ملتان کے سات اخبارات کے ابتدائی دنوں کی کہانیاں


رضی الدین رضی کی یاد نگاری

صحافتی زندگی کے حوالے سے اپنی یادوں کو قلمبند کرنے بیٹھا تو گویا دبستاں کھل گیا۔ کون سی خبر کب بنائی؟ کس ادارے میں کس کے ساتھ کام کیا؟ کس نے کتنی تن خواہ ہضم کی؟ کون اب کس حال میں ہے؟ اور کون اب حال میں ہے نہ مستقبل میں صرف ماضی بن چکا ہے؟ ایک ایسا ماضی جو ہمیں ناسٹلجیا میں لے جاتا ہے اور معطر رکھتا ہے۔ خیالوں کے اسی تسلسل میں سب کچھ ایک فلم کی صورت میں نظروں کے سامنے گھومنے لگا۔ پھر خیال آیا کہ سب سے پہلے ان اداروں کا ذکر کیا جائے جن کے اجرا میں خود ہم نے حصہ لیا۔ جن کا پہلا شمارہ ہمارے سامنے یا ہماری کوششوں سے تیار ہوا اور جن کی اشاعت کا پہلا دن ہمیں آج بھی محبوبہ کے پہلے بوسے کی طرح یاد ہے۔ بعد کے دنوں میں یہ اخبار ایک بڑے اخبار کی صورت اختیار کر گئے یا اپنا تسلسل جاری نہ رکھ سکے لیکن ہماری یاد میں تو ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔ یہ سب کچھ ضبط تحریر میں لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہم بہت کچھ بھول چکے۔ اور یہ بھی مکمل نہیں بچی کھچی یادیں ہیں جنہیں محفوظ کر دینا بہت ضروری ہے۔

کسی بھی کام کا آغاز ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے جب ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ اس کام کی تکمیل میں کون سی رکاوٹیں ہمیں درپیش ہوں گی۔ کون سی چیزیں درکار ہوں گی، افرادی قوت کتنی ہو اور دفتر کیسا ہونا چاہیے یہ سب باتیں انہی لمحات میں سوچی جا رہی ہوتی ہیں جب ہم کسی کام کا آغاز کرنے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور بات جب اخبار کی ہو تو پھر اس میں کچھ اور چیزیں بھی بہت ضروری ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اخبار کی اشاعت میں سب سے اہم مرحلہ وقت کا ہوتا ہے۔ ایک ڈیڈ لائن ہوتی ہے جس میں رہتے ہوئے آپ نے کام مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ وقت پر اخبار تیار نہیں کرتے، ڈیڈ لائن کا مقابلہ نہیں کرتے اور بروقت اخبار مارکیٹ میں نہیں پہنچتا تو پھر آپ نے جتنی بھی محنت کی، اخبار جتنا بھی خوبصورت بنایا سمجھیں سب کچھ ضائع ہو گیا۔ سو اخبار شروع کرنے سے پہلے اس کی ڈمی شائع کی جاتی ہے۔ ڈمی ایک طرح کی ریہرسل ہوتی ہے جس میں روزانہ اخبار تیار کیا جاتا ہے۔ اسے چھاپا بھی جاتا ہے۔ لیکن مارکیٹ میں نہیں بھیجا جاتا۔ سو وہ اخبار ڈمی کہلاتا ہے۔ ہم نے ڈمی حکومتوں، ڈمی وزرائے اعظم اور ڈمی سیاستدانوں سے کہیں پہلے ڈمی اخبارات کا ذکر سنا تھا۔ ڈمی سیاستدان اور حکمران تیار کرنے والے تو شاید اتنی محنت نہیں کرتے ہوں گے ورنہ اچھی ڈمیاں تیار ہو جاتیں لیکن ڈمی اخبار کی تیاری ہم بہت محنت سے کرتے تھے۔ اور ہم اس لیے محنت کرتے تھے کہ ہم ڈمی کو بھی اصل سمجھ کر ہی تیار کرتے تھے کہ آنے والے دنوں میں ہم نے اسے مارکیٹ میں بھیجنا ہوتا تھا۔

اب تو کمپیوٹر کا زمانہ ہے، جب کتابت کا دور تھا اور خوش نویسوں نے پورا اخبار تیار کرنا ہوتا تھا تو اس دور میں خوش نویس اخبار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ خوش نویسوں کی تعداد سب ایڈیٹروں کی تعداد سے زیادہ ہوتی تھی اور تنخواہوں کے معاملے میں بھی بعض خوش نویس ایڈیٹر کے ہم پلہ اور بسا اوقات اس سے بھی باہر ہوتے تھے۔ پھر کمپیوٹر سیکشن آئے تو ٹیکنالوجی اہم ہو گئی۔ کمپوزر، کمپیوٹر کا ماڈل، پرنٹر اور ٹونر اخبار کی تیاری میں استعمال ہونے لگے۔ کتابت کے زمانے میں اگر مطالبات منوانے کے لیے کارکنوں کو خوش نویسوں کی مدد لینا پڑتی تھی تو ٹیکنالوجی آنے کے بعد کمپیوٹر سیکشن والوں کی جانب سے ہڑتال کی دھمکی پر مالکان چاروں شانے چت ہو جاتے تھے اور باقی کارکنوں کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیتے تھے یا ان کے بقایا جات ادا کر دیتے تھے۔ سو قارئین محترم اس کتاب میں آپ کو صحافت کی زندگی کے مختلف زاویے دکھائی دیں گے جن میں مختلف شخصیات کی جھلک بھی ہوگی۔ مختلف بریکنگ نیوز کا احوال بھی پڑھنے کو ملے گا اور کس اخبار کا اجرا کیسے ہوا یہ مزے مزے کی کہانیاں بھی اس کتاب میں آپ کو اپنی جانب متوجہ کریں گی۔ سو سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں ان اخبارات کا جن کی بانی ٹیم کا ہم حصہ رہے۔ یہ ایک سرسری جائزہ ہے تمام اخبارات کا۔ آنے والے صفحات میں ہم آپ کو ہر اخبار کے اجرا کی الگ کہانی سنائیں گے۔

1985 میں لاہور سے رفیق ڈوگر صاحب نے پندرہ روزہ دید شنید کا اجرا کیا تو ڈاکٹر انور سدید صاحب نے مجھے اس کی تاسیسی ٹیم کا رکن بنا دیا اور میں اس پندرہ روزہ جریدے کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ دید شنید میں کالم اور فیچر لکھنا ہوتے تھے اور اس کی تیاری کے لیے ہمارے پاس پورے پندرہ روز ہوتے تھے۔ یوں کسی میگزین کی تاسیسی ٹیم کا حصہ بننے کا تو مجھے 1985 میں ہی موقع مل گیا تھا۔

یہ 1988 ءکی بات ہے جب مجھے لاہور سے ملتان بلایا گیا کہ یہاں سے ایک نئے اخبار کا اجرا ہونے جا رہا تھا اور وہ اخبار روزنامہ قومی آواز تھا۔ قومی آواز کے ایڈیٹر ایثار راعی تھے۔ ایثار راعی ملتان میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار روزنامہ مشرق کے نمائندے ہوتے تھے۔ روزنامہ مشرق ایک سرکاری اخبار تھا۔ راعی صاحب نے اس اخبار کی نمائندگی سے جو کچھ بھی حاصل کیا تھا، ایڈیٹر بننے کی خواہش میں اپنے نئے اخبار میں جھونک دیا۔ روزنامہ قومی آواز میں اسلم جاوید، رانا اکرم خالد، نذر بلوچ، رفعت عباس اور اشرف شیخ بھی ہمارے ساتھ کام کرتے تھے۔ اسلم جاوید نیوز ایڈیٹر، رانا اکرم خالد چیف رپورٹر، نذر بلوچ سٹاف رپورٹر، رفعت عباس ادارتی صفحے کے انچارج اور اشرف شیخ ڈپٹی ایڈیٹر تھے۔ روزنامہ قومی آواز وہ پہلا اخبار تھا جس کے اجرا میں میں شامل ہوا۔ اسی اخبار میں میں نے پہلے شمارے سے اخبار کی تیاری دیکھی اور کاتبوں کی پہلی ہڑتال دیکھنے کا بھی یہیں موقع ملا۔ یہ بہت شاندار تجربہ تھا۔ چوک ڈیرہ اڈہ کے قریب ایک چوبارے پر قومی آواز کا دفتر تھا۔ پچیس اپریل 1988 کو قومی آواز کا اجرا ہوا اور اس میں ”روزنامہ قومی آواز اور میری آواز“ کے نام سے میرا پہلا کالم شائع ہوا۔ قومی آواز کے بعد مجھے روزنامہ اعلان حق کی تاسیسی ٹیم کا حصہ بننے کا بھی موقع ملا۔ انہی دنوں شاید 1986 میں ممتاز طاہر صاحب نے مجھے ملتان سے لاہور بلایا۔ روزنامہ آفتاب کو وہ نئی آب و تاب کے ساتھ شائع کرنا چاہتے تھے۔ یہ اخبار ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت کے ترجمان کے طور پر ایک طرح سے نیا جنم لے رہا تھا۔ لکشمی چوک لاہور میں آفتاب کے دفتر میں ہی میری پہلی بار شوکت اشفاق صاحب سے ملاقات ہوئی تھی جو ایک نوجوان کی حیثیت سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنا کیریئر شروع کر رہے تھے۔

یہ 1990 کا عشرہ تھا جب ملتان سے ”اعلان حق“ کا اجرا ہوا۔ اس کا اجرا سینئر فوٹو گرافر شیخ امین صاحب کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ ان کے ماموں محمد علی انصاری امریکہ میں مقیم تھے جنہیں شیخ صاحب نے اخبار اور ایڈیٹری کے ثمرات سے اسی طرح آگاہ کیا جیسے فی زمانہ بعض لوگ چینل والوں کو اخبار اور اخبار کے ثمرات سے آگاہ کر کے اخبار شروع کرا کے خود ایڈیٹر بن جاتے ہیں۔ لیکن شیخ امین خود اس اخبار کے ایڈیٹر نہ بنے اور اس کے لئے انہوں نے نام ور صحافی اقبال ساغر صدیقی کی خدمات حاصل کیں۔ اخبار کا پہلا شمارہ 14 اگست 1990 کو منظر عام پر آیا اور یہ پہلا اخبار تھا جہاں ہم نے پہلی بار خوش نویسوں کی بجائے کمپیوٹر پر کمپوزروں کو کام کرتے دیکھا تھا۔ اس اخبار میں امروز سے اکمل فضلی اور نوائے وقت سے عبدالقادر یوسفی صاحب بھی جزوقتی خدمات فراہم کرتے تھے۔ یہیں میں نے محمود چوہدری کے ساتھ پہلی بار کام کیا اور اسی اخبار میں رؤف مان ایک نوجوان صحافی کی حیثیت سے سب ایڈیٹر کے طور پر میرے پاس آئے اور میں نے انہیں بتایا کہ اچھا صحافی بننے کے لیے سگریٹ نوشی بہت ضروری ہے۔ رؤف مان جب کوئی خبر یا سرخی بناتے ہوئے مشکل کا شکار ہوتے تو میں انہیں اپنا سگریٹ پیش کرتا تھا بالکل اسی طرح جیسے بعد کے دنوں میں نوائے وقت کے نیوز ایڈیٹر عاشق علی فرخ مجھے اپنے سگریٹ پلا کر مجھ سے نواز شریف کے حق میں اخبار کی سرخیاں بنواتے تھے۔ اعلان حق کا دفتر پل شوالہ پر تھا، اسی اخبار سے مجھے یوسفی صاحب نوائے وقت میں لے گئے تھے جہاں سے مجھے چوتھے اخبار کی بانی ٹیم کا رکن بننے کے لیے اصغر زیدی کے ہمراہ دسمبر 1999 ءمیں روزنامہ نیا دن کی طرف جانا تھا۔ مظہر جاوید، محسن نواز، شکیل انجم، ظفر آہیر، عمران عثمانی، الیاس دانش، مظہر حنیف، گوہر جاوید، سمیت بہت سے دوست اس اخبار کے اجرا کا حصہ بنے اس اخبار نے ملتان کی صحافت پر دیر پا نقوش چھوڑے۔ عارف معین بلے اس کے ایڈیٹر تھے۔ وہ بھی میری طرح نوائے وقت چھوڑ کر وہاں آئے تھے۔ نوائے وقت چھوڑنے کے لیے ہمیں باقاعدہ ایڈوانس تنخواہیں دی گئی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ میں 20 ہزار روپے ایڈوانس لے کر نیا دن اخبار میں گیا تھا اور اس اخبار نے پہلی مرتبہ مجھ سمیت بہت سے کارکنوں کو خوش حال کر دیا تھا۔ لیکن یہ اخبار مالکان کے باہمی اختلافات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسی اخبار سے چوہدری یونس الگ ہو کر نیا دور کے ایڈیٹر بن گئے اور یوں ایک ہی ٹیم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ چوہدری یونس کے ساتھ عارف معین بلے اور بہت سے دوسرے کارکن بھی ”نیا دور“ میں چلے گئے۔ روزنامہ جنگ پانچواں اخبار تھا جس کا پہلا شمارہ شائع کرنے والی ٹیم کا میں بھی حصہ تھا۔ یہ اخبار دو اکتوبر 2002 ءکو شائع ہوا تھا۔ صادق جعفری اس کے پہلے ایڈیٹر تھے۔ ان کے بعد جمیل چشتی نے یہ منصب سنبھالا۔

25 نومبر 2015 کو ملتان سے روزنامہ دنیا کا اجرا ہوا تو اس کا پہلا شمارہ تیار کرنے کا بھی مجھے موقع ملا۔ امجد بخاری دنیا ملتان کے پہلے ایڈیٹر تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اس اخبار کا پہلا شمارہ میں تیار کروں۔ سو ان کی خواہش پر چند روز کے لیے میں اس کی تاسیسی ٹیم کا بھی حصہ بنا اور روزنامہ جنگ کی طرح دنیا اخبار کا پہلا میگزین بھی مجھے ہی تیار کرنے کا موقع ملا۔ بعد کے دنوں میں کچھ عرصہ تک میں اس کے میگزین کے صفحات بھی تیار کرتا رہا لیکن پھر مجھے محسوس ہوا کہ ادارے کو اپنے اجرا کے موقع پر صرف ایک بڑے نام کی ضرورت تھی اور نام بھی وہ جو اعتماد کی علامت ہو۔ مجھے مارکیٹنگ اور شعبہ اشتہارات سے وابستہ ایک سینئر کارکن مجاہد صاحب نے کئی برسوں بعد بتایا کہ جب وہ نیا دن کے پہلے شمارے کے لیے اشتہارات لینے کے لیے جاتے تھے تو اشتہاری پارٹیوں کی جانب سے یہ سوال بھی پوچھا جاتا تھا کہ کیا اس اخبار کی ٹیم میں رضی الدین رضی شامل ہیں؟ اور جب وہ بتاتے تھے کہ جی وہ اسی ٹیم کا حصہ ہیں تو انہیں اشتہار لینے میں آسانی ہوجاتی تھی۔ بعد کے دنوں میں جب یہ کام نکل گیا اور اخبار کی اشاعت معمول پر آ گئی تو اس اخبار کے لیے ہم بھی غیر ضروری ہو گئے۔ اگرچہ ہماری وہاں کوئی تنخواہ مقرر نہیں تھی اور ہم اعزازی طور پر ہی اپنے شوق کی خاطر اور پرانی دوستی کے ناتے یہ خدمات انجام دے رہے تھے لیکن پھر بھی اصل چیز عزت نفس ہوتی ہے۔ جب ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارے قریبی دوست امجد بخاری اب ہمیں دوست کی بجائے ایڈیٹر کی حیثیت سے ملتے ہیں تو ہم نے اس اخبار کو بھی ایسا خیرباد کہا کہ بعد ازاں کسی سے ملاقات کے لیے وہاں جانے کو جی نہ چاہا۔

قارئین محترم آج میں یہ ساری کہانی بیان کر رہا ہوں تو سوچ رہا ہوں کہ کیسے اتنے بڑے بڑے اخبارات اب اپنا کام سمیٹ رہے ہیں۔ چھاپہ خانے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ عملے کی چھانٹی ہو گئی ہے۔ کچھ اخبار پرنٹنگ اسٹیشن تک محدود ہو گئے۔ اور بہت سے اسٹیشنوں سے شائع ہونے والے بعض اخباروں نے اخراجات کم کرنے کے لیے ایک ایک کر کے بہت سے اسٹیشن بند کر دیے اور آج جب میں نے روزنامہ دنیا کی کہانی پر اپنی کتاب کے اس پیش لفظ کو سمیٹ رہا ہوں تو عملی صورت یہ ہے کہ روزنامہ دنیا ملتان بھی اپنا پرنٹنگ پریس بند کرنے جا رہا ہے۔ ملتان اسٹیشن پر عملہ پہلے ہی بہت کم ہے۔ یہاں چند لوگوں سے کام چلا لیا جائے گا جہاں پاکستان کا سب سے بڑا اخبار روزنامہ جنگ چھے صفحات پر آ چکا ہو وہاں باقی اخبارات کا کیا مستقبل ہو گا یہ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اخبارات کو چونکہ اب صحافیوں کی اور ایڈیٹروں کی ضرورت نہیں ‌ رہی اس لیے قارئین کے لیے بھی اب اخبار بے مصرف ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments