پنڈورا باکس


آغاز آفرینش کے بارے میں تمام مذاہب، معاشروں اور سائنس دانوں کے اپنے اپنے نظریات اور خوبصورت کہانیاں موجود ہیں۔ قدیم یونانی دیومالائی روایات کے مطابق اس کرۂ ارض کو آباد کرنے کے لئے دیوتاؤں کے بادشاہ زیوس نے ایک دیوتا پرومی تھیوس کو انسان تخلیق کرنے کا حکم دیا اور اس کے بھائی اپیمی تھیوس  کو جانور اور پرندوں کی تخلیق کا حکم دیا۔ یونان کے ایک کسان شاعر ہیسیڈ ( 750 ق۔م ) نے پہلے باغی اور پہلے سیاسی قیدی پرومی تھیوس کی اس کہانی کو نظم کیا تھا۔ جس نے قدیم یونانیوں کے رب اعلی زیوس کی حکم عدولی پر سزا پائی تھی۔ ہمارے روایتی شیطان نے بھی خدا کی حکم عدولی کی سزا پائی۔ یہ شیطان بدی کی علامت اور بنی نوع انسان کا ازلی دشمن ہے۔ انسانوں کو گمراہ کرتا ہے جبکہ پرومی تھیوس انسانوں کا دوست اور محسن ہے زیوس کی نظروں میں اس کا قصور ہی یہ ہے کہ اس نے انسان کو نہ صرف مختلف علوم و فنون سکھائے بلکہ آگ کے استعمال سے بھی آگاہ کر دیا۔ جو زیوس کا سب سے خفیہ راز تھا۔

آگ چوری کرنے کے الزام میں سزا کے طور پر زیوس نے پرومی تھیوس کو زنجیروں میں جکڑ کر کوہ قاف کی سب سے اونچی چوٹی کے ساتھ باندھ دیا اور ایک گدھ مقرر کر دیا جو دن بھر پرومی تھیوس کا کلیجہ نوچ نوچ کر کھاتا رہتا تھا۔ رات کو کلیجہ اپنی اصلی حالت میں آ جاتا تھا اور اگلے روز پھرسے گدھ کلیجہ نوچنا شروع کر دیتا تھا اور سارا دن اسی کام میں مصروف رہتا تھا۔ پرومی تھیوس نے یہ اذیت ناک سزا تیس ہزار برس تک کاٹی مگر معافی نہیں مانگی۔

بعض مشاہیر افلاطون، بیکن، گوئٹے، بائرن، شیلی، والٹیر، کارل مارکس اور پکاسو نے اس کی انسان دوستی، پامردی اور اخلاقی جرات کو خوب سراہا ہے۔ اس کہانی پر کئی ڈرامے بھی لکھے گئے۔ سزا کے طور پر پرومی تھیوس کے بھائی اپیمی تھیوس کوایک خوبصورت لڑکی پنڈورا دی گئی جو یونانی دیومالائی کہانیوں کے مطابق زمین پر دنیا کی سب سے پہلی عورت تھی جو سب سے بڑے دیوتا زیوس کے حکم پر مٹی سے بنائی گئی تھی۔ پرومی تھیوس نے اپنے بھائی کو دیوتاؤں سے کوئی بھی چیز لینے سے منع کیا تھا مگر پنڈورا خوبصورت ہی اتنی تھی کہ اپیمی تھیوس اس کے حسن و جمال کا اسیر ہو گیا اور قبول کرنے سے انکار نہ کر سکا۔ تمام دیوتاؤں کی طرف سے دیے گئے تحائف پر مشتمل ایک ڈبہ پنڈورا کو دیا گیا۔ جسے پنڈورا باکس کہا جاتا ہے۔ اس باکس کو کبھی نہ کھولنے کا حکم بھی دیا گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تجسس جب آخری حد تک پہنچ گیا تو ایک روز پنڈورا نے باکس کا ڈھکن سرکایا تو دھواں سا نکلا جس سے پورے معاشرے میں بیماریاں پھیل گئیں۔ پھر ڈھکن سرکایا تو ایسا دھواں نکلا کہ معاشرے میں کرپشن پھیل گئی۔ ہر بار ڈھکن سرکانے سے معاشرے میں بد امنی، فسادات، لوٹ مار، کرپشن، جرائم، بیماریاں، مصائب، اور برائیاں پھیل گئیں۔ اس باکس میں انسانیت کے لئے تمام نامعلوم آفات اور مصائب قید تھے۔ جب اس میں صرف ایک چیز باقی رہ گئی تھی تو پنڈورا نے پریشانی کے عالم میں باکس کا ڈھکن بند کر دیا۔

پنڈورا کے خاوند نے کہا کہ جب باکس میں سے سب کچھ نکال دیا ہے تو اب اس میں صرف ایک چیز جو باقی رہ گئی ہے اسے بھی آزاد کر دو ۔ تا کہ باکس خالی ہو جائے۔ اور کسی دوسرے کام کے لئے استعمال کیا جائے۔ پنڈورا نے ڈھکن کھولا اور آخری چیز جو باکس سے برآمد ہوئی وہ امید  تھی۔ جو معاشرے میں پھیل گئی تو معاشرے سے نحوست ختم ہونے لگی۔ بیماریوں، مصائب اور برائیوں سے نجات ملی اور معاشرہ بہتری، امن اور خوشحالی کی جانب گامزن ہو گیا۔

کسی معاشرے کے لئے امید ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ امید حوصلہ مندی اور زندگی کا ایک استعارہ ہے جو انسان کو مایوس ہونے سے بچاتا ہے اور زندہ رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔

اس روایت کو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی پنڈورا باکس سے نکل کر تمام بیماریاں، برائیاں، کرپشن، بدامنی، نا امیدی، جہالت، جرائم، افراتفری، فساد، مسائل اور مصائب معاشرے میں پھیل چکے ہیں۔ تمام ادارے تنزلی اور زوال کی آ خری حدود کو چھو رہے ہیں۔ اب یہ معاشرہ انسان دوست، سچے، ایماندار، دیانتدار، مخلص اور اہل علم و دانش کے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ اب اس پنڈورا باکس میں آخری چیز ”امید“ ۔ جو موجود ہے اور ابھی تک قید ہے۔ اس امید کو پنڈورا باکس سے رہائی ملے گی تو معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو گا اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔

ور نہ آئینی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے ہمارا زوال پذیر معاشرہ تنگ و تاریک راہوں میں بھٹکتا رہے گا۔ اور پاکستان کا مستقبل تباہ و برباد ہو جائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).