے واقعات سے جڑی ہے۔
’تین سے پانچ لاکھ روپے میں بیچ دیا جاتا ہے‘
بچیوں کو بیچنے کی وجہ بتاتے ہوئے ایک سکول ٹیچر نے بتایا کہ سیلاب کہ بعد کسان سُود پر قرضہ لیتے رہے اور سُود پر مزید سُود لگتا رہا اور قرضہ نہ چکانے کی صورت میں انھیں اپنی کم عمر بچیوں کو 40 سے 60 سال کی عمر کے مردوں تک کو بیچنا پڑا۔
حکام کے مطابق 2022 کے سیلاب کے بعد آنے والی معاشی بدحالی کے بعد ایسے واقعات پہلے سے زیادہ سننے میں آرہے ہیں۔
یہاں پر میری ملاقات ایک مزدور سے ہوئی جنھوں نے بتایا کہ ان کی ایک روز کی کمائی محض 500 روپے ہے۔
مزید بات کرنے پر انھوں نے بتایا کہ کیسے انھیں اپنی 10 سالہ بیٹی کو ایک چالیس سالہ مرد کے ہاتھوں بیچنا پڑا۔
’میں مجبور تھا۔ میری بیوی کا آپریشن ہونا تھا۔ بچہ ضائع ہو گیا لیکن بیوی بچ گئی۔ یہ سیلاب آنے کے کچھ روز بعد کی بات ہے جب ایک ایک کر کے تمام راستے بند ہو گئے۔ کوئی ہسپتال یا کسی ایمرجنسی تک جانے کا راستہ نہیں تھا اور اگر راستہ تھا تو وہاں تک جانے کے پیسے نہیں تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اب جو قرضہ لیا ہے وہ کیسے چکاؤں؟ میں نے اُس وقت اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ تمہیں اسی آدمی سے شادی کرنی پڑے گی کیونکہ بدلے میں ہمیں پیسے ملیں گے، ماں کا علاج ہو گا اور اس کی دوائیاں آئیں گی۔‘
جن مزدور کے گھر میرا جانا ہوا ان کے گھر کھانے کے لیے ایک وقت کی روٹی بھی نہیں تھی۔ آٹے کے خالی کنستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس وقت اتنا آٹا بھی نہیں کہ اس سے ایک وقت کی روٹی بنائی جا سکے۔
’اس لیے ہم ہفتے میں تین دن کھانا کھا سکتے ہیں باقی چار دن فاقہ کرنا پڑتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس وقت ان کی بیٹی ان کے گھر پر صرف اس وجہ سے بیٹھی ہے کیونکہ ’اس کا شوہر اپنے گھر کا کوئی جھگڑا نمٹانے شہر گیا ہوا ہے اور اس دوران وہ اپنی بیٹی کو سکول جانے دے رہے ہیں۔‘
’لیکن میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کا شوہر اسے یہاں سے جانے کے بعد سکول جانے دے گا یا نہیں۔‘
زیادہ تر بچیوں کی رقم تین سے پانچ لاکھ روپے تک لگائی جاتی ہے۔ اس رقم سے کسان اور مزدور اپنا قرضہ چکاتے ہیں، کراچی سے طبی علاج کرواتے ہیں یا پھر بیٹے کی پڑھائی پر لگا دیتے ہیں۔
میرے پوچھنے پر ایک والد نے بتایا کہ ’ہم صرف بیٹی کو بیچتے ہیں کیونکہ اس کی آگے بھی اولاد ہوتی ہے۔ لڑکوں کو نہیں بیچتے کیونکہ اس سے کچھ نہیں ملتا۔‘
اسی طرح چند لوگوں نے اپنے گھر کا دروازہ یہ کہہ کر نہیں کھولا کہ ان کے گھر بیٹیاں نہیں۔ اس لیے وہ سیلاب کے بعد گھر کا بچا کچا سامان بیچ کر یا کسی زمیندار کی زمین پر کام کر کے قرضہ پورا کررہے ہیں۔
یہ قرضہ بھی دو طرح کا ہے، ایک وہ جہاں مزدور بطور مزارعے کام کرتے ہیں اور ان کو کم اجرت کے ساتھ ساتھ سیلاب کے بعد برباد ہونے والی زمین کا قرضہ بھی بھرنا پڑتا ہے اور دوسرا قرضہ وہ لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں طبی علاج اور گھر کا خرچہ نکالا جاتا ہے لیکن ان دونوں صورتوں میں کم عمر بچیوں کو بیچ کر قرضے کی رقم بھری جا رہی ہے۔
ایک مقامی ٹیچر نے بتایا کہ ’بہت سے واقعات میں ایک کم عمر بچی کو دو سے تین دفعہ بھی بیچا جاتا ہے۔ جو تب ہوتا ہے جب بچی ’ایڈجسٹ‘ نہیں کرپاتی۔
کئی دفعہ بچیاں بیچنے کی باتیں سن کر گھر سے بھاگ جاتی ہیں اور اگر اس کی بہنیں ہوں تو اس کے بھاگنے کا نقصان ان کی کم عمر بہنوں کی شادی کرکے بھرا جاتا ہے۔‘
ٹیچر نے بتایا کہ جن زمینداروں کی زمین پر کسان کام کرتے ہیں ان کی جانب سے کبھی بھی کم عمر لڑکیوں پر زنا کا الزام لگایا جا سکتا ہے اور تہمت کے ڈر سے والدین جلد بازی میں کم عمر بچی کی شادی کروا دیتے ہیں۔
کلائمٹ برائیڈ اور ماحولیاتی تبدیلی
اس پوری صورتحال سے گزرنے والی کم عمر لڑکیوں کے لیے ’کلائمٹ برائیڈز‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جن ممالک میں اب بھی بچیوں کو بیچنے کا رواج عمل میں ہے ان میں افریقہ، انڈیا اور پاکستان شامل ہیں۔
بلوچستان میں ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے ادارے ’مدد کمیونٹی‘ نے حال ہی میں صوبے کے بارے میں بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی اور سیلاب کے نتیجے میں زراعت کے شعبہ سے کمانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
آرگنائزر مریم جمالی نے بتایا کہ ’زیادہ تر لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے جن میں بلوچستان کا متوسط طبقہ شامل ہے۔ غریب کسان اب بھی کہیں نہیں جا سکتے۔ شدید گرمی کے نتیجے میں مزید قحط سالی اور سیلاب کی پیشگوئی کی گئی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’مزارعے جن کا گزر بسر ہی زرعی پیداوار سے ہوتا ہے ان کے لیے اب زمین سے کمانا مشکل ہو چکا ہے کیونکہ ہر موسم کے ساتھ پیداوار میں کمی آرہی ہے اور اوپر سے خوراک نہ ہونے کے نتیجے میں وہ قرضہ لے کر اسے پورا کرتے ہیں۔‘
مریم نے بتایا کہ کمائی کم ہونے کے نتیجے میں چوکی جمالی کے گاؤں میں لوگ بچیوں کو بیچ کر گزر بسر کررہے ہیں۔
’کم عمری کی شادیوں میں 13 فیصد اضافہ‘
اس علاقے میں رہنے والے بتاتے ہیں کہ یہاں پر پہلے بھی کم عمری میں شادیاں کروائی جاتی رہی ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) نے اگست 2022 میں بلوچستان کے 14 اضلاع کا سروے کیا تھا۔
اس سروے کے مطابق کم عمری کی شادیوں کے نتیجے میں بچیوں کو بیچنے کے واقعات میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
میں نے چوکی جمالی کے ایک سکول کا بھی دورہ کیا۔ اس سکول کی ہیڈ ماسٹر سعدیہ نے بتایا کہ ’چھوٹی بچیوں کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ خود پر ہونے والے تشدد کے قصے سناتی ہیں۔ پڑھائی سے کچھ حد تک فرق آیا ہے لیکن اب بھی والدین بچیوں کو بیچنے سے نہیں رک رہے۔‘
اسی سکول سے کچھ دور چوکی جمالی کا بنیادی مرکزِ صحت ہے۔ یہاں پر لیڈی ہیلتھ ورکر شہزادی نے بتایا کہ ہر دوسرے روز حمل کے دوران ہلاکت کا کوئی کیس آتا ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکر شہزادی بتاتی ہیں کہ کچھ کیسز میں بچیاں درد سے روتی ہیں، کچھ یہیں دم توڑ دیتی ہیں۔ ہم پھر بھی شور مچاتے ہیں، کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن ان بچیوں کی مائیں اس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتیں کیونکہ بچیوں کو بیچنے کا فیصلہ گھر کے مرد کرتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس حال ہی میں ایک ماں اپنی 16 سال کی بچی کو لے کر آئی۔
’اس بچی کی ماں نے بتایا کہ انھوں نے سیلاب کے بعد بڑھنے والی غربت کے نتیجے میں اپنی 16 سالہ بچی کی ایک 40 سالہ مرد سے شادی کروائی۔‘
فسٹیولہ اور حمل کے دوران ہلاکت
ڈاکٹروں کے مطابق سندھ اور بلوچستان کے علاقوں سے زیادہ تر کم عمر بچیوں کے حمل کے دوران ہلاکتوں کے کیس آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کم عمر بچیوں میں فسٹیولہ کی بیماری، حمل ٹھرنے میں دشواری اور پیشاب کی نالی سے خون آنے کے واقعات جڑے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سجاد نے بی بی سی کو بتایا کہ یو این ایف پی اے کے ساتھ کام کرتے ہوئے انھیں اندازہ ہوا کہ ان دونوں صوبوں میں کم عمری کی شادیاں کروائی جا رہی ہیں اور ان میں 2022 کے سیلاب کے بعد اضافہ ہوا۔
’میں نے ایسے کیسز بھی دیکھے ہیں جن میں کم عمر بچیاں حمل کے دوران ہلاک ہو جاتی ہیں۔ والدین عمر چھپاتے ہیں لیکن لڑکیوں کی کلائی سے ان کی عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘
’یہ تو ہمیں کافی عرصے سے پتا ہے کہ ان علاقوں میں ایسا ہوتا رہا ہے لیکن بچیوں کو بیچنے کے واقعات میں 2022 کے سیلاب کے بعد اضافہ دیکھنے میں آیا۔‘
اب سوال یہ بھی ہے کہ حکام سب جانتے ہوئے بھی ان شادیوں کو کیوں نہیں روک پا رہے؟
حکومتی کمیشن برائے خواتین کی چیئر پرسن فوزیہ شاہین نے کہا کہ بلوچستان میں کم عمر بچیوں کی شادیوں کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔
’ہم مکمل اعداد و شمار نہیں بتا سکتے کیونکہ ہمارے پاس نکاح رجسٹریشن کا کوئی طریقہ کار نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کم عمر کی شادیوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘
فوزیہ شاہین نے بتایا کہ بچوں کی شادیوں کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر قانون موجود نہیں۔
’اب کیونکہ ان شادیوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا، جو ایک تشویشناک بات ہے تو ہم نے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بِل جو کہ بلوچستان میں کئی دہائیوں سے ہر اسمبلی میں پیش کیا گیا، کوشش کی کہ گزشتہ اسمبلی سے پاس کروا لیتے لیکن افسوس کے ساتھ یہ بِل ایوان میں پیش نہیں کیا گیا۔ ہم پھر بھی کوشش کررہے ہیں۔‘
ان شادیوں اور کم کم عمر بچیوں کو بیچنے کے پیچھے کوئی بھی وجہ بتائی جائے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی قیمت بلوچستان کی کم عمر بچیوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔
- ایمسٹرڈیم میں فُٹبال میچ کے بعد اسرائیلی فینز پر تشدد اور ’ٹیکسیاں چڑھانے کی کوشش‘، 62 افراد گرفتار - 08/11/2024
- سلمان رشدی کی ’سیٹانک ورسز‘ پر عدالتی فیصلے کے بعد انڈیا میں اس متنازع کتاب پر پابندی ختم ہو گئی؟ - 08/11/2024
- اپنے پوتے پوتیوں میں چھپ کر ٹافیاں اور سوڈا بانٹنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا خاندان - 08/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).