شاہد حسین!ہمارا دوست



میرے دوست شاہد حسین کو اس دنیا سے گزرے اور دوسری دنیا گئے آج ہفتہ تو ہو ہی گیا ہے۔ یوں تو زبان اور قلم پیٹ سے لگا ہے مگر اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ لکھنا چاہیں تو لکھا نہ جائے اور بولنا چاہیں تو بولا نہ جائے کچھ ایسی ہی کیفیت سے ایک ہفتے سے گزر رہا ہوں۔ چند سطریں لکھتا ہوں پھر کاغذ کا گولا بنا کے ڈسٹ بن کے پیٹ میں ڈال دیتا ہوں اور خود سے سوال کرتا ہوں کیا لکھوں؟ کیوں لکھوں؟ کہ میرے حساب سے تو شاہد کی زندگی کا باب پچاس سال پہلے ہی بند ہو گیا تھا۔ آج کا شاہد حسین پچاس برس قبل جوانی میں قدم رکھتے شاہد کا مڑا تڑا جسم تھا۔ برسوں سے ایک معمول کی طرح اسے پریس کلب کے برآمدے یا ٹیرس پر سگریٹ پھونکتے دیکھتا تھا اشاروں اشاروں میں ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے، میں اپنی تیزی میں کارڈ روم کی سیڑھیاں چڑھ جاتا اور وہ بیٹھا دیکھتا رہتا۔

شاہد سے بات نہ کرنے کا ایک سبب ”احساس ندامت“ کے ساتھ بھاگتا دوڑتا وقت بھی ہے جو اس تیزی سے گزرے جا رہا ہے کہ پلٹ کر دیکھنے کی فرصت نہیں اور جو ہماری اماں کہا کرتی تھیں کہ سانس لینے کی فرصت نہیں۔ وہ ہمارا حال ہے۔

شاہد کے بارے میں لکھتے ہوئے قلم اس لئے بھی تھرا رہا ہے کہ وہ سارے نام نہاد ”کامریڈ یا کردار“ سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر پیوند خاک ہوچکے ہیں۔ یہ سارے کامریڈی چہرے ایک کہانی ہیں۔ ان چہروں اور کہانیوں سے بے شمار لوگوں کی اچھی بری کہانیاں وابستہ ہیں۔

ہمارے ہاں روایت ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی گزر جائے تو بعد از مرگ یہ کہہ کر دامن بچا لیا جاتا ہے کہ ”اب کیا کہیں جانے والا چلا گیا اب دعا ہی کر سکتے ہیں اس کی بخشش ہو“ ۔

گردن گھما کے گزرے وقت کو دیکھتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ نوعمری کے اس دور میں گو کہ ہم الگ الگ پیلے اسکولوں سے نکلے تھے لیکن ہمارے درمیان جو چیز مشترک تھی وہ بائیں بازو کی نو زائیدہ تنظیم این ایس ایف تھی۔ شاہد اور میں اپنے اپنے خاندانی پس منظر کے ساتھ این ایس ایف میں زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے تھے اور خوش ہوتے تھے یہ سوچ کے کہ سامراج کی ایسی تیسی کردی ہے۔

ان دنوں ہمارے رضویہ کالونی والے گھر کے قریب ایک بہت ہی طرح دار کامریڈ ڈاکٹر قمرعباس ندیم رہتے تھے۔ جن کے لکھنوی رکھ رکھاؤ اور بے پناہ علم و دانش کے ہم دونوں اسیر تھے۔ شاہد! آج کے لیاقت آباد سے اور ہم اپنے گھر سے ہر شام پیدل قمر عباس کے گھر پہنچ جاتے۔ ان کی دھیمی آواز میں عقل و دانش سے بھر پور گفتگو سنتے، شام کا لطف اٹھاتے اور جھومتے جھامتے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ اس آنے جانے کے معمول میں وقت کے ساتھ مجید بلوچ، خورشید حسنین، خالد احمد، عابد اظہر اور آج کے ڈاکٹر جعفر احمد بھی شامل ہوتے گئے۔

این ایس ایف کے جس دھڑے میں ہم سب تھے وہ ماسکو نواز پارٹی کے ڈسپلن میں تھا۔ کامریڈوں کا دوسرا دھڑا چین نوازوں کے کنٹرول میں تھا۔ قمر عباس کا شمار اس وقت کے منحرفین میں ہوتا تھا۔ ہماری زندگیاں اس وقت اسی دائرے میں گھومتی تھیں۔ اور ہمارا مرنا جینا ان گروپوں کے ساتھ ہی تھا۔ تعلیم اور سیاست کے سبق پڑھتے پڑھتے ایک دن یہ بات آشکارا ہوئی کہ ”شاہد باقاعدہ طور پر پارٹی ڈسپلن میں چلے گئے ہیں“ ۔

اپنی جوانی کے زور اور مہم جوئی کے شوق میں وہ ایک دم بہت آگے نکل گئے۔ ان ساری باتوں کا پتہ ہمیں بہت دیر سے چلا۔ جب اپنی طویل گمشدگی کے ابتدائی چند ماہ وہ ایجنسیوں کے سفاکانہ تشدد میں گزارنے کے بعد کراچی جیل کے بند وارڈ کے عقوبت خانے میں پہنچے۔ کیوں کہ انھوں نے سچ نہ بولا سو مستقل تشدد کا نشانہ بنے رہے۔ کتنی مار کھاتے، جسمانی اور ذہنی تکالیف برداشت کرتے کرتے ایک دن توازن کا دامن ہاتھ سے چھٹ گیا۔ ظلم کرنے والوں کو جب اس بات کا ادراک ہوا کہ بات بہت آگے نکل گئی ہے اور بندہ اب ان کے کسی کام کا نہیں رہا تو ایک صبح دروازہ کھول دیا گیا۔

شاہد حسین! ٹہلتے ٹہلاتے کسی طرح گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے یہاں سے ان کی زندگی کا ایک دوسرا دور ڈاکٹر ہارون احمد کی معیت میں شروع ہوا جو ان کی زندگی میں کبھی نہ ٹوٹا۔ ڈاکٹر ہارون نے دل سے، دوا سے، دعا سے شاہد کو اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنے پیروں پے کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے۔ شاہد نے اپنی تعلیم مکمل کی اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ تشدد کے جن روز و شب سے وہ گزرے تھے انھوں نے مزاج میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ ایک جگہ ٹک کے بیٹھنا یا احکامات کی بجا آوری ان کے لئے ممکن نہ رہا تھا۔ اس مزاج کے ساتھ اخباری نوکری یا قلم کی گھسائی سے کمائی کرنا ہی ان کے لئے بہتر ثابت ہوا۔ اس کمائی ہی سے انھوں نے نہ صرف گھر کا چولہا روشن رکھا، گھر آباد کیا، بچوں کو پڑھایا لکھایا، انھیں ان کے پیروں پر کھڑا کیا اور وہ ایک آسودہ حال زندگی کے قریب چلے گئے۔

اس ساری جدوجہد میں شاہد کی زندگی کے دو کرداروں کا بہت عمل دخل ہے ایک صبر شکر سے بھرپور ان کی ماں اور دوسری ان کی شریک حیات، جس نے شاہد کو نہ صرف دل و جان سے قبولا زندگی کی دوڑ میں قدم قدم پر ان کا ساتھ دیا اور شاہد کی حیات کا وہ ستون بنی رہیں جس کے سہارے شاہد کی حیات کھڑی رہی۔

گزرے برسوں میں صفحے سیاہ کرتے ہوئے کئی بار یہ خیال آیا کہ وہ خونچکاں داستان رقم کروں جس کے سبب ہنستے کھیلتے زندگی سے بھرپور شاہد جیسے نوجوانوں کی ایک پوری نسل ”نام نہاد کامریڈوں کی بھینٹ چڑھ گئی“ ۔ جن کی اپنی اولادوں نے ماسکو سے لے کر امریکہ تک کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھا لکھا اور بیشتر آباد بھی ہو گئے۔ وہ خود کلفٹن ڈیفنس کے پرسکون گھروں میں آباد ہو گئے۔

شاہد حسین! کے ساتھ جو ہوا وہ بائیں بازو کی سیاسی تاریخ کا المناک رزمیہ ہے۔ وہ ایک فرد نہیں ایک تحریک تھا۔ جس کے بعد وطن عزیز میں بائیں بازو کی پارٹیوں کی سیاست کا بوریا بستر لپٹ ہی گیا۔

آپ اختلاف کریں۔ آپ کا حق ہے۔ مگر حقیقت یہ ہی ہے۔

دوسروں کو کیوں دوش دوں۔ شاہد کے ساتھ جس وقت اور جس عمر میں جو بے رحمانہ سلوک ہوا وہ ہمارے لئے ایک ڈراؤ نا خواب تھا۔ ہم ایک دوسرے سے اس بارے میں بات کرتے ہوں کتراتے تھے۔ انقلاب کا خواب اور بھوت کہیں پس منظر میں چلا گیا تھا۔ اس بیچ ہماری عملی زندگیوں کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔ تعلیم مکمل ہو چکی تھی اور گھر والوں کو ہماری کمائیوں کا انتظار تھا۔ زندگی کسی اور روپ میں سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔

”ایک ڈھلتی شام کو کچھ دوست ساتھ مل بیٹھے تو بنا کسی لگی لپٹی کے یہ فیصلہ ہوا کہ لالو کھیت، گولی مار، لانڈھی، کورنگی میں رہنے والے نام نہاد اشتراکی وڈیروں کے ہاری بن کر خون تھوکنے سے بہتر ہے کہ جس جس کو اپنا مستقبل سنوارنے کا موقع ملے وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ جس کو اسکالر شپ ملتا ہے اس سے مستفید ہو اگر کسی کو گھریلو ذرائع میسر ہوں تو ان سے فائدہ اٹھائے“ ۔

اُس فیصلے کی شام ڈاکٹر قمر عباس ندیم بہت یاد آئے کہ انھوں نے دامے، درمے، سخنے جس طرح ہم سب کی مدد کی تھی وہ کوئی اور نہ کر سکا۔ حتی کہ ہم آپس میں بھی ایک دوسرے کی دیکھ ریکھ نہ کرسکے۔

زندگی کی دوڑ میں گرتے پڑتے، روکھی سوکھی کھا کے شاہد حسین کے ساتھ جوانی اور ادھیڑ عمری کے دن گزارتے یہاں پہنچے ہیں تو بہت فخر سے کہہ سکتے ہیں

اس عشق نہ اسُ عشق پے نادم ہیں مگر دل۔ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت۔

مجاہد بریلوی
Latest posts by مجاہد بریلوی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments