پینٹ کوٹ ٹائی
یہ وہ ڈریسنگ ہے جو آپ کو بغیر کوئی کام کیے پندرہ بیس منٹ میں ہی تھکن سے بے حال کر دیتی ہے۔ گلا گھٹا ہوا، ہاتھ پاؤں ایسے گویا ہتھکڑیوں بیڑیوں میں قید اور بقیہ جسم جیسے کسی دلدل میں دھنسا ہوا۔ نہ آرام سے چلا جاتا ہے نہ بیٹھا جاتا ہے۔ لیٹنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنے دیسی گرد آلود ماحول میں بچ بچا کر چلنا پڑتا ہے۔ کہیں رک جاؤ تو بھکاری ’مار‘ کر رکھ دیتے ہیں۔ پیشہ ور بھکاریوں کے ساتھ عام لوگوں کا بھی خوامخواہ کچھ نہ کچھ مانگنے کا دل کرنے لگتا ہے۔
اس کی بھی ہمت نہ پڑے تو کیا شناسا کیا انجان آپ سے اپنی مجبوریاں ڈسکس کرنے لگتے ہیں۔ بلاوجہ آپ کو سلام ٹھوکنے لگتے ہیں۔ ملاقاتی آپ کو غوث الاعظم دستگیر سمجھ کر برسوں قبل ڈوب جانے والے نہ صرف اپنے بلکہ اپنے پرکھوں کی باراتوں کے بھی بحری بیڑے سمندر کی تہہ میں سے نکال لانے کی عرضیاں جمع کروانے لگتے ہیں۔ بینکوں، اداروں کا عملہ اور دکانداروں کا چھوٹا سب آپ کی بات توجہ سے سنتے ہیں اور چستی دکھاتے ہیں۔ الیکٹریشن، مکینک اور پلمبر جو ہمہ وقت اپنی زندگی سے تنگ پھرتے ہیں اور کسی ہاتھو خان کو خاطر میں نہیں لاتے اور ہر آنے والے سے تو تکرار کرتے ہیں آپ کو دیکھتے ہی جھک کر نہ صرف کورنش بجا لاتے ہیں بلکہ کام چھوڑ کر چائے بوتل کا بھی پوچھتے ہیں۔
سر سر کرتے پھرتے ہیں اور غلط بیانی سے حتی الامکان اجتناب کرتے ہیں۔ ان کی کاریگر عقل دو تین دفعہ دوران گفتگو موضوع کو وٹس ایپ نمبر دینے دلانے پر مبذول کرواتی ہے۔ آپ نمبر نہ بھی دینا چاہیں تو آپ کو اپنا وزٹنگ کارڈ زبردستی تھما دیتے ہیں جس پر آدھ درجن نمبر درج ہوتے ہیں۔ آپ کنفیوژ ہو جاتے ہیں کہ ان سب میں سے اس مستری کا نمبر کون سا ہے؟
آپ کی پریشانی بھانپ کر وہ فوری ایک نمبر کے نیچے لائن مار کر بتاتا ہے یہ والا جو ’لمبر‘ ہے وہ اس کا اپنا ’ذاتی پرسنل‘ ہے اور یہ والا وہ کسی کو نہیں دیتا بلکہ یہ خاص عنایت اس نے فقط آپ پر کی ہے۔ میں اٹھارہ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے مجھے نمبر دیتے وقت یہ بات بطور خاص باور کرائی کہ ان کا یہ نمبر کسی کے پاس نہیں ہے۔ نشان زدہ نمبر چونکہ آپ کے نیٹ ورک کا نہیں ہوتا لہذا آپ اس فہرست میں موجود اپنے نیٹ ورک والے نمبر کی بابت سوال کرتے ہیں تو وہ آپ کو بتاتا ہے کہ آپ باقی نمبروں کو دفع کریں۔
آپ دفع نہیں بھی کرتے اور دوبارہ پوچھتے ہیں تو آپ کو بتایا جاتا ہے وہ نمبر بھی اس کے اپنے ہی ہیں مگر سب کے سب بند ہیں۔ میں جو ہمیشہ لوگوں کا شکایتی رہتا ہوں ان اٹھارہ لوگوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے ایک لمبے عرصے سے فون نمبر خرید کر نہ صرف آن رکھا بلکہ اس پر وٹس ایپ اور ٹیلی گرام اکاؤنٹس بھی فقط اس لئے بنا کر رکھے کہ یہ نمبر محمدعلی کو دیویں گے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ سوٹڈ بوٹڈ ہو کر چونکہ آپ بغیر کوئی کام کیے ہی تھک کر چور ہو جاتے ہیں لہذا کوئی کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو تمام صاحب لوگ اکثر و بیشتر اسی میں ملبوس نظر آتے ہیں اور اسے پیور فارمل کا درجہ دے رکھا ہے۔ بلکہ دوسرے کام کرنے والوں سے بھی اس کا پرزور تقاضا کیا جاتا ہے۔ اپنا کام ایمانداری سے کرنے والے بیچارے اس فرمائش کو ادھر ادھر کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے بھی یہ پہننا شروع کر دیا تو وہ بھی تنکے کے دو نہیں کرسکیں گے۔
پھر صاحب میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا۔ لہذا وہ دیانت داری سے اپنا کام کیے جاتے ہیں اور بہت ہوا تو کسی خاص میٹنگ میں یہ پیرتسمہ پا اپنے پر لاد کر آ جاتے ہیں اور پوری میٹنگ میں چلنے پھرنے اور بیت الخلا تک سے تنگ ہو جاتے ہیں۔ ٹائی کے فوائد گنواتے ہوئے شفیق الرحمن صاحب نے کہیں لکھا تھا کہ اس کا واحد فائدہ یہ ہے کہ جب آپ اسے اتارتے ہیں تو بے حد فرحت محسوس ہوتی ہے۔ ہم نے بہرحال ٹائی کا ایک اور مصرف بھی خاص الخاص انگریزی فلموں میں دیکھا ہے جن میں اکثر ہیروئن ہیرو کو ٹائی سے پکڑ کر آرام سے کھینچتی ہوئی سلو موشن میں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر لے جاتی ہے۔ یہ تو خیر سخن گسترانہ بات تھی آج کل ویسے ٹو پیس سوٹ کا چلن ہے۔ تھری پیس سوٹ تو نوائے وقت اخبار کی طرح پرانے بابوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ولیموں پر کیا پڑھا لکھا کیا ان پڑھ اکثر آپ کو اسی لباس میں نظر آئیں گے۔
ہم بہت ساری فضول اور ناپسندیدہ چیزوں کو با امر مجبوری اختیار کرتے ہیں کیونکہ لوگ سوچ سے زیادہ جوتی، کپڑے اور دیگر لوازمات تصنع سے آپ کو جج کرتے ہیں اور مرعوب ہوتے ہیں۔
کینیڈین نژاد بھارتی اداکارہ سنی لیونی ٹھیک ہی تو کہتی ہے کہ یہ دنیا پیتل کی ہے۔
- پینٹ کوٹ ٹائی - 18/11/2023
- سردیاں - 03/10/2023
- ڈاک خانے سے کتاب بھیجنے کی روداد - 19/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).