ایک ڈھکن۔ ڈاک۔ ٹر، ملنا اک اور گھنٹہ گھر کا


میں جب بیاہ کر دوبارہ فیصل آباد آئی تھی تو اس شہر کو دیکھنے کا نظریہ مختلف تھا سچی بات یہ ہے کہ یہاں کے رویے دیکھ کر گھبرا گئی تھی اور میں نے اپنے افسانے ”یہ گھنٹہ گھر“ میں لکھا تھا ”مجھے مختلف سروں پہ مختلف جسامت کے چھوٹے بڑے گھنٹہ گھر نظر آنے لگے ہیں۔ یہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ کلینکس میں مجھے اتنے گھنٹہ گھروں سے ملنے کا شرف حاصل ہوا ہے کہ اگر ان تلخ تجربوں کو رقم کرنے بیٹھوں تو شاید اک الگ کتاب مرتب ہو جائے۔“

آج مجھے یہ بتاتے ہوئے ازحد مسرت ہو رہی ہے کہ پچیس سال کے بعد بھی یہاں اکثر کلینکس، اور دکانوں پہ دفتروں پہ چھوٹے بڑے گھنٹہ گھر براجمان ہیں جو اپنے غرور و تکبر سے فریق متضاد کو پاش پاش کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں یعنی اک ڈھکن ڈاکٹر ڈھونڈو تو ہزار ملتے ہیں، شہر نے بظاہر پچیس سالوں میں کچھ ترقی کی ہوگی کہ اب سڑکیں بہتر ہو گئی ہیں، جا بجا ملٹی نیشنل فوڈ برانڈز اور کپڑوں جوتوں کے برانڈز کے اوٹ لیٹس نظر آتے ہیں۔

بڑے اور جدید مالز ہیں جہاں ضرورت کی تقریباً ًہر چیز دستیاب ہے مگر شہر ابھی بھی تفریحی پوائنٹ آف ویو سے، اچھے ریسٹورنٹس کے تنوع اور صحت کے حوالے سے اچھے مراکز سے خالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر سیٹ پہ اک گھنٹہ گھر بیٹھا ہے۔ شاید آنے والے وقتوں میں کچھ ذہین سرمایہ دار اٹھیں اور اس خلا کو پر کر کے اس اجارہ داری کا سد باب کریں مگر تاحال تو ہمیں مختلف النوع کے گھنٹہ گھروں سے نبٹنا ہے۔

چلیے چھوڑیے آپ قصہ سنیے اس ڈھکن ڈاکٹر۔ ۔ ۔ نہیں نہیں اک گھنٹہ گھر سے ملاقات کا۔ ہمارے ایک محترم و مربی فیس بک فرینڈ جن سے مختلف ادبی محافل میں بھی ملاقات ہو چکی تھی اور جن کی جانب سے ہمیشہ بہت عزت و احترام ملا، ہماری ذرا سی اصلاح کو انھوں نے اعلی ظرفی سے اتنی بار دہرایا کہ عرق ندامت سے پیشانی تر ہوجاتی ہے، اپنی خرابی طبیعت کا ذکر کیا تو ایک سپیشلسٹ کے بارے میں بتایا کہ اس مرض کے ماہر ہیں دکھا کے دیکھ لیجیے، اپنی ڈاکٹر بیٹی سے تذکرہ کیا تو اس نے بھی کہا جی مما کافی نام ہے ان کا۔ لیجیے سند حاصل ہوئی اور ہم اور بٹیا رانی سوئے مقتل روانہ ہوئے۔

اب ٹائم تین بجے کا تھا جو ہم نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر چار بجے کا کروایا، عین چار بجے ہم کلینک پہ تھے پتہ چلا کہ تاحال ڈاکٹر صاحب غیر حاضر ہیں۔ خیر پندرہ منٹ انتظار کے بعد سواری باد بہاری جلوہ افروز ہوئی اور ہمیں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ ہم نے اپنی تمام تر رپورٹس اور سابقہ ڈاکٹری ریکارڈ حاضر خدمت کیا۔ ہماری گفتگو سے اندازہ لگایا کہ پیشنٹ خاتون دو چار حرف پڑھی لکھی ہے، تو پوچھنے لگے ایسا کیا کرتی ہیں کیا جاب ہے کہ اتنا ڈپریشن لے لیتی ہیں۔ بندی نے عرض کیا، بندی بے کار و ناکارہ ہے ہماری بیٹیا نے مداخلت کی میری مما رائٹر ہیں اور ہم نے بتایا کہ ہماری گڑیا ڈاکٹر ہے۔

لیجیے جناب اس چند سیکنڈ کے تعارف کے بعد جانے ایسا کیا ہوا کہ موصوف اپنا ماسک اتار کر سامنے آ گئے۔ پہلے تو ہمیں اپنے مرض کی تفصیل بتانے پہ شرمندہ کیا کہ اب آپ ہی بولیں گی یا میں بھی کچھ عرض کروں۔ اب یہ جملہ سن کر ہمارے ہاتھوں پہ بیٹھے طوطے مینا سب رخصت ہو گئے۔ جھٹ سے اک سوری لڑھکا دی۔ ڈاکٹر موصوف جانے لنچ میں نیم کے پتے چبا کے آئے تھے یا بیگم نے ڈانٹ کر جھاڑ پونچھ کر کے بھیجا تھا کہ موصوف کا غصہ سرد ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، اب کے ان کے اسسٹنٹ کی باری آ گئی جو بادشاہ سلامت کو پانی پلانے آیا تھا وہ بھی اچھی خاصی جھاڑ پی کر واپس ہوا۔

ہماری سٹی مزید گم ہو چکی تھی، ہم چپ کر کے دبک کے بیٹھ گئے۔ اب محترم ڈاکٹر نے پہلے تو جی بھر کر ہمارے سابقہ معالجین کی مٹی پلید کی اور ہمیں باور کروایا کہ ہم انتہائی غلط ہاتھوں میں تھے، بندی نے عرض کرنے کی بہتیری کوشش کی کہ اب بس ہلکا سا درد باقی ہے اور ایک عرصہ کے بعد میں نماز بھی نیچے جائے نماز بچھا کر ادا کر رہی ہوں، واک باقاعدگی سے کرتی ہوں ایکسرسائز بھی اور بس بے خوابی کا عارضہ ہے جو بچپن سے لاحق ہے جسے سن کر انہوں نے کان پہ بیٹھی مکھی کی طرح اڑایا اور اک رعونت سے فرمایا اب نہیں کریں گی واک بھی بس دس منٹ اور پھر بیٹھ جائیں، اور سوچیں زیادہ مت، خوش رہیں۔

میں نے منمناتے عرض کرنے کی کوشش کی کہ واک کرنا اور اکیلے خود سے باتیں کرنا، میوزک سننا مجھے اچھا لگتا ہے اور خوش کرتا ہے تو فرمایا میں نے واک سے منع کب کیا ہے سارا دن کریں مگر دس منٹ سے زیادہ نہیں (دل میں سوچا یعنی سارا دن ٹائمر لگاؤں اور مریض مریض محسوس کروں جبکہ واک تکلیف بھی نہیں دے رہی ہے درد کندھے میں ہے علاج گھٹنے کا ہو رہا ہے، مرض تو گردن اور کندھے کا اکڑاؤ اور بے خوابی ہے جو کوئی ایسا خوفناک مرض نہیں ہے سارے شاعروں ادیبوں کو لاحق مسائل ہیں اور جن ہدایات پہ عمل کروں تو کیا خود کو مریض مریض محسوس کروں سارا دن ) ۔ اس کے بعد موصوف نے پھر فرمایا کہ یہ کس نے آپ کو کس قسم کی ادویات لکھ دی ہیں میرا مقصد ان سے آپ کی جان چھڑانا ہے اس کے بعد ہمارے ذرا سے اونچے سول کے کمفرٹیبل جوتے پہ اک نگاہ غلط ڈالی اور فرمایا ”اب اپ صرف جوگرز پہنیں گی اور اس قسم کے جوتے پہننے سے گریز کریں۔

برا ہو میرے ہونق پن اور غائب دماغی کا اور اس بھیجے کا جو اکثر و بیشتر موقعے پہ دغا دے جاتا ہے اور جہاں جواب دینا ہو وہاں منہ میں گھنگنیاں پڑ جاتی ہیں اور سارے اچھے جواب بعد میں نزول فرماتے ہیں، ہماری غائب دماغی کا یہ عالم ہے کہ اکثر و بیشتر بیچ سڑک کے ہم کسی اور دنیا کی سیر میں مشغول ہوتے ہیں اور ہمارے ساتھ موجود ہمارا برخوردار فرماتا ہے مما آپ اس وقت کسی گہری سوچ میں کہیں اور پہنچی ہوئی ہیں ناں ”اور ہم شرمندگی سے واپس آتے ہوئے سامنے سے آنے والے، رکشے یا گاڑی کو دیکھتے ہیں جو پورے طمطراق سے ہمارے ساتھ ٹکرانے ہی والا تھا اور یہی سانحہ ہمارے ساتھ کلینک میں ہوا ہم ڈانٹ کھانے کے بعد صمٌ بکمٌ کی تصویر بنے ٹک ٹک دیکھا کیے اور کوئی جواب نہیں سوجھا۔

موصوف کا غصہ ابھی سرد نہیں ہوا تھا اسسٹنٹ بے چارے کو پھر لائن حاضر کیا اور ایک بار پھر گرجے برسے کہ تم مجھ سے آگے نہیں چل سکتے اور نہ ایسی کوئی کوشش کیا کرو وہ جی سر جی سر منمناتا ہوا رخصت ہوا۔

ہم اتنا بھی عرض نہ کر سکے کہ ڈاکٹر صاحب محترم عالی جاہ اس فدویہ نے مبلغ ڈھائی ہزار آپ کی فیس ادا کر کے یہ گنتی کے چند منٹ خریدے ہیں تاکہ اپنی اور اپنے مرض کی کتھا سنا سکے نہ کہ یہ دیکھنے کو کہ آپ اپنے جونیئرز اور سٹاف کی جھاڑ پونچھ کس ادا سے کرتے ہیں۔

خیر بڑے بدمزہ ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے کے مترادف جب بیسمنٹ کی سیڑھیاں چڑھ کر ہم اوپر آئے اور ستمبر کی دھوپ ملی ہوا چہرے سے ٹکرائی تو رخصت شدہ حواس کچھ بحال ہوئے۔ گم شدہ سگنلز کی مانند، ہم نے اپنی بیٹی سے عرض کیا کہ بیٹا میں تو گرمی میں بند جوتا پہن ہی نہیں سکتی اور میرے پاؤں کا تلوہ چپٹا ہے اس لیے فیملی ڈاکٹر کی ہدایت پہ اونچے سول کی آرام دہ جوتی پہنتی ہوں، اور ڈاکٹر نے یہ دو شاید پین کلر لکھے ہیں تو یہ کس گروپ کے ہیں تمھیں پتہ ہے مجھے کچھ پین کلرز سے شدید الرجی ہو جاتی ہے اب بٹیا بھی ڈاکٹر ہے اور موجودہ عزت افزائی پہ تپی ہوئی، چمک کر بولی ”تو مما وہاں بولنا تھا نہ وہاں تو آپ بولتے بولتے ایک دم چپ کر کے بیٹھ گئیں بتاتی اسے، ہمیں تو اتنا ڈانٹتی ہیں“

لیجیے جناب ہم مزید جھاڑ کھا کر بالکل متذبذب اور متزلزل گاڑی میں سوار ہوئے کہ پچھلے علاج کو دیکھیں جس سے بہت افاقہ ہوا یا ان موصوف کی بر عکس ہدایات کو سنیں۔

گھر آ کر پہلے تو ڈاکٹر محترم کے بتائے چینل سے ایکسرسائزز چیک کیں، غالباً یہ چینل بھی آمدنی دیتا ہو گا یعنی دھندے کے باقی سب لوازمات پورے تھے سوائے خوش اخلاقی اور دیانت دارانہ رائے کے۔

اب اگلی باری دواؤں کی تھی، دوائیاں منگوائیں تو انکشاف ہوا کہ وہی دوا جو ہمارے پچھلے ڈاکٹر دے رہے تھے، وہی سالٹ کسی اور کمپنی اور نام سے ہمارے ہاتھ میں تھا جب کہ ان میں دو تین ادویہ اور پین کلرز کا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ یعنی وہی عطر کسی اور ڈبی میں بند عطار کا لونڈا بیچ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کمپنی کی دواؤں سے محترم کو کمیشن ملتا ہو دیکھیے نہ پھر تو موصوف کی ناراضگی بنتی ہے، گھوڑا گھاس سے تو دشمنی کر نہیں سکتا۔

اب ہم نے نفع نقصان کا کچھ حساب کتاب کیا تو ہزار روپیہ پٹرول، ڈھائی ہزار فیس اور ادویات۔ جن میں دو عدد پین کلر تھے جن سے ہم ممکنہ حد تک بچتے ہیں کہ گردوں کی حفاظت رہے اور درد سر اور ہر درد کو شوق سے پالتو جانور کی طرح پالتے ہیں درد نہ پالیں تو لکھیں کیسے بھلا، تو ادویات ہم بدلوا ہی لیں گے، ان کی جگہ پرانی خرید لیں گے، اور دو دن کی ذہنی ٹینشن، کوفت اور ڈانٹ ڈپٹ ہمارے کھاتے میں جگمگا رہی تھی۔ بھئی اس نفع نقصان کے حساب کتاب پہ آپ متعجب نہ ہوں آخر میں ایک فیصل آبادی معتبر ٹریڈر کی بیوی ہوں۔

ہم نے ٹھنڈی آہ بھری اور ڈاکٹر کو مطلب اس کی پرچی کو سپرد کوڑا دان کیا اور اپنے سابقہ معالج سے رجوع کرنے کی ٹھانی۔ اب دکھی دل سے آپ کو یہ بپتا سنا رہے ہیں تو فیصل آبادی دوستو آپ سے بھی تو اکثر و بیشتر گھنٹہ گھر ٹکراتے ہی ہوں گے۔

ویسے یہ گھنٹہ گھر جب دیار غیر میں جاتے ہیں تو بالکل گول خوش اخلاق سی ممٹی میں بدل جاتے ہیں ورنہ لائسنس نہ کینسل ہو جائے ان کا۔ مگر کیا کروں یہ شہر پھر بھی مجھے بہت پیارا ہے کہ اک ننھا منا گلابی سا سبز شاخ میں لپٹا گھنٹہ گھر میرے من بھیتر میں بھی بستا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments