جب میں بھی پروفیسر شیر علی تھا
”ہاں تو کافر ہو، زندیق اور ملحد! ہم تمھارے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے اور تمھیں پتہ ہے کہ ملحد کا حشر کیا ہوتا ہے؟ سر تن سے جدا۔ بس یہ ٹاسک سر انجام دینے کے لئے 40 علماء کرام نے متفقہ فتوی جاری کرنے کے بعد مجھے سونپا ہے، جن کی میٹنگ علاقے کی مشہور مسجد میں ہوئی تھی۔ علماء حضرات عید کا چاند دیکھنے آئے تھے لیکن دیگر موضوع پر جب باتیں شروع ہوئیں تو آپ کو مارنے یا علاقہ بدر کرنے کا فیصلہ سر فہرست تھا “
یہ الفاظ ایک ملا کے تھے، جس کے مسجد سے ملحقہ حجرے میں ہم بیٹھے اپنی صفائی پیش کر رہے تھے۔ مسجد اس خاندان کی ہے جو اندر سے لبرل اور سیکولر ہے، جبکہ باہر سے قدامت پسند۔ اس خاندان کے مرد اور عورتیں دونوں ماڈرن اور عصری تعلیم سے وابستہ ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس گھر میں دو بندے اس وقت ڈاکٹر بن رہے تھے، جس دن اسی مسجد سے فتویٰ جاری ہوا تھا کہ موسی نیکہ سکول کا پرنسپل ڈاکٹر بوبری گل ملحد ہے۔ کیونکہ مذکورہ شخص ماڈرنیزم اور سائنسی تعلیم کا پرچار کرتا ہے۔
سر بچانے کی خاطر بوبری گل فرار ہو کر جرمنی چلے گئے۔ اور اس کے سکول کے طلباء ایک ہاتھ میں اپنے اہل کتاب بھائی (امریکہ) کا اسلحہ اور دوسرے میں مقدس ملا کی کتاب (جہاد افغانستان) اٹھا کر ملحد روس کے خلاف نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے افغانستان چلے گئے اور اس فیملی کے وہی دو بندے ڈاکٹر بنے۔ مقامی لوگوں پر مقدس فیملی کے مذہبی جادو نے اتنا اثر کیا تھا کہ علاقے کا کوئی ایسا بندہ نہیں تھا جو مقدس ملا سے یہ سوال کرتا کہ مولانا صاحب، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے کہ اپنے بچے ڈاکٹر اور انجینئر بنا رہے ہو اور دوسروں کے طالبان اور مجاہدین؟
کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے کہ اپنے بچے سائنس پڑھنے کے لئے سکول میں داخل کراتے ہیں جبکہ دوسروں کے لئے سائنس حرام قرار دے کر ان کو مدرسوں میں ڈالنے کی تلقین کرتے ہو؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے کہ اپنے پاس ریڈیو سیٹ رکھا ہوا ہے جبکہ دوسروں کے لئے ریڈیو سننا نہ صرف کفر ہے بلکہ 500 روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے کہ اپنے لئے عرب امارات سے میک آپ کا سامان اور آنکھوں کے لئے لائنر منگواتے ہو اور دوسرے مردوں کے لئے میک اپ تو دور کی بات، سرمہ لگانے کی بھی ممانعت ہے؟ اور کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے کہ خود ڈائجسٹ اور رسالے رکھتے ہو اور دوسروں کے لئے مشرق اخبار پڑھنا گناہ بن جاتا ہے کیونکہ یہ بندے کو خدا کی ذکر و فکر سے غافل کرتا ہے۔
مسجد کے حجرے میں بیٹھے مقدس فیملی کے کرائے پر بھرتی ملا نے شہادت کی انگلی سامنے کرتے ہوئے شیخ سعدی کی دو مشہور کتابوں گلستان اور بوستان پر رکھ کر قسم کھائی کہ تیرا سر میں ان منافقین کی طرح کاٹوں گا جہاں پچھلے پندرہ سالوں سے ہر روز وانا بائی پاس پر ازبک مجاہد پھینکتے تھے۔ یہ سن کر ڈر کے مارے میرا گلا بیٹھ گیا۔ سوچا کہ میرا دوست مداخلت کرے گا، جس کو میں اس لیے ساتھ لایا تھا، کہ بندہ کرائے والے ملا کے دور کا رشتہ دار تھا، مگر دیکھا کہ اس کی بجلی بھی چلی گئی ہے۔
اسی دوران دو خوبرو غلمان نما اس کے پیر دبانے اندر آئے۔ شاگرد کے ہاتھ کی ٹچ ملا کا ٹمپریچر نیچے لایا۔ اس قسم کے معاملات میں مذکورہ ملا کا ریکارڈ خاصہ خراب تھا۔ طالبعلمی کے زمانے سے اس کی خوبصورتی کی کہانی سے علاقے کا ہر بندا اچھی طرح آگاہ تھا۔
غلمان کی موجودگی کو غنیمت جانا اور اونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد پوچھا، کہ ملا صاحب یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ میں بھی آپ جیسا مسلمان ہوں؟ وہ بولا کہ ”تو نے فلاں سکول و کالج کے علاوہ مغل خیل الگاڈ کے سٹڈی سرکل میں عورتوں کے حقوق، روشن خیالی مومنٹ اور کمونیزم پر لیکچرز دیے ہیں۔ ان گمراہ کن حرکتوں کی وجہ سے تمہارا سر قلم ہو گا“ میں نے پوچھا کہ اس میں برائی والی بات کون سی ہے؟ ذرا اصلاح کر دیں۔ ملا گرجتے ہوئے بولا، کہ اور تو پتہ نہیں، لیکن میرے سپانسر مقدس فیملی والے کہہ رہے ہیں، کہ ان شیطانی کاموں سے اگر اس بندے کا راستہ آج نہیں روکا گیا، تو کل پورے معاشرے میں فحاشی اور بربادی پھیل جائے گی۔“
اسی دوران میرا دوست چارج لیتے ہوئے بولا کہ ”ملا صاحب اس میں کون سی کفر والی بات ہے؟ مقدس فیملی کے کافی لڑکے اور لڑکیاں مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں۔ دو تین نے تو عیسائیوں والے Forman Christian college and University میں داخلہ لیا ہوا ہے، جس میں کھلا ماحول ہے۔ اور وہ اس جیسے سٹڈی سرکل میں روز بیٹھتے ہیں۔ فلسفے پر بحث کرتے ہیں۔ حتی کہ گرل فرینڈز یا بوائے رکھتے ہیں۔ کیا اس کی فیملی کا اسلام خطرے میں نہیں پڑتا؟“
پتہ نہیں مذہبی حلقوں میں فلسفہ لفظ کیوں اتنا بد نام ہوا ہے؟ فلسفہ فلسفہ فلسفہ، تین چار دفعہ یہ الفاظ غصے میں دہراتے اور تھوکتے، پھر میرے دوست سے کہا کہ یہ بندہ استاد کی روپ میں دجال آیا ہوا ہے، جس نے بشمول آپ کے کافی دوسرے لوگوں کے اذہان چند ہی مہینوں میں بدل دیے ہیں۔ یہ واقعی واجب القتل ہے۔ غلمان کو جب معلوم ہوا کہ استاد کا ٹیمپریچر کافی چڑھا، دونوں نے فوراً استاد کے رانوں کو اور اوپر جاکر دبایا۔ ملا کی آہ کی آواز نکالتے ہی ہم نے کمرا چھوڑ دیا۔
اگلے دن میرے ملحد ہونے کی خبر علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ کسی نے قتل کی دھمکی دی تو کسی نے سوشل بائیکاٹ کیا۔ سوائے میرے کولیگ طارق وزیر، عوامی نیشنل پارٹی کے سابقہ قومی اسمبلی امیدوار ایاز وزیر اور چند قریبی دوستوں کے باقی ساروں نے ہاتھ ملانا تک بند کر دیا۔ اپنی ہی فیملی نے سپورٹ کرنے سے انکار کیا۔ دو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہو گئی، کیونکہ روزگار کے سارے دروازے مجھ پر بند ہو گئے تھے۔ چھوٹا سجاول بستر مرگ پر پڑا تھا، وہ گردوں کا مریض تھا۔ علاج کرنے کی بہت کوشش کی مگر پیسے نہیں تھے۔ دوبئی سے پی ٹی ایم کے سرکردہ رہنما اور دوست احسان کوچی اور احسان انجینیئر اگر ہاتھ نہ بٹاتے تو آج سجاول وادی مچن بابا کے پیر سانپ کے نام سے جانے جانے والے مزار کے اطراف میں ابدی نیند سو رہا ہوتا۔
بعد میں جب حالات اور خراب ہو گئے تو جان بچانے کے لئے وزیرستان کا گھر چھوڑ کر تین سال تک خود ساختہ جلاوطن رہا۔ تین سال بعد واپس آیا تو اپنی ترقی پسند سوچ کے کافی دوست ملے۔ ان کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ مقدس جاہلوں کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ پراگریسیو سوچ کی ایک چنگاری کو اگر آج دبا دی جائے تو کل لاوا بن کہ پھٹتی ہے تو وہ میرا منہ کبھی بند نہ کرتا۔
پروفیسر شیر علی کے ساتھ ضلع بنوں میں بھی ایسا واقع پیش آیا ہے۔ ملاؤں کے غنڈوں نے دو سال پہلے اس کی گاڑی میں بم رکھا تاکہ اس شہر میں انسانی حقوق کے لئے اٹھنے والی آواز کو خاموش کر دیں، جس میں پروفیسر صاحب ایک ٹانگ سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے۔ آج ایک بار پھر اپنی ترقی پسند سوچ کی وجہ سے منکران ارتقاء نے گلیلیو کی صف میں انہیں کھڑا کیا ہے۔ مگر یاد رہیں کہ گلیلیو جیت گیا تھا کیونکہ وہ ترقی پسند تھا جبکہ چرچ ناکام ہو گیا تھا کیونکہ وہ تاریکی پسند تھا۔
- آپ کے باغ میں پریاں اور ہماری بیری کے درخت میں جن - 30/10/2023
- جب میں بھی پروفیسر شیر علی تھا - 26/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).