پتھروں سے ایٹمی دور تک بہادری کا پیمانہ
پہلے جنگ کھلے میدانوں میں ہوا کرتی تھی۔ تلواریں نیزے بھالے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے پہلے حملے قبضے لوٹ مار یا پھر دفاع ڈنڈوں اور پتھروں سے ہوتا تھا۔ تلواروں کے بعد پتھر دور پھینکنے والی لکڑی کی توپ بنی جو غلیل کی طرح ہوتی تھی بھاری پتھر بیچ میں رکھا اور اچھال دیا۔ بہرحال تلواروں کے دور میں طاقت بہادری اور میدان میں جنگی حکمت عملی صاف نظر آتی تھی۔ جو لوگ افرادی، جسمانی اور عقلی طور پر طاقتور ہوتے وہ اپنا دفاع کرلیتے یا پھر قابض ہو جاتے۔ وہ ایسا دور تھا جب حملے ہوں یا دفاع نہایت ایمانداری سے کیے جاتے تھے۔
پھر جیسے جیسے ہتھیاروں میں جدت آنے لگی ویسے ویسے حملوں یا دفاع میں بھی بددیانتی شروع ہو گئی۔ اب یہ حال ہے کوئی بھی ملک اپنے باغیوں کو تو صرف اور صرف جدید اسلحہ بم مزائل راکٹ کے ذریعے چٹکی میں مسل دیتا ہے۔ نا بات چیت نا مذاکرات دو مزائل فائر کیے اور سب ختم ہو گئے۔ یا پھر دو چار ڈرون سے فائر کر دیے۔ اب بہادری کسی کام کی نہیں اب بارودی اسلحے کے زور پر لڑنے والا بزدل بڑے سے بڑے طاقتور پہلوان کو دو چار سو فٹ یا میٹر دور سے بھی ایک گولی میں مار سکتا ہے۔ دوبدو آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ٹارگیٹ کلنگ بھی کسی دور میں جان پر کھیل کر کی جاتی تھی۔ خنجر تیر یا پھر تلوار سے ٹارگٹ کلنگ کی اور پکڑا گیا۔ یوں سمجھیں اس دور میں ٹارگٹ کلنگ بھی خودکشی ہی ہوا کرتی تھی۔ یہاں قتل کیا وہاں فوراً قاتل کو بھی قتل کر دیا گیا یا گرفتار کرنے کے بعد پھانسی دی جاتی یا پھر عوام کو جمع کرنے کے بعد ٹارگٹ کلر کی گردن اڑا دی جاتی تاکہ دوسروں کو نصیحت ہو۔ پر اب ایسا نہیں ہے۔ پہلے کرائے کا قاتل ایک وقت میں صرف ایک شخص کو قتل کر سکتا تھا۔ پر اب جدید ہتھیار سے ٹارگٹ کلر مطلوبہ شخص کو مارنے کے بعد اپنے بچاؤ میں اور کئی افراد پر دور سے ہی فائر کھول دیتا ہے۔ لہذا آج کا ٹارگٹ کلر جدید اسلحے کی وجہ سے نناوے فیصد محفوظ ہے۔ خودکش پہلے بھی ہوا کرتے تھے پاکستان کی تاریخ کا سب سے پہلا خود کش حملہ لیاقت علی خان پر ہوا تھا۔ پہلے تلوار ہاتھ میں لیے شخص گھر سے نکلتا وہ یہ سوچ کر نکلتا تھا کہ کم از کم دو یا پھر چار کو تو مار دوں گا پھر چاہیے میری جان چلی جائے۔ لیکن ہجوم کے درمیان حملہ آوار ایک خنجر یا تلوار سے کتنے لوگوں کو مار سکتا تھا۔ اس میں بھی مرنے سے زیادہ زخمی ہوتے تھے۔ لیکن بارود نے خودکش حملہ آوروں کو بھی بہت زیادہ فائدہ پہنچایا آج ایک خودکش حملہ آور ایک ساتھ سو افراد کو قتل کر دیتا ہے سو پچاس زخمی الگ۔
موجودہ دور میں دشمن ملک سے جنگ ہو یا پھر باغیوں سے جھڑپ جیت اسی کی ہوتی ہے جو ایٹمی طاقت سے لیس ہو۔ اب یہ تصور ہی نہیں رہا کہ جنگ کی صورت میں باغی اقتدار پر قابض ہوسکتے ہیں۔ جب تک کے باغیوں کی پشت پناہی علانیہ یا غیر علانیہ طور پر راکٹ، توپ، ڈرون، طیارے، مزائل یا ایٹم بموں سے لیس کوئی دوسرا ملک نا کر رہا ہو۔ پہلے کہا جاتا تھا۔ بہادر بنو میدان میں اپنی طاقت کو منوانا ہے۔ اب کہتے ہیں زیادہ بہادر نا بنو ورنہ مار دیے جاؤ گے یا غائب کر دیے جاؤ گے اور کسی نے پوچھنا بھی نہیں۔ آج کسی بغاوت کو کچلنا اتنا آسان ہو گیا ہے جیسے کوئی خاتون فون پر باتیں کرتے کرتے گھر کے سارے کام نمٹا دیتی ہے۔ یا پھر کوئی خبطی، پاگل، بیوقوف انسان برگر کھاتے ہوئے بس ایک بٹن دبا دے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر تباہ اور لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جائیں۔
سوچیں اگر یہ تمام چیزیں ہزاروں سال پہلے ایجاد ہو جاتیں تو کتنے ہی نظریات پیدا ہونے سے پہلے دفن ہو جاتے؟ کتنی ہی مفتوح قومیں آج فاتح ہوتیں اور کتنی ہی فاتح قومیں آج مفتوح ہوتیں۔ تاریخی صفحات پر بہت کچھ موجودہ سے الٹ ہوتا۔ جنگیں، قتال، حملے ہر صورت میں غلط ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں کیونکہ حملہ آوار جو بھی ہو وہ حملہ ہی زمین پانی، دیگر وسائل، خوراک، مال و اسباب، غلام اور عورتیں حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔
اب چونکہ مشینی دور ہے لوگ اپنا کام خود کرنے لگے ہیں اور غلام رکھنا انسانی حقوق کی تنظیموں کے نزدیک کہیں اخلاقی اور کہیں قانونی جرم ہے تو حملہ آور انسانوں کو زندہ پکڑنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس پوری تحریر میں مجھے جو دکھ ہوتا ہے وہ یہ کہ دنیا کی بھاگ دوڑ بہادر اور قابل انسانوں کے ہاتھوں سے نکل کر سائنسی اسلحے اور ایٹم بموں کے زور پر حکمرانی کرنے والے چند بزدلوں کے ہاتھوں میں آ گئی ہے۔ اسی لیے ریاستی مظالم کے خلاف اٹھنے والی کوئی بھی تحریک اب اس طرح کامیاب نہیں ہوتی جس طرح ڈنڈوں، پتھروں تلواروں کے دور میں ہوا کرتی تھیں۔
اب اسرائیل اور فلسطین جنگ کو دیکھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دونوں جانب سے بھاری اسلحہ اور میزائل کا بے دریغ استعمال جاری ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جس کے پاس زیادہ بم اور میزائل ہوں گے انسانوں کا شکار وہ ہی زیادہ کرے گا۔ جنگوں سے چند لوگوں کے مفادات جڑے ہوتے ہیں جب کہ ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتیں ان لوگوں کی ہوتی ہیں جن کو اس لڑائی سے ذرا بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ جنگیں عوام کے کندھے پر بندوق رکھ کر لڑی جاتیں ہیں مگر جنگ کریں یا نہ کریں یہ رائے عوام سے نہیں لی جاتی۔
آخر جیت یا ہار دونوں صورت میں مرنے والے عوام ایک ہندسہ بن کر رہ جاتے ہیں نہ کسی کو ان کے نام یاد رہتے ہیں اور نہ قربانی بس بار بار یہ دہرا دیا جاتا ہے کہ اس جنگ میں ہمارے ستر ہزار لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ جنگ چھڑنے، لڑنے اور جیت کر اقتدار حاصل کرنے والے یہ کبھی جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ان ستر ہزار ہلاک ہونے والے افراد کون تھے اور ان کے خاندان اب کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا بھر میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں، اسلحہ، گولا بارود اور بم، مزائل بنتے اور استعمال ہوتے رہتے اور اس وقت یہ کاروبار دنیا کا بڑا بہترین اور منافع بخش کاروبار ہے۔
کسی نے کہا تھا کہ اگر جنگیں ہونی چاہئیں۔ اگر دس ہزار افراد کے مرنے سے ایک لاکھ کو کام ملتا ہے تو دس ہزار کو مر جانا چاہیے۔ ظاہر ہے جس علاقے میں جنگ سے تباہی ہوتی ہے اس علاقے کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے تعمیراتی اور آرائشی بے شمار چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ دنیا میں ہر بڑا ملک اسلحہ بنا کر بیچ بھی رہا ہے اور خرید بھی رہا ہے۔ مگر آخر میں پھر کہوں گا کہ ایٹمی ہتھیار آنے کے بعد جنگیں میدان میں اتر کر بہادری سے نہیں بل کہ بند کمروں میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہوئے یا ایک ہاتھ سے سوشل میڈیا استعمال کرتے اور دوسرے ہاتھ سے برگر کھاتے ہوئے لڑی جاتی ہیں کہ ایک بٹن دبایا اور پورا ملک یا کئی شہر اپنے شہریوں سمیت دفن ہو جاتے ہیں۔
- حرام خور پارسا - 07/01/2024
- ایک حسینہ، ایک بات، کئی رخ - 28/11/2023
- پتھروں سے ایٹمی دور تک بہادری کا پیمانہ - 14/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).